اسرائیلی زندانوں میں قید معصوم فلسطینی بچوں، نوجوانوں، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بوڑھوں پر کیا گذرتی ہے، اس کا احوال گاہے بگاہے ذرائع ابلاغ میں آتا رہتا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل کے عقوبت خانوں میں اڑھائی ماہ تک پابند سلاسل رہنے والی فلسطین ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی کم سن اسیرہ دیما الواوی نے رہائی کے کٹھن ایام گذارنے کے بعد ایام اسیری کی دکھ بھری داستان سنائی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے گفت و گوکرتے ہوئے دیما الواوی اور اس کی والدہ ام رشید نے بتایا کہ 75 دن کا یہ عرصہ ان پر کس قدر بھاری ثابت ہوا۔ اڑھائی مہینوں تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی الواوی کی والدہ اپنی بیٹی کے فراق میں نڈھال رہی۔
والدہ نے بتایا کہ بیٹی کے ایام اسیری کے دن میرے اور پورے خاندان کے لیے قیامت سے کم نہ تھے۔ میں دن رات اس سوچ میں رہتی کہ پتا نہیں اب میری بیٹی کس حال میں ہوگی۔ کیا اس نے کچھ کھایا پیا ہوگا یا نہیں؟ کیا اسے اذتیں دی جا رہی ہوں گی۔ یوں اڑھائی مہینوں کے دوران ذہن میں اس کے سوا اور کوئی بات نہیں آئی۔
ام رشید کا کہناتھا کہ 9 فروری 2016ء کی تاریخ ان کی زندگی کا سیاہ ترین دن تھا جب صہیونی غنڈے اس کے کلی جیسی بیٹیا کو اسکول سے گھر لوٹتے ہوئے اٹھا کرلے گئے۔ والدہ نے بتایا کہ ہم یہی سمجھتے رہے کہ دیما الواوی اسکول میں ہے۔ جب اس کے ساتھ کی تمام بچیاں اور بچے اپنے گھروں کو لوٹ آئے توہمیں اس کے حوالے سے پریشانی لاحق ہوئی۔ ہم اسی تگ و دو میں تھے کہ کچھ بچوں نے بتایا کہ الواوی کو اسرائیلی فوجی اٹھا کر لے گئے ہیں۔ بیٹی کی گرفتاری کی خبر ہم سب پربجلی بن کرگی۔
کم سن اسیرہ کو ہولناک اذیتیں دی گئیں
رہائی کے بعد الخلیل شہر میں دیما الواوی کے گھرمیں اخباری نمائندوں، ٹی وی چینلوں کے رپورٹروں، صحافیوں اور عام شہریوں کا تانتا بند گیا۔ ہرایک اس سے اس کی اسیری کے دوران ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ الواوی نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کو بتایا کہ گرفتاری کے وقت سے رہائی کے لمحے تک اسے کسی نہ کسی طرح تشدد اور اذیتوں کا سامنا رہا۔ اس دوران اسے طرح طرح کے مکروہ ہتھکنڈوں کا سامنا رہا ہے۔
الواوی نے بتایا کہ فروری کی یخ بستہ راتوں میں یہودی تفتیش کار اس پر ٹھنڈا پانی پھینکتے۔ اگر اس کی آنکھ لگ جاتی تو فورا پانی ڈال دیا جاتا۔ یہودی تفتیش کاروں کی جانب سے جسمانی تشدد سے زیادہ ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی مجھے جان سے ماردینے کی دھمکی دی جاتی۔ کبھی میرے والدین کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالنے کی دھمکیاں دی جاتیں اور کبھی کہاجاتا تمہیں یہودیوں کے قتل کے مقدمات میں پھنسا کرہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندانوں میں ڈال دیا جاتا۔ میرے سامنے زخمی حالت میں بچے لائے جاتے۔ ان پر تشدد کیا جاتا اور مجھے کہا جاتا ہے کہ انہیں دیکھ لو اور ان سے ہونے والے سلوک سے عبرت حاصل کرو۔ میں نے ایسے کئی زخمی بچے اپنی کوٹھڑی کے آس پاس دیکھے جو ہولناک تشدد کی وجہ سے دن رات چیخ پکار کرتے اور اپنی ماؤں کو یاد کرتے۔ ہمیں نماز کی ادائی سے روکا جاتا۔ وضو نہ کرنے دیا جاتا اور نہ ہی کوئی کتاب پڑھنے کی اجازت دی جاتی۔
والدہ مسز ابو رشید نے بتایا کہ ان کی کل 6 بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں، مگر دیما الواوی پورے گھر میں ایک شمع کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی کم عمری کے دوران اسرائیلی جیل میں قید کی وجہ سے ہم جس کرب سے گذرے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ دیما الواوی کے اسیری کے ایام میں ان کا گھر زندہ لوگوں کا قبرستان لگتا تھا۔ تمام چھوٹے بڑے کے چہرے مرجھائے رہتے اور غم سے نڈھال ہوتے۔ بہت کم ایک دوسرے سے بات چیت ہوتی۔ سب گم سم رہتے۔ بیٹی جسمانی اور ذہنی طورپر تشدد کے ہولناک مراحل سے گذری مگر اس کی قید نے ہم سب گھر والوں کو ذہنی اور نفسیاتی اذیت سےدوچار کررکھا تھا۔
فوجی قانون
فلسطینی سماجی اور انسانی حقوق کارکن امجد النجار نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو جیلوں میں ڈالنا اورانہیں اذیتیں دینا اسرائیل کے ان گنت جرائم کے تسلسل کی ایک کڑی ہے۔
دنیا میں ایسا کوئی قانون نہیں جس میں کم سن بچوں کا عدالتی ٹرائل کیا جاتاہو۔ مگر اسرائیل میں بچوں کا نہ صرف ٹرائل کیاجاتا ہے بلکہ ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات قائم کیے جاتےہیں۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس میں 12 سال کے عمر کے بچے کا بھی ٹرائل ہوتا۔ صہیونی ریاست کے اسی ظالمانہ قانون کی آڑ میں 14 سالہ دیما الواوی کا بھی اڑھائی ماہ تک ٹرائل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کے ظالمانہ قانون کے تحت 12 سے 16 سال کی عمر کے بچوں اور بچیوں کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں 75 دن سے چار ماہ تک قید اور 2500 ڈالر تک جرمانہ کی سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطینی کم سن اسیرہ دیما الواوی کو کچھ عرصہ قبل اسرائیلی فوجیوں نے حراست میں لیا۔ اس پر یہودی فوجیوں پر چاقو سے حملے کا جعلی الزام تھوپا گیا اور اسی الزام کے تحت اس کا اڑھائی ماہ تک ٹرائل جاری رہا۔
دیما الواوی تنہا فلسطینی کم سن بچی نہیں جو اسرائیلی زندانوں میں قید رہی بلکہ اس وقت بھی اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں میں 400 بچے شامل ہیں۔