فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن 65 سالہ بوڑھے ابو طیر سے صہیونی ریاست اب بھی خوف زدہ ہے اور اسے بار بار پابند سلاسل کرکے اپنے اس خوف کا اظہار کررہی ہے۔
محمد ابو طیر کا تعلق مقبوضہ بیت المقدس سے ہے۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق اور مطالبات کی بات کرتےہیں۔ اپنے اسےعزم اور استقامت کی بناء پر وہ ساڑھے تین عشرے اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل چکے ہیں۔ چونتیس سال ایک عمر ہوتی ہے اور فلسطینی لیڈر اور بطل حریت محمد ابو طیر خندہ پیشانی کے ساتھ زندگی کے یہ مہ وسال اسرائیلی زندانوں کی کال کوٹھڑیوں میں گذار چکے ہیں۔ وہ بیت المقدس کے رہنے والے ہیں اور مسجد اقصیٰ اور القدس سے انہیں عشق ہے۔ جب انہیں دشمن قید میں ڈالتا ہے تو وہ اس قید کو دفاع قبلہ اول کی خاطر اپنی قربانی قرار دے کر اور بھی خوش ہوجاتے ہیں۔ ان کے چہرے پر طمانیت، خوشی اور امید کے اثرات صاف دکھائی دیتے ہیں۔
گوکہ ان کے ہاتھوں میں زنجیریں اور پاؤں میں بیڑیا پڑی ہوتی ہیں وہ ان کا دل اور دماغ فلسطین کی آزادی کے لیے سوچتا اور کام کرتا ہے۔ دشمن شاید اس غلط فہمی میں ہے کہ وہ محمد ابو طیر کو بار بار قید میں ڈال کر اس کے عزم کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا، یہ اس کی بھول ہے۔ جو شخص اپنی زندگی کے چونتیس قیمتی سال دشمن کی قید میں خوشی خوشی گذار چکا ہو اس کے عزم کو شکست دینا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ محمد ابو طیر اب عمر کے اس حصے میں ہیں جب انہیں زیادہ سے زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔ مگر آرام ان کی سرشت ہی میں نہیں۔ ان کا مشن فلسطین کی آزادی کے لیے جد وجہد کرتے ہوئے اپنا مقصد اور منزل حاصل کرنا ہے چاہے اس راستے میں انہیں جان کی بازی کیوں نہ ہارنی پڑے۔
ابو طیر اپنے تازہ گرفتاری سے قبل صرف دو ماہ تک جیل سے باہر رہے۔ اس دوران ایک صحافی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’دشمن انہیں جھکا سکتا، نہ توڑ سکتا ہے اور نہ ہی ان کےعزم کو شکست دے سکتا ہے‘۔
محمد ابو طیر کو حال ہی میں اسرئیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ سے حراست میں لیا۔
ابو طیر کی اہلیہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے شوہر قبلہ اول کے محافظ اور سپاہی ہیں۔ ان کی مشکلات، گرفتاریوں، قید ، اذیتوں اور قید تنہائی کا سلسلہ سنہ انیس سو ستر کے عشرے میں شروع ہوا۔ ابو طیر نے ہربار پورے عزم اور استقامت کے ساتھ جیل کاٹی۔ وہ جیل سے چند روز یا چند ہفتے ہی باہر رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی آدھی سے زاید زندگی انہوں نے صہیونی زاندانوں میں بتا دی۔
اس طرح بوڑھے محمد ابو طیر خود تو اس وقت صہیونی زندان میں پابند سلاسل ہیں مگر ان کا دل قبلہ اول اور بیت المقدس سے وابستہ ہے۔