الشیخ حمد یاسین شہید کو صرف اسلامی تحریک مزحمت ’حماس‘ کے نامی ہی کے طور نہیں جانا جاتا بلکہ وہ گذشتہ صدی کے فلسطینی قومی کاز کے ایک چمکدار ستارے اور فلسطینی قوم کے روحانی پیشوا سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں فلسطینی قوم سے جدا ہوئے آج تیرہ برس ہوگئے ہیں۔ دنیا سے چلے جانے کے بعد وہ آج بھی بدستور فلسطینیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔
شیخ احمد یاسین 1938ء میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت فلسطین برطانوی سامراج کے زیرتسلط تھا۔ اس وقت سے ہی ان کے تمام نظریات اور تصورات اس توہین و حزیمت پر استوار ہونے لگے جس کا فلسطینیوں کو شکست کے بعد سامنا تھا۔
بچپن میں ایک حادثہ کے نتیجہ میں وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے لیے وقف کر دی تھی۔
انہوں نےمصر کے دارالحکومت قاہرہ سے تعلیم حاصل۔ قاہرہ اس وقت اخوان المسلمون کا مرکز تھا۔ یہ دنیائے عرب کی پہلی اسلامی سیاسی تحریک تھی۔
یہیں پر ان کا یہ عقیدہ راسخ ہوتا چلا گیا کہ فلسطین اسلامی سرزمین ہے اور کسی بھی عرب رہنما کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کے کسی بھی حصہ سے دستبردار ہو۔
اگرچہ فلسطینی انتظامیہ سمیت عرب رہنماؤں سے ان کے تعلقات استوار رہے تاہم ان کا یہ راسخ عقیدہ تھا کہ "نام نہاد امن کا راستہ امن نہیں ہے اور نہ ہی امن جہاد اور مزاحمت کا متبادل ہو سکتا ہے‘‘
الشیخ احمد یاسین کا آبائی شہر عسقلان تھا،جہاں وہ سنہ 1936ء کو جورہ کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ابھی ان کی عمر پانچ سال نہیں ہوئی تھی کی والد ماجد انتقال کرگئے۔
سنہ 1948ء کو جب ارض فلسطین میں ایک صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تو صہیونی آفت عسقلان شہر پربھی ٹوٹی جہاں سے 12 سالہ احمد یاسین اپنے کئی دوسرے عزیزواقارب سمیت فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی بے دخل کردیے تھے۔ الشیخ احمد یاسین نے اپنے بچپن کے اس دور میں قیام اسرائیل کے دوران نہتے فلسطینیوں کو گاجرمولی کی طرح کٹتے دیکھ رکھا تھا۔ یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ انہوں نے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اپنی زندگی وقف کرتے ہوئے غاصب صہیونی ریاست کے خلاف جدو جہد شروع کردی تھی۔
الشیخ احمد یاسین کو شہید کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے کئی بارانہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ چھ ستمبر سنہ 2003ء کو اسرائیلی کے جنگی طیاروں نے غزہ کی پٹی میں شیخ احمد یاسین شہید کی رہائش گاہ پربم گرائے جس کے نتیجے میں شیخ یاسین اور اسماعیل ھنیہ سمیت حماس کے متعدد کارکن زخمی ہوگئے تاہم دشمن کا یہ وار بھی ناکام ہوگیا۔
اس کے بعد 22 مارچ بہ مطابق یکم صفر المظفر سنہ 2004ء کو اسرائیل کے جنگی طیاروں نے نماز فجر کے وقت غزہ کی الصبرہ کالونی کی مرکزی جامع مسجد پر بمباری کی۔ اس وقت شیخ احمد یاسین شہید نماز فجر کی ادائی کے بعد اپنی وہیل چیئرپرمسجد سے باہر نکل رہے تھے۔
یہ بمباری اس وقت کے بدنام زمانہ اسرائیلی وزیراعظم اور فلسطینیوں کے خونی شمن ارئیل شیرون کی براہ راست نگرانی میں ہوئی۔ جس میں الشیخ احمد یاسین اور ان کے سات رفقاء جام شہادت نوش کرگئے جب کہ ان کے دو بیٹوں سمیت کئی نمازی زخمی ہوئے۔