حال ہی میں حماس کے کارکنان نے خفیہ رائے دہی کے نظام کے تحت جماعت کے سیاسی شعبے کے نئے سربراہ کا انتخاب کیا۔ اس بار سیاسی شعبے کی قیادت کا قرعہ فال اسماعیل ھنیہ کے نام نکلا۔ اسماعیل ھنیہ کون ہیں؟ ذیل میں اسی سوال کے جواب کے لیے اسماعیل ھنیہ کے تعارف پر مبنی چند نکات بیان کیے جار رہے ہیں۔
حماس کے نو منتخب صدر کا پورا نام اسماعیل عبدالسلام ھنیہ ہے۔ وہ 23 مئی 1963ء کو غزہ کے ساحلی علاقے میں قائم پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔
میٹرک غزہ میں الازھر انسٹیٹیوٹ سے کیا۔ سنہ 1980ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اسی عرصے میں انہو نے اسلامی یونیورسٹی غزہ میں عربی ادب میں داخلہ لیا اور سنہ 1987ء میں سند فراغت حاصل کی۔ عربی ادب میں انہوں نے نمایاں پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔
یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وہ حماس کے طلباء گروپ ’اسلامک بلاک‘ سے وابستہ ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسپورٹس کی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ھنیہ سنہ 1983ء سے 1984ء تک اسلامی یونیورسٹی غزہ میں طلباء کونسل کے رکن رہے۔ اگلے سال انہیں طلباء کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔
سنہ 1987ء کو فلسطین میں پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی۔ اسی سال اسماعیل ھنیہ کو اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا۔ گرفتاری کے بعد وہ 18 روز جییل میں رہے۔ سنہ 1988ء میں انہیں دوبارہ حراست میں لیا گیا اور چھ ماہ تک پابند سلاسل رہے۔ دوران طالب علمی سے اپنے ولولہ انگیز خطابات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔
سنہ 1989ء میں ان کی تیسری بار گرفتاری عمل میں لائی گئی اور مسلسل تین سال اسرائیلی جیلوں میں قید رہے۔
اسماعیل ھنیہ کو 17 دسمبر 415ء فلسطینیوں کو اسرائیل نے جنوبی لبنان بے دخل کیا توان میں اسماعیل ھنیہ بھی شامل تھے۔
اسماعیل ھنیہ نے غزہ میں اسلامی یونیورسٹی میں بھی مختلف عہدوں پر کام کیا۔ سنہ 1997ء میں انہیں سپریم ڈائیلاگ کونسل کا رکن، دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران انہیں اسلامی قومی تنظیموں سے رابطہ کے لیےقائم کردہ سپریم فالواپ کمیٹی میں حماس کا مندوب مقرر کیا۔
اسرائیلی فوج نے اسماعیل ھنیہ کو متعدد بار قاتلانہ حملوں میں شہید کرنے کی بھی کوشش کی۔ 6 ستمبر 2003ء کو انہیں الشیخ احمد یاسین کے اس وقت شہید کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔
اسماعیل ھنیہ نے تمام فلسطینی قومی تنظیموں بالخصوص تحریک فتح کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولا اور قومی مفاد کے پیش نظر وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ تاکہ قومی مفاہمت کے تحت تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک قومی حکومت کی تشکیل عمل میں لائی جاسکے۔
سنہ 2006ء میں فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں انہوں نے حماس کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ پارلیمنٹ کارکن منتخب ہونے کے بعد انہوں نے فلسطینی سیاسی جماعتوں میں اتفاق اور مفاہمت کے لیے غیرمعمولی کوششیں کیں۔