فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس کے حوارہ قصبے پرماہ صیام کے آغاز میں اسرائیلی فوج نے اس وقت یلغار کی جب صہیونی ریاست تل ابیب میں وزارت دفاع کے قریب فائرنگ کے واقعے میں چار یہودی ہلاک اور سات زخمی ہو گئے اور معلوم ہوا کہ حملہ آور فلسطینیوں کا تعلق اسی[حوارہ] قصبے سے ہے۔
اس واقعے کی آڑ میں صہیونی فوج نے حوارہ قصبے کا ایک ہفتے تک مکمل طور پر محاصرہ تو کیے رکھا مگر حوارہ کے کچھ مکانات کو اسرائیلی فوج نے اپنی فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کرتے ہوئے اہل خانہ اور آس پاس کے شہریوں کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی۔
نابلس کے وہ سات مکان آج تک اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے نہ صرف ان میں توڑپھوڑ کی ہے بلکہ گھرمیں موجود خواتین بچوں کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔
فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ مکانوں پرقبضہ اور انہیں سیکیورٹی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے انہیں فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کرنا اسرائیل کی پرانی پالیسی ہے مگر گذشتہ 15 برسوں میں اس رحجان میں کمی آئی تھی۔ حال ہی میں جب حوارہ قصبے کا محاصرہ کیا تو اسرائیلی فوج نے مکانوں کو فوجی چھاؤنیوں کے طورپر استعمال کرنے کی پالیسی دوبارہ اپنا لی۔
اس طرح کے مکروہ اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کا مقصد نام نہاد سیکیورٹی خطرات کی آڑ میں فلسطینیوں کو پریشان کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ خوف کی فضاء کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی فوج دعویٰ کرتی ہے کہ وہ گھروں کی چھتوں سے فلسطینی مزحمت کاروں کی نقل وحرکت اور خطرات کا تدارک کرنے کے لیے کوشش کرتی ہے حالانکہ اصل مقصد شہریوں کو گھر خالی کرنے پر مجبور کرانا مقصود ہوتا ہے۔
خوف اور بے چینی
نابلس کے جن سات گھروں کو اسرائیلی فوج نے چھاؤنیوں میں تبدیل کیا ہے ان میں ایک مکان کی مالکن ام موید عودہ نامی ایک خاتون ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے عودہ نے بتایا کہ جب سے اسرائیلی فوج نے ان کے مکانوں کو یرغمال بنا کران پر قبضہ کر رکھا ہے وہ سخت خوف اور پریشانی کے عالم میں وقت گذر رہے ہیں۔ گھر میں بچے اور نوجوان بچیاں ہیں۔ مگر مکان کی چھت اور بالائی منزل پر صہیونی فوجیوں کا قبضہ ہے۔ وہ گھر سے باہر جا سکتے ہیں اورنہ ہی اندر رہنے کے قابل ہیں۔ اس کیفیت کے باعث وہ سخت پریشان ہیں اور ان کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ام عودہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی پالیسیوں سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ ان کا مقصد کسی خطرے کا تدارک کرنا یا امن وامان کے قیام کے لیے گھروں کو استعمال کرنا نہیں بلکہ فلسطینی آبادی اور ماہ صیام میں روزہ داروں کی زندگی اجیرن بنانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گھر کی دوسری اورآخری منزل پراسرائیلی فوج کا قبضہ ہے اور انہوں نے مکان کے اندر اپنی سہولت کے مطابق توڑپھوڑ بھی شروع کر رکھی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں صہیونی غنڈہ گردی کی شکار فلسطینی خاتون کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کا گھر میں داخل ہونے اور آنے جانے کا کوئی وقت مقررنہیں ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں آدھی رات کو یا کسی بھی وقت گروپوں کی شکل میں گھر میں داخل ہوتے، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے اور اشتعال انگیز حرکات کا ارتکاب کرتے ہوئے گھرمیں داخل ہوتے ہیں۔ گھرمیں موجود اسرائیلی فوجی اس قدر شور غل مچائے رکھتے ہیں کہ ایک پل کو بھی آرام میسرنہیں ہوتا۔
ہمیں تو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اسرائیلی فوجی گھر میں آتے جاتے ان کے بچوں اور بچیوں کو اذیت نہ پہنچائیں کیونکہ ان اصل مقصد ہمیں اذیت سے دوچار کر کے گھر سے نکل جانے پرمجبور کرنا ہے۔
کاروبار تباہ وبرباد
حوارہ قصبے کی بلدیہ کے چیئرمین ناصر حواری کہتے ہیں کہ جب سے صہیونی فوج نے قصبے کا محاصرہ کیا ہے کاروبار زندگی تو مفلوج ہوا ہی ہے مگر کاروباری سرگرمیاں بھی بری طرح تباہی سے دوچار ہوئی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج جب کسی جگہ پر عارضی طور پر بھی قبضہ کرتی ہے تو وہاں سے مہینوں تک واپس نہیں جاتی۔ انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں الگ سے جاری رہتی ہیں، معیشت تباہ اور شہریوں کو سکون برباد ہو جاتا ہے۔
ناصری حواری نے بتایا کہ اسرائیلی فوج جب چاہتی ہے کہ قصبے کے بازار بندوق کی نوک پر بند کر دیتی ہے۔ دکانداروں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ شام کے اوقات میں جب شہریوں کو اشیائے ضروریہ کی خریداری کا زیادہ موقع ملنا چاہیے سرے سے بازار سنسان کر دیے جاتے ہیں۔ اس طرح جہاں شہریوں کا نقصان ہو رہا ہے وہاں کاروباری طبقے کا کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی فوجی ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہر چھوٹے بڑے فلسطینی کو ہراساں کرتے اور ہرشعبہ ہائے زندگی کے شہریوں کو پریشان کرتے ہیں۔ گھروں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کر کے فلسطینیوں کے گھروں کی چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی کھلے عام پامال کیا جاتا ہے۔
صرف کاروباری طبقہ نہیں بلکہ طلباء اور سرکاری ملازمین کو بھی گھروں، اسکولوں اور دفاتر میں آنے جانے کی دشواریوں کا سامنا ہے۔ طلباء اسرائیلی فوج کی پابندیوں کے باعث تاخیر سے اسکول پہنچتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔