اسرائیلی جیلوں میں ویسے تو 18 سال سے کم عمر کے 400 سے زاید بچے پابند سلاسل ہیں مگر ان میں سب سے کم عمر 12 سالہ شادی فراح ہیں۔ شادی فراح کا تعلق مقبوضہ بیت المقدس سے ہے۔ اسے اسرائیلی فوج نے ایک دوسرے کم عمر ساتھی کے ساتھ چاقو حملے کی منصوبہ بندی کے بھونڈے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ چھ ماہ سے زاید عرصہ گذر جانے کے باوجود نہ تو اس پر جرم ثابت ہو سکا اور نہ ہی اسے رہا کیا گیا ہے۔ عدالت نے شادی فراح کی رہائی کا حکم دیا اور اسرائیلی فوج نے اسے شمالی فلسطین کے ایک دور افتادہ علاقے میں قائم ایک انتظامی حراستی مرکزمنتقل کر دیا۔ یہ مرکز بظاہر قیدیوں کی اصلاح کے لیے قائم ہے مگر یہاں پرپابند سلاسل افراد کے ساتھ بھی قیدیوں ہی جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
شادی فراح کے ساتھ اس کے اہل خانہ کی ہفتے میں صرف 20 منٹ کی ملاقات کرائی جاتی ہے۔ کیو پریس کے نامہ نگار کےمطابق شادی کا سر منڈوا دیا گیا ہے اور جیل میں دوران حراست اسے تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔
ننھے اسیر کی والدہ نے بیٹے کے چھین جانے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ کیو پریس سے بات کرتے ہوئے شادی فراح کی والدہ فریحان صراغتہ نے کہا کہ اس کا بیٹا کسی کے لیے بھی خطرہ نہیں مگر دشمن ہمیں اور اسے پریشان کرنے کے لیے اسے حراست میں رکھے ہوئے ہیں۔ والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے کی گرفتاری کے باعث اس کی تعلیم وتدریس کا کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
شادی فراح کے دیگراحباب کا کہنا ہے کہ وہ ایک لائق فائق ، ذہین اور کھیل کود کے مشاغل میں دلچسپی لینے والا بچہ ہے۔ صہیونی حکام کی طرف سے اس پر چاقو حملے کی منصوبہ بندی کا دعویٰ من گھڑت ہے۔