ایک طرف اسرائیلی فوج پوری طاقت کے ساتھ فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ [انتفاضہ القدس] کو کچلنے کے لیے تمام تر وسائل کا استعمال کر رہی ہے اور دوسری جانب فوج کواپنی ناکامی بھی نوشتہ دیوار دکھائی دینے لگی ہے۔
اسرائیلی اخبارات نے عسکری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوجی حلقوں میں ان دنوں یہ بحث چلی رہی ہے کہ تحریک انتفاضہ القدس کسی بھی وقت غیرمعمولی حد تک شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ایسے میں اسرائیلی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اسے روکنا اور بھی مشکل ہوجائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج میں تحریک انتفاضہ کا خوف اور بوکھلاہٹ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
عبرانی اخبار’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے اپنے ایک تجزیاتی فیچر میں لکھا ہے کہ حالیہ چند ہفتوں کے دوران فلسطینی شہریوں کی جانب سے مزاحمتی کارروائیوں کا انداز تبدیل کیا گیا ہے جس نے فوج کو ایک نئی پریشانی اور الجھن میں مبتلا کر دیا ہے۔
اخباری رپورٹ میں عسکری ماہرین کی آراء کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ دریائے اردن کے مغربی کنارےاور مقبوضہ بیت المقدس میں پیش آئند ہفتوں کے دوران فلسطینیوں کی پرتشدد کارروائیوں کی لہر میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مغربی کنارے میں تعینات اسرائیلی فوج کے چھ بریگیڈ کے کمانڈروں نے حال ہی میں ایک مشترکہ اجلاس کے دوران بھی فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ میں امکانی شدت پس بات چیت کی۔ فوجی افسران کا کہنا تھا کہ چاقو اور چھری کے ذریعے جاری فلسطینی تحریک انتفاضہ اب نئی اور زیادہ خوفناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اب 13 سال پیچھے نہیں پلٹیں گے بلکہ وہ تحریک کو نئی شکل دیں گے۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں بیت المقدس میں اسرائیل کی ایک بس میں ہونے والے دھماکے سے بھی لی جا سکتی ہے جس میں اکیس یہودیوں کو زخمی کر دیا گیا تھا۔