فلسطین میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سرطان کے موذی مرض میں مبتلا اسیر یسری المصری کی حالت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ المصری کی بینائی بھی بتدریج ختم ہونے لگی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کےمطابق اسرائیل جیل میں انسانی حقوق کے ایک مندوب سے ملاقات کے دوران یسری المسری نے بتایا کہ پچھلے کئی ماہ سے اس کی دونوں آنکھوں کی بینائی کم ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ المصری کا کہنا ہے کہ جیل انتظامیہ کی طرف سے آنکھوں کے علاج کے لیے کسی قسم کی سہولت مہیا نہیں کی گئی ہے۔ جس کے باعث بینائی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
اسیر کا کہنا ہے کہ جس طرح اسرائیلی جیل انتظامیہ نے اس کے سرطان کے مرض کے معاملے میں کھلی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح اب اس کی بینائی کے متاثر ہونے پر بھی کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے اسیر یسری المصری کینسر جیسے موذی مرض کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اب وہ آنکھوں کی بیماریوں کا بھی شکار ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ عالمی برادری اسیر کی رہائی اور فوج علاج شروع کرانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔
انسانی حقوق کی تنظیم "اسیران کلب” کے مندوب نے اطلاع دی ہے کہ غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے اسیر یسری المصری اسرائیل کی بدنام زمانہ "ایچل” جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ صہیونی جیل انتظامیہ کی جانب سے اسیر کے خوفناک مرض کے علاج کے لیے کسی قسم کی طبی سہولت فراہم نہیں کی جا رہی ہے جس کے باعث وہ کسی بھی جان کی بازی ہارسکتا ہے۔ کینسر کے اثرات اور جراثیم اس کے جسم کے بیشتر حصوں میں پھیل چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے مندوب کا کہنا تھا کہ اسیر یسری المصری کے معدہ میں السر کی وجہ سے سرجری کی گئی تھی جس کے باعث وہ مزید بگڑ گئی اور کینسر کا مرض جسم کے دوسرے حصوں میں تیزی سے سرایت کرنے لگا ہے۔ جس کے بعد المصری کی حالت تشویشناک حد تک خراب ہے۔
اسیران کلب کے مندوب کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسیر المصری سے متعلق صہیونی جیل حکام سے رابطے کی کوشش کی مگر اس میں انہیں ناکامی کا سامناکرنا پڑا ہے۔ صہیونی جیل انتظامیہ کی جانب سے انسانی حقوق کے گروپوں کے مطالبات کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے جس کے باعث المصری کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
خیال رہے کہ یسری المصری کا تعلق غزہ کی پٹی کے وسطی علاقے دیر البلح سے ہے۔ اسے اسرائیلی فوج نے 9 جون 2003ء کو حراست میں لیا تھا جس کے بعد اسے بیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔