اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینی بچوں کو ہراساں کئے جانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ فلسطینی محکمہ امور اسیرن کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے دوران اب تک اسرائیلی وج نے 65 فلسطینی بچوں کو گھروں پر نظر بندی کی سزائیں دی گئیں جب کہ 12 کم سن فلسطینی بچوں کو انتظامی حراست کے تحت جیلوں میں ٹھونسا گیا۔
مرکزاطلاعات فلسیطن کے مطابق محکمہ امور اسیران کے چیئرمین عیسیٰ قراقع کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران اسرائیلی انتظامیہ کی طرف سے بیت المقدس کے 18 بچوں کو شہربدری کی سزا دی گئی۔
عیسیٰ قراقع کا کہنا ہے کہ بچوں پر مظالم، انہیں تعلیم سے محروم کرنا، گھروں پر نظر بند رکھنا، انتظامی قید میں ڈالنا اور شہر بدری کی سزائیں دینا اقوام متحدہ کے اصولوں اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کی تیار کردہ ویڈٰیو رپورٹ کے مطابق گھر پرنظر بندی کسی بھی فلسطینی بچے کے خلاف عدالت میں جاری مقدمہ کارروائی اور اس کے حتمی فیصلے تک ایک سزا کا درجہ رکھتی ہے۔ عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ بچے کی نظربندی ختم کی جائے یا اسے باقاعدہ جیل میں منتقل کیا جائے۔
سال 2015ء کے دوران بیت المقدس سے 300 فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا گیا۔
باضابطہ گرفتاری کے بعد ان میں سے 48 فی صد کو گھروں پر نظربندی کی سزائیں دی گئیں۔
23 فی صد بچوں کو غیرمعینہ مدت کے لیے گھروں میں نظر بند کیا گیا۔
سال 2014ء کے دوران اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے بچوں اور خواتین کی نظر بندی کے 80 حکم نامے جاری کیے گئے۔
سال 2010ء میں گھروں پر نظر بندی کے 110 فیصلے صادر ہوئے۔
گھروں میں نظربندی کی سزاؤں کا سامنا کرنے والے 23 فی صد بچوں کو خوف اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
گھروں میں نظر بندی کے باعث 42 فی صد کی تعلیم متاثر ہوئی۔
نظربندی کے باعث 44 فی صد بچوں نے تعلیم ہی ترک کر دی۔
گھروں پر نظربندی کی سزا کو بچے جیل ہی کی طرح کی سزا سے تعبیر کرتے ہیں اور جیل کی سزا ہی کی طرح اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
نظربندی کی سزائیں بچوں کو نفسیاتی عوارض کا شکار کرنے کے ساتھ ان کے مزاج اور رویوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔