چهارشنبه 30/آوریل/2025

عرب ممالک

عرب ممالک، یورپی یونین ، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا غزہ میں اسرائیلی جارحیت فوری بند کرنے کا مطالبہ

لندن – مرکزاطلاعات فلسطین عرب اور یورپی ممالک نے قابض اسرائیلی ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی پٹی کے خلاف اپنی جارحیت روکے اور جنگ بندی کے معاہدے پر واپس آجائے کیونکہ نئی جنگ کے انسانی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے منگل […]

چار یورپی ممالک کی غزہ کی تعمیر کے لیے عرب ممالک کے پیش کردہ منصوبے کی حمایت

لندن ۔مرکزاطلاعات فلسطین فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ وہ غزہ کی تعمیر نو کے عرب منصوبے کی حمایت کرتے ہیں، جس پر 53 بلین ڈالر لاگت آئے گی۔ اس منصوبے کے تحت غزہ کی پٹی کے باشندوں کو بے گھر کرنے سے گریز کیا جائے […]

غزہ کو امداد کی فراہمی معطل کرنے کے اسرائیلی فیصلے کی عالمی سطح پر شدید مذمت

مرکزاطلاعات فلسطین عرب ممالک نے جنگ بندی معاہدے کی شرائط کے تحت غزہ کی پٹی میں امداد کے داخلے کو روکنے کے قابض اسرائیل کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ جنگ بندی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیلی حکومت کے غزہ کی پٹی […]

کیا عرب ممالک ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا متبادل پیش کر پائیں گے؟

چند عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کی شدید مخالفت اور مزاحمت کی ہے جس کے تحت 20 لاکھ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے جبری بےدخل کرنا اور ’صفائی کرکے غزہ کو مشرقِ وسطیٰ کا سیاحتی مقام‘ بنانا مقصود ہے، مگر مخالفت کے باوجود یہ ہفتہ ہمیں بتائے گا کہ یہ عرب ممالک واقعی کوئی حقیقی اقدامات لیں گے یا ان کے بیانات محض لفاظی ثابت ہوں گے۔ 27 فروری کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں متوقع عرب سربراہی اجلاس سے قبل رواں ہفتے جمعرات کو میزبان سعودی عرب کی قیادت میں قطر، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات، ’عرب منصوبے‘ پر بات چیت کریں گے جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بےدخل کیے بغیر غزہ میں بحالیِ امن اور اس کی تعمیر نو ہوگا۔ متحدہ عرب امارات کے امریکا میں تعینات سفیر یوسف العتیبہ نے گزشتہ ہفتے بدھ کو دبئی میں بیان دیا کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کا ’کوئی متبادل نہیں‘ دیکھتے ہیں۔ ان کے اس بیان نے عرب دنیا کے مؤقف کے حوالے سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ ان شکوک و شبہات کو اس حقیقت نے تقویت دی ہے کہ متحدہ عرب امارات جو اسلامی تعاون تنظیم کے اہم عرب اراکین میں شامل ہے، ابراہم معاہدے کے بعد سے اسرائیل کا اہم شراکت دار بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات ایسا ملک ہے جہاں اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کے سپاہی آرام کی غرض سے جاتے ہیں کیونکہ یہاں انہیں اپنے جرائم پر قانونی چارہ جوئی کا خوف نہیں ہوتا۔ وہ حلقے جو عرب اور دیگر مسلم ممالک کے حقیقی مؤقف کے حوالے سے ابہام کا شکار ہیں، وہ اپنے خدشات کی متعدد وجوہات بتاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اسرائیل کی غزہ میں قتل و غارت کے خلاف سخت بیانات دینے کے باوجود بہت سے مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے کاروباری تعلق کو برقرار رکھا۔ ایک جانب جہاں اسرائیل نے غزہ میں وحشیانہ لاک ڈاؤن لگایا اور محصور فلسطینیوں تک انتہائی محدود امداد کی فراہمی کی اجازت دی، وہیں اسرائیلی دعووں کے مطابق متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور اردن نے خلیجی بندرگاہوں سے اسرائیل کو زمینی سپلائی کے راستوں پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں عائد نہیں کیں۔ تاہم اردن اسرائیلی دعوے کو مسترد کرتا ہے۔ ترکیہ نے بھی غزہ منصوبے پر سخت تنقید کی ہے لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آذربائیجان سے جارجیا اور ترک بندرگاہ جیہان سے باکو-تبلیسی-جیہان پائپ لائن کے ذریعے اسرائیل تک تیل کی ترسیل کا سلسلہ جاری رہا جو اسرائیل کی 30 فیصد تیل کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس ترسیل کا اسرائیل کی جارحانہ فوجی مہم کے دوران اہم کردار رہا۔ رجب طیب اردوان کی حکومت نے شام میں اپنی پراکسی ’حیات التحریر‘ کی الاسد حکومت کا تخت الٹنے میں بھی سہولت کاری کی جس نے اسرائیل کو گولان ہائٹس کی اضافی زمین پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کیا جس میں اہم کوہِ حرمون بھی شامل ہے جہاں سے اسرائیل، حزب اللہ کا گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی لبنان اور وادی بیکا جبکہ اس کے شمال مشرق میں دمشق کی بھی نگرانی کرسکتا ہے۔ مذکورہ مثالوں کے باوجود، یہ سچ ہے کہ سعودی عرب (جو تقریباً تمام عرب اور خلیجی ممالک کی طرح اخوان المسلمین اور حماس جیسی اسلامی انتہا پسند تنظیموں کو جمود اور ان کے راج کو خطرے کے طور پر دیکھتا ہے) نے ابراہم معاہدے میں شمولیت سے قبل مسلسل اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے دو ریاستی حل پر عمل درآمد پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ غزہ جنگ کے بعد سے ترکیہ کی اسرائیل کو سالانہ 7 ارب ڈالرز کی تجارت، اس کے نصف سے بھی کم ہوچکی ہے۔ ترک تجارتی اور صنعتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بقیہ تجارت حکومت کی جانب سے نہیں کی جارہی کیونکہ حکومت تمام معاہدوں پر پابندی لگا چکی ہے بلکہ یہ تجارت ترکیہ میں غیر ملکی کمپنیوں اور نسل پرست ریاست کے درمیان باہمی معاہدوں کی وجہ سے ہورہی ہے۔ اگرچہ ان حقائق پر غور کرنا ضروری ہے مگر یہ بھی اہم ہے کہ ہم ان مضبوط وجوہات کا بھی جائزہ لیں جن کی بنیاد پر عرب ریاستیں فلسطینیوں کی جبری بےدخلی کی مخالفت کر رہی ہیں۔ مصر نے دو وجوہات کی بنا پر فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بےدخل کرنے کی سخت مخالفت کی ہے۔ پہلے تو اس اقدام سے ان اسلامی انتہاپسند گروہوں کی پوزیشن مضبوط ہوسکتی ہے جن کے خلاف مصر کی موجودہ اور پیشرو حکومتوں نے مزاحمت کی ہے۔ نقل مکانی کرکے آنے والے فلسطینیوں میں حماس کے جنگجو بھی شامل ہوسکتے ہیں جو شاید اخوان المسلمین کے اقتدار میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے جنہیں صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت نے سخت کارروائیوں سے پسپا کیا ہے۔ مصر کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ مستقبل میں اگر فلسطینی مزاحمت کاروں نے قابض علاقوں میں پُرتشدد کارروائیاں کیں تو اس عمل سے اسرائیل کی جوابی کارروائیوں کی زد میں مصر بھی آسکتا ہے جس سے نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ ایسا کوئی بھی امر ڈیوس معاہدے کی خلاف ورزی ہوسکتا ہے جو 1978ء میں امریکا کی ثالثی میں مصر اور اسرائیل کے درمیان طے پایا تھا۔ اس حوالے سے اردن کی پوزیشن زیادہ نازک ہے جس کی ایک کروڑ 10 لاکھ کی مجموعی آبادی کا 35 فیصد فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ ان کی بڑی تعداد غزہ میں نسل کشی، مغربی کنارے پر آباد کاری اور فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں اسرائیلی دراندازی کو لے کر سخت برہم ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک اور بڑی جماعت ایک ایسے ملک میں بدامنی کو جنم دے سکتی ہے جو پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ سعودی حکومت، میڈیا، عوامی شخصیات اور ماہرین کی جانب سے ملکی اور غیرملکی میڈیا کو دیے جانے والے بیانات حوصلہ افزا ہیں۔ ان کا ایک ہی پیغام ہے، اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات کے قیام سے قبل دو ریاستی حل پر عمل درآمد شرط ہے۔ کنگ سعود یونیورسٹی سے وابستہ سعودی ماہرِ تعلیم مطلق المطیری نے کہا ہے کہ سعودی عرب، عرب منصوبے کی حمایت کرے گا پھر چاہے اس کے لیے سعودی عرب کو مصر اور اردن کو وہ امداد کی تلافی کیوں نہ کرنی پڑے جسے غزہ منصوبہ منظور نہ کرنے پر ٹرمپ نے منقطع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ امریکی صدر مذاکرات شروع کرنے اور ڈیل کرنے کے لیے سخت اور مطلق العنان مؤقف اختیار کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ انتہائی غیرمتوقع شخصیت کے مالک ہیں۔ تاہم ایک چیز جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ فلسطینی اپنی آزادی اور اپنی زمین کی بقا کی جنگ جاری رکھیں گے جیسا کہ ہم نے گھروں کے ملبے جن کے نیچے ان کے پیارے مدفون ہیں، پر بیٹھے فلسطینیوں سے سنا کہ وہ اپنی زمین سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ مصر کے خبر رساں ادارے ڈیلی نیوز کے مطابق مصری ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ہشام طلعت مصطفیٰ نے ٹرمپ کے منصوبے کے متبادل کے طور پر تعمیر نو کے لیے 27 ارب ڈالرز کے منصوبے کی تجویز دی ہے۔ انہوں نے امریکی صدر کے منصوبے کو ’منطق سے عاری اور ناقابلِ عمل‘ قرار دیا۔ اس کے بجائے ہشام طلعت کی تجویز کے مطابق فلسطینیوں کی نقل مکانی کے بغیر غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی۔ ایم بی سی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ہشام طلعت مصطفیٰ نے تین سال کے عرصے میں غزہ میں 2 لاکھ گھروں کی تعمیر مکمل کرنے کا وژن پیش کیا۔ انہوں نے 40 سے 50 تعمیراتی کمپنیوں کے وسائل کو استعمال کرنے اور 13 لاکھ رہائشیوں کو چھت فراہم کرنے کے لیے 20 ارب ڈالرز مختص کرنے کی تجویز دی۔ ان کے مطابق مزید 4 ارب ڈالرز انفرااسٹرکچر اور 3 ارب ڈالرز تعلیمی، صحت عامہ کی سہولیات اور تجارتی خدمات میں لگائے جائیں گے۔ کیا ہشام طلعت کا منصوبہ اس نئے مصری منصوبے کا حصہ ہے جس کا مصری اہلکار ذکر کرتے آرہے ہیں؟ اور کیا عرب رہنما 1919ء میں مصر کی قوم پرست تحریک کے رہنما سعد زغلول کو غلط ثابت کریں گے جنہوں نے ’صفر جمع صفر کیا ہوتا ہے؟‘ کا طنزیہ سوال کرکے عرب اتحاد کے تصور کا مذاق اڑایا تھا۔

حماس کا عالمی قوتوں سے شمالی غزہ کی پٹی میں نسل کشی بند کرانے کا مطالبہ

غزہ پراسرائیلی جارحیت

ساٹھ عرب جماعتوں کا غزہ پر اسرائیلی بمباری کا جواب دینے کا مطالبہ

عرب ممالک کی 60 سے زائد سیاسی جماعتوں اور دھاروں نے پیر کے روز عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کرنے اور اسے روکنے کے لیے جرات مندی کا مظاہرہ کرے

امام کعبہ کےخطبے پرصہیونی چراغ پا، عرب اقوام میں تحسین

حال ہی میں سعودی عرب کے ممتاز عالم دین، سعودی علما کونسل کے سینیر رکن اور مسجد حرام کے امام الشیخ صالح بن حمید کے ایک خطبے پرصہیونی اور یہودی حلقے سیخ پا ہیں جبکہ عرب ممالک کے کارکنوں کی طرف سے ان کی تحسین کرتے ہوئے ان کی جرات کو سلام پیش کیا ہے۔

اردن کی سرحد پراسرائیلی صنعتی زون اور گذرگاہ کا منصوبہ منظور

کل اتوار قابض اسرائیلی حکومت نے اردن کی سرحد پرایک مشترکہ صنعتی زون کے قیام کے منصوبے پر تیزی اور اردن کی سرحد پر ایک نئی گذرگاہ "جارڈن گیٹ" منصوبے پر کام تیز کرنے کی منظوری دی ہے۔

امارات اور بحرین کے عوام اسرائیل سے تعلقات کے مخالف:سروے

رائے عامہ کے ایک جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے لوگوں کی اکثریت صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف ہے۔

فلسطینی ڈاکٹرکی امریکا میں پیتھالوجی کانفرنس میں عرب ممالک کی نمائندگی

فلسطینی ماہرطب ڈاکٹر حسام ابو فرسخ نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں دنیا کے 30 ڈاکٹروں میں سے پیتھالوجی پر امریکی کانفرنس میں شرکت کے لیے چنا گیا۔ یہ کانفرنس بیماریوں کی تشخیص سےمتعلق ہے اور "دنیا کی قدیم ترین اور بہترین" کانفرنس ہے۔