قبلہ اول کے تاریخی دروازوں میں ایک ’باب الرحمہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ باب الرحمۃ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کی آمد ورفت کے لیے بند مگر یہودیوں کے لیے ہمہ وقت کھلا رہتا ہے۔ قبلہ اول کا یہ وہ تاریخی دروازہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ قبۃ الصخرہ سے بھی پہلے بنایا گیا۔ اموی اور عباسی خلفاء نے اس دروازے کی مزید توسیع کی اور اس کے عین اوپر ایک چبوترا تعمیر کیا گیا جہاں شہرہ آفاق مسلمان متکلم حجۃ الاسلام امام غزالی علیہ رحمۃ عرصہ دراز تک تالیف و تصنیف میں مشغول رہے۔ کیو پریس کی رپورٹ کے مطابق امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شہرہ آفاق تصنیف ‘احیاء العلوم‘ کا ایک بڑا حصہ اسی چبوترے میں بیٹھ کر قلم بند کیا تھا۔
اسرائیلی قبضے سے قبل باب الرحمۃ فلسطینی طلباء کے لیے بھی ایک مرکز رہا جہاں حفظ قرآن کریم اورناظرہ قرآن کی تدریس کے ساتھ ساتھ باقاعدگی کے ساتھ دروس ہائے قرآن کی کلاسز کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔
مگر اب اس دروازے سے متصل دونوں بڑے ہال ویران بلکہ کیڑوں مکوڑوں کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔ یہاں صرف یہودیوں کو داخل ہونے اور تلمودی تعلیمات کےمطابق مذہبی رسومات کی ادائی کی اجازت دی جاتی ہے۔
گئے وقتوں میں یہ جگہ قبلہ اول کی سب سے آباد اور بارونق سمجھی جاتی تھی اور آج یہ فرزندان توحید کی قدم بوسی کو ترستی ہے۔