شنبه 16/نوامبر/2024

بیت المقدس پر قبضہ

اسرائیل کا بیت المقدس میں فوجی قانون نافذ کرنے کا منصوبہ تیار

قابض اسرائیلی فوج نے مقبوضہ بیت المقدس کی فلسطینی کالونیوں میں فوجی قانون نافذ کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

ٹرمپ کا القدس بارے اقدام عالمی قانون کے میزان میں!

عالمی قانون کی رو سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے سے قبل اور اس کے بعد بھی یہ شہر مقبوضہ علاقہ ہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ٹرمپ کا بیت المقدس کے بارے میں فیصلہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ فیصلہ سنہ 1993ء میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان طے پائے اوسلو معاہدے کی بھی توہین ہے۔

قبلہ اول کی بے حرمتی جاری، مزید 51 یہودی مسجد اقصیٰ میں داخل

فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کے دھاوے اور مقدس مقام کی مجرمانہ بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ روز51 یہودی آباد کار اور اسرائیلی فوجی پولیس کی فول پروف سیکیورٹی میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے اور قبلہ اول میں گھس کرنام نہاد مذہبی رسومات کی ادائی کی آڑ میں مقدس مقام کی بے حرمتی کی۔ جب کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران چھ سو یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا۔

’القدس‘ پرناجائز تسلط کے 50 سال، اسرائیل اور کیا چاہتا ہے؟

بہ ظاہر تو اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس پر قبضے کے لیے اپنے خون خوار بھیڑیے جون 1967ء کی جنگ میں عرب ممالک کی اجتماعی شکست کے دوران داخل کیے مگر حقیقی معنوں میں بیت المقدس پر اسی وقت صہیونیوں نے غاصبانہ تسلط قائم کرلیا تھا جب برطانوی اور عالمی سامراج کی سازشوں کے نتیجے میں سنہ 1922ء کو خلافت عثمانیہ کا سقوط کیا گیا۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہی ارض فلسطین اور بیت المقدس میں یہودیوں کے مکروہ حربوں کا بہ تدریج نقطہ آغاز تھا۔ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی اجتماعیت کا شیرازہ بکھرگیا، صہیونی طاقتوں نے جو پہلے ہی اس موقع کی تلاش میں تھیں مکھیوں کی طرح ارض فلسطین پر یلغار کردی اور ارض فلسطین پر صہیونی قبضے کا وہ خنجر گھونپا گیا جو آج تک جسد فلسطین میں لگے گھاؤ کو مزید گہرا کررہا ہے۔