اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن محمد نزال نے زور دیا ہے کہ حماس کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطے میں اس وقت جاری تبدیلی کی لہر انقلابی قوتوں اور مزاحمتی تحریکوں کے لیے سازگار ہے۔
محمد نزال نے ان خیالات کا اظہار مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے فلسطین کی موجودہ صورت حال کے تناظرمیں سیرحاصل گفتگوکی اور کہا کہ عرب اور مغربی دنیا میں حماس کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں پائی جا رہی ہیں۔ ان کا ازالہ ضروری ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں بالخصوص حماس کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کوختم کرے۔ انہوں نے مصرکی ایک عدالت کی جانب سے حماس کو دہشت گرد قرار دیے جانے اور اس کے رد عمل میں ہونے والے بعض اقدامات کا بھی خصوصی تذکرہ کیا۔ فلسطین کی تازہ ترین صورت حال کے ساتھ ساتھ عرب ممالک بالخصوص یمن کے تنازع پربھی بات کی۔
محمد نزال کے ساتھ ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جاتی ہے
*۔۔۔مصر کی عدالت کی جانب سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے سے متعلق دی گئی درخواست واپس لینے کے بارے میں آپ کیا تبصرہ کریں گے؟
۔۔۔مصر کی ایک ماتحت عدالت کی جانب سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کا فیصلہ’’غلطی‘‘ بلکہ ایک ’’اسکینڈل‘‘ بنانے کی ناکام کوشش کی جسے سیاسی، قانون اور اخلاقی کسی پہلو سے صائب فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اب چونکہ مصری عدالت سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کی درخواست واپس لے لی گئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ مصری نظام حکومت و عدالت اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر غور کررہاہے۔ ماضی کی غلطیوں یا غلط فہمیوں کی اصلاح کی یہ بہتر کوشش ہے۔ حماس کے خلاف دی گئی درخواست واپس لیے جانے پرجماعت نے خیر مقدم کیا ہے لیکن میں یہ واضح کردوں کہ محض درخواست واپس لے لینے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ مصری حکومت کو اس سے آگے بڑھ کر بعض اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس ضمن میں اہم اقدامات حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے سے رجوع کرنا بھی شامل ہے۔
* لیکن سوال یہ ہے کہ کسی عام مصری شہری کی جانب سے حماس کے خلاف دائر کی گئی درخواست پرمصری حکومت کو کیسے مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
۔۔ حماس کے خلاف مصری عدالت میں دی گئی درخواست کو وہاں کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مصر کے کسی عام شہری کی جانب سے حماس پرپابندیوں کی درخواست دائر کرنا دراصل مصر کے انٹیلی جنس اورسیکیورٹی اداروں کو اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ بھی حماس کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں۔ اس لیے حماس یہ سمجھتی ہے کہ براہ راست مصری حکومت اس درخواست میں فریق تو نہیں ہے تاہم وہاں کے سیاسی حالات سے یہ تاثر ضرور ابھرتا ہے کہ حماس جیسی تنظٰیموں کے خلاف فضاء ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے عدالتی فیصلے سے مصر کی انتظامیہ کو سیاسی اور قانونی پہلو سے ایک نئی مشکل میں ڈال دیا۔
*اگر آپ کا یہ تاثر درست ہے تو کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے کہ آیا مصری حکومت نے حماس کے خلاف دی گئی درخواست پر فیصلہ چیلنج کیوں ہے؟۔
۔۔۔حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے سے مصری حکومت قانونی اور سیاسی پہلو سے ایک نئی مشکل میں پھنس گئی ہے۔ حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ مصری حکومت حماس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق اور تعاون ختم کردے۔ عملا ایسا کرنا مصر کے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ حماس صرف کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ ایک جغرافیائی زمینی حقیقت ہے۔ مصرکی جانب اس حقیقت کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں مصرکی تمام حکومتوں نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنی اہمیت کا لوہامنوا یا ہے۔ اس لیے اب موجودہ حکومت کے لیے فلسطین کے بارے میں پالیسی کو یکسرتبدیل کرنا ممکن نہیں۔
*۔۔ آپ نے کہا کہ مصری حکومت کو کچھ مزید اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ آپ کے خیال میں وہ اہم اقدامات کیا ہوسکتے ہیں؟
۔۔ میں نے عرض کیا تھا کہ مصرکی عدالت میں حماس کے خلاف دی گئی درخواست واپس لینا ہی کافی نہیں بلکہ غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مصرکو کچھ مزید اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام شہید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کا فیصلہ بھی واپس لینا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ فلسطینی قوم بالخصوص مزاحمتی تنظیموں اور حماس کے خلاف جاری منفی میڈیا پروپیگنڈے کا بھی ازالہ ناگزیر ہے۔
*۔۔۔ آپ کے خیال میں آپ کے مذکورہ مطالبات مبنی برحقیقت ہیں اور مصری حکومت ان پر مثبت ردعمل کا اظہار بھی کرے گی؟
۔۔۔ ہمارے یہ مطالبات کوئی غیرمعمولی نہیں ہیں بلکہ یہ معمول کے مطالبات ہیں۔ ہمیں اس بات کی قوی امید ہے کہ مصری حکومت ہمارے ان مطالبات کاہمیں مثبت جواب دے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مضبوط سیاسی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا مظاہرہ کیا جائے۔
محمود عباس اور قومی مفاہمت
*۔۔۔ فلسطینی عبوری وزیراعظم رامی الحمد اللہ نے حال ہی میں غزہ کی پٹی کا دورہ کیا اور حماس کی قیادت سے تفصیلی ملاقات کی۔ آپ کے خیال میں وزیراعظم کا یہ دورہ’’پانی کے تالاب‘‘ میں کوئی نئی تحریک پیدا کرنے کا باعث بنے گا؟ نیز کیا اس دورے سے حماس اور تحریک فتح کے درمیان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی؟۔
۔۔۔ مجھے یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ وزیراعظم الحمد اللہ اور حماس کے وفد کے درمیان ہوئی ملاقات میں قومی مفاہمت اور موجودہ بحرانوں کے حوالےسے کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا۔ ملاقات میں اگرچہ غزہ کے ملازمین کی روکی گئی تنخواہوں، سرحدوں، گذرگاہوں کےامور، غزہ کی تعمیر نو اور بحالی، فلسطین میں پارلیمانی، صدارتی اور بلدیاتی انتخابات جیسے اہم موضوعات پر بات چیت ضرور ہوئی مگر وہ کوئی زیادہ نتیجہ خیز نہیں رہی ہے۔
*۔۔۔ اگروزیراعظم الحمد اللہ کا دورہ غزہ ناکام رہا تو فلسطینی قوم کو بحرانوں سے نکالنے میں کیا امر مانع ہے؟۔
۔۔۔ میرے خیال میں قومی مفاہمت کے حوالے سے فلسطینی اتھارٹی شفافیت کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے اور نہ صدر محمود عباس کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہے۔ جہاں تک وزیراعظم رامی الحمد اللہ کے دورہ غزہ کا تعلق ہے تو یہ دراصل غزہ کی تنظیموں کو یہ پیغام پہنچانا تھا کہ مصرمیں منعقدہ عرب سربراہ کانفرنس میں فلسطینیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی وضاحت مقصود تھی کہ غزہ کی پٹی میں سابق حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائی، گذرگاہوں کی سیکیورٹی کے معاملات اور غزہ کی تعمیر نو جیسے مسائل پرعرب ممالک یوسو ہیں۔ عرب لیگ کے سربراہ جلاس سے خطاب میں صدر محمود عباس نےحماس کے بارے میں جو لب ولہجہ اختیار کیا ہے اس نے ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے غزہ کی پٹی کے معاملے کو یمن میں جاری حوثیوں کی بغاوت کے مشابہ قرار دیتے ہوئے غزہ میں بھی فوجی آپریشن کی بات کی ہے۔
*۔۔۔ صدر عباس کا عرب لیگ کے سربراہ اجلاس سے خطاب اوراس میں غزہ کی پٹی میں یمن کی طرز کے فوجی آپریشن کی بات کرنا خلاف توقع تھا یا اس کی امید تھی؟۔
۔۔۔ یمن کے حالات کو فلسطین کے حالات کے مشابہ قرار دینا ایک غیر دانشمندانہ طرز فکرہے۔ اس نظریے کو کسی صورت میں قابل قبول نہیں قراردیا جاسکتا ہے۔محمود عباس کا یہ بیان ہم سب کے لیے حیران کن اور چونکا دینے والا ہے۔ جہاں تک ان کے اس بیان کی وضاحت کی بات ہے تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس طرح کا بیان ’’سیاسی سوچ کے فقدان‘‘ کا نتیجہ ہے۔
*۔۔۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ صدر عباس کے بیان کے بعد قومی مفاہمت کی گاڑی الٹ گئی ہے؟۔
۔۔۔ حماس اور بعض دوسری سیاسی تحریکوں نے قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کی بات کی ہے۔ ہم فلسطینی قوم کو انارکی اور اتفراتفری کے انتشار سے نکالنا چاہتے ہیں،لیکن قومی مفاہمت کی ہماری مساعی کو دیوار پرمارنے کی کوشش کی گئی۔ اگر فلسطینی اتھارٹی قومی مفاہمت سے رجوع کرلیتی ہے تو ہم ایک بار پھرصفر پرواپس جا سکتے ہیں اور مفاہمت کے ضمن میں ہونے والی تمام پیش رفت رائیگاں جائے گی۔
قومی مفاہمت اپنے الفاظ ہی سے ظاہرہے جس کے پیچھے کوئی سیاسی، گروہی یا جماعتی مفاد نہیں ہوسکتا۔ اگرمفاہمت کی آڑ میں کسی دوسری کو سیاسی طورپر بلیک میل کرنا ہو تو حماس ایسی مفاہمت پر یقین نہیں رکھتی۔ قومی مفاہمت اس لیے ناگزیرہے تاکہ فلسطینی قوم ایک پلیٹ فارم پرچلتے ہوئے اپنے سلب شدہ حقوق کے حصول بالخصوص فلسطین کی آزادی اور اسلامی مقدسات کےدفاع کی جدو جہد کے لیے ہونے والی کوششوں کو مجتمع کرسکے۔
*۔۔۔فلسطینی اتھارٹی کے موجودہ طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے قومی مفاہمت کا مستقبل آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
۔۔۔ فلسطینی قوم کو مفاہمت کے لیے جتنی ضرورت آج ہے ماضی نہیں تھی۔ اس وقت پورا عرب خطہ تبدیلی کی لہر سے گذر رہا ہے۔ موجودہ حالات میں قومی مفاہمت تمام انقلابی تنظیموں اور مزاحمتی قوتوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ مفاہمت کےحوالے سے ہماری مساعی جاری ہیں اور ہمیں آنے والے وقت میں مزید بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ ہم مایوس ہرگز نہیں ہیں۔
یمن کا بحران، اردن کی اخوان المسلمون
* یمن میں سعودی عرب کی فضائی کارروائی کےبعد حماس نے ابتدائی تین دن تک کوئی واضح رد عمل ظاہرنہیں کیا۔ تین دن بعد حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں محتاط انداز میں جاری کردہ بیان میں حماس کا موقف بیان کیا گیا۔ کیا حماس کے اس انداز کو جماعت کے کسی دوسرےملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پرمحمول کیا جائے؟۔
۔۔۔ حماس کی واضح پالیسی تویہی ہے کہ ہم کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز پرچل رہے ہیں۔ تاہم خطے میں جاری تبدیلیوں کے تناظرمیں حماس کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ سیاسی تغیرات کے مسئلہ فلسطین پربھی گہرے اثرات مرتب کررہے ہیں۔ اس لیے حماس کو اپنی پالیسی واضٰح کرنا ضروری ہے۔ خطے میں جاری تبدیلیوں کے حوالے سے حماس کا موقف واضح ہے جس کی مزید تاویل اور تفصیل وتوضیح کی ضرورت ہرگزنہیں ہے۔
*۔۔۔اردن میں اخوان المسلمون اس وقت ایک بڑے داخلی بحران سے گذر رہی ہے۔ اردن کی اخوان میں پھوٹ جماعت کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ جماعت سے منحرف ہونے والے بعض رہ نمائوں نے الزام عاید کیا ہے کہ اخوان کی صفوں میں پھوٹ کی ذمہ دار حماس ہے۔ آپ اس الزام کو کس نظرسے دیکھتے ہیں؟۔
۔۔۔۔ حماس کی تزویراتی حکمت عملی تو یہ ہے کہ اخوان المسلمون متحد رہے۔ حماس اپنے قیام سے آج تک اتحاد و وحدت امت کے لیے کوشاں رہی ہے۔ حماس کسی فرقے، گروہ یا جماعت کی طرف دار نہیں۔ اس لیے حماس کے بارے میں اگرکسی کے دل ودماغ میں کوئی غلط فہمی موجود ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے۔ میرے خیال میں اردن کی اخوان میں پھوٹ ڈالنے کے الزامات باطل اور بے بنیادی ہیں، جن کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ الزامات محض خیالی باتیں ہیں اور مخصوص ابلاغی اداروں نے اسے مبالغہ آرائی کی شکل دے کر اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش کی ہے۔ حماس اردنی قوم اور اخوان المسلمون کو متحد دیکھنا چاہتی ہے اور جماعت میں پھوٹ حماس کے مفاد نہیں بالکل نہیں ہے۔