جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیلی حکام فلسطینی اسیروں کو رمضان کی برکات سے محروم کر رہے ہیں

جمعہ 14-ستمبر-2007

رمضان المبارک کے نزول سے ہی جہاں اسرائیلی عقوبت خانوں میں پابند سلاسل اسیروں کی عبادت وریاضت کی طرف رحجان بڑھ جاتا ہے وہیں اسرائیلی جیلروں کی جانب سے قیدیوں کو مزید مشکلات سے دورچار کرنے اور انہیں رمضان کی حقیقی برکتوں سے مستفید ہونے سے محروم کرنے کے لیے سختیوں میں بھی اضافہ کردیاجاتاہے-
 امسال بھی ماہ صیام کے نزول کے موقع اسرائیل کی تیس سے زائد جیلوں میں فلسطینی اسیروں کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے- رمضان کے علاوہ بھی قیدیوں کے ساتھ صہیونی درندگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی لیکن رمضان میں قیدیوں کو مسلسل بیڑیوں میں جکڑے رکھنے، مناسب خوراک سے محروم کر دینے اور ناقص غذاکی فراہمی سے انہیں روزوں سے محروم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں- مضرصحت خوراک ،خصوصا سحر و افطار کے اوقات میں کھانے کی عدم فراہمی کا مقصد قیدیوں کو روزے باز رکھنے کی کوشش ہے- ادھر قیدی بھی استقامات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح کی پابندیوں میں بھی خود کو سرخرو کر لیتے ہیں- سحری کے وقت کھانا میسر نہ ہونے کی صورت میں وہ کچھ کھائے پیئے  بغیر ہی روزے کی نیت کرلیتے ہیں اور افطاری کے وقت بھی کچھ نہ ملنے پرپانی سے افطار کر لیتے ہیں-
بعض جیلوں میں قیدیوں کو جیل کینٹین سے از خود کھانا حاصل کرنے کی ایک محدود اجازت ہوتی ہے، لیکن یہودی ذہنیت دیکھئے، پہلے توکینٹین کو سحرو افطار کے دوران بند رکھاجاتا ہے – اگرکینٹین کھلی بھی ہو تو اس میں کھانے کی کوئی چیز دسیتاب نہیں ہوتی- رمضان کے  آغاز میں بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے ’’ریڈ کراس‘‘ نے اسرائیل کی تیس جیلوں میں قیدیوں کے احوال جاننے کے لیے ایک سروے کاا ہتمام کیا-سروے کے بعد ریڈ کراس کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’قیدیوں کو رمضان میں نہ صرف بنیادی خوراک سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے بلکہ ان پر تشدد میں بھی اضافہ کردیاجاتاہے-زیادہ سے زیادہ دیر تک انہیں بیڑیوں میں جکڑا جاتا ہے – جیل اہلکاردوران تفتیش روزہ دار قیدیوں سے بار بار روزہ توڑنے کا مطالبہ کرتے ہیں- روزہ توڑنے کی شرط پران پر تشدد کم کرنے کی پیش کش کی جاتی ہے- اس طرح رمضان میں قیدیوں کو عالمی طورپر مسلمہ حقوق سے یکسر محروم کردیاجاتا ہے‘‘- ریڈ کراس کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گیارہ ہزار سے زیادہ ہے جن میں تین سو بچے اور ایک سو پچیس خواتین بھی شامل ہیں-
اسیر خواتین کے ساتھ یہودیوں کے بہیمانہ سلوک کی مثال شاید ہی کسی دوسری جگہ مل سکتی ہو- خواتین کو ننگا کرکے رمضان میں انہیں جیل میں رقص کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے- تشدد کا یہ انوکھا حربہ ہے، جس میں مرد اور خواتین جیلر مل کر خواتین کی عریاں حالت میں تفتیش کرتے ہیں- اس طرح بد ترین تشدد کی وجہ سے گزشہ چند برسوں کے دوران دوسو کے قریب قیدی جان ہار بیٹھے ہیں-
قیدیوں سے ان کے عزیزوں کو ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی-اگر اجازت ملتی بھی ہے تو اسرائیلی کارندے ملاقات کے موقع پر موجود ہوتے ہیں اور اسیروں اور ان کے ملاقاتیوں کے درمیان ہونے والی تمام بات چیت کو ریکارڈ کرتے ہیں- بیشتر قیدیوں کو رمضان میں قید تنہائی میں ڈال دیا دجاتا ہے- قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی حکام کے اس سلوک پر’’ریڈ کراس ‘‘نے بھی سخت احتجاج کیا ہے، لیکن یہودیوں کے ہاں احتجاج کی کوئی اہمیت نہیں – فلسطینی اسیر صبر سے یہودیوں کے مظالم برداشت کرتے  آئے ہیں اور  آج تک نہ تو اسرائیل کا جبر انہیں جھکا سکا اور نہ یہودیوں کی کوئی لالچ ان کے کام  آئی-

مختصر لنک:

کاپی