چهارشنبه 30/آوریل/2025

یہ ہے دہشت گردی

جمعرات 1-جنوری-2009

جون 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے تمام پڑوسی عرب ممالک کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ مصر جزیرہ نمائے سینا اور غزہ کی پٹی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اردن مشرقی کنارے کے کچھ حصے سے محروم ہوگیا۔ پورا یروشلم اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔

شام، قنطیرہ اور جولان کی پہاڑیاں گنوا بیٹھا اور یوں اسرائیل نے وہ سارے مقاصد حاصل کرلئے جو اس کے شیطانی منصوبے کا حصہ تھے۔ پانچ ماہ بعد 22/نومبر 1967ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قراردار نمبر242 منظور کی جس میں کہا گیا کہ ”جنگ کے ذریعے علاقے پر قبضہ کرنا ایک قابل قبول عمل ہرگز نہیں“۔ قرارداد کے مطابق اسرائیل کو تمام مقبوضہ علاقے خالی کرنا تھے اور جواباً ہمسایہ ممالک کو امن کی ضمانت دینا تھی۔ 1969ء میں ایک اور جنگ بھڑکی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔ اسی سال امریکی وزیر خارجہ ولیم راجرز نے 1967ء میں منظور کی گئی قرارداد کی روشنی میں ایک امن منصوبہ پیش کیا۔

مصر نے اس منصوبے کی تائید کردی لیکن اسرائیل نے ڈھٹائی کے ساتھ اسے مسترد کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اسرائیلی رویے کے پیچھے ہنری کسنجر کا ہاتھ تھا۔ اس موقع پر مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے کہا تھا۔ ”اسرائیل کو صرف دو چیزیں مفتوحہ علاقے واپس کرنے پر مجبور کرسکتی ہیں۔ امریکہ کا دباؤ یا عالم عرب کی مشترکہ قوت“۔ ناصر کی یہ بات آج چالیس برس بعد بھی تمام تر تدبر کے ساتھ سچ ہے۔ امریکہ دباؤ ڈالنے کے بجائے اسرائیل کا سرپرست، پشتیبان اور پاسبان بنا بیٹھا ہے۔ رہا عالم عرب تو رئیس امروہوی نے انہی دنوں ایک قطعہ کہا تھا۔

عرب کو تھا جس اپنی عظمت پہ ناز
وہ عظمت دھری کی دھری رہ گئی
ہوا غرق پیٹرول جوش جہاد
حیا تیل کی دھار میں بہہ گئی

نام کوئی بھی دے لیا جائے، اصل مسئلہ صرف اس قدر ہے کہ فلسطینی اللہ پر ایمان رکھتے اور محمد عربی کے امتی ہیں۔ ان کی رگوں میں دوڑتے لہو کا سلسلہ نسب، خاک مکہ و مدینہ سے جاملتا ہے اور غلامی کی سرشت اپنا کر اپنی جبیں کسی جابر کی چوکھٹ پر ٹیک دینا ان کا شیوہ نہیں۔
 
فلسطین کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا اور اگر ہوتا تو برسوں قبل حل ہوچکا ہوتا بشرطیکہ متاثرہ فریق کا شجرہ فکر و نظر ”اسلام“ سے نہ جڑا ہوتا۔ چونکہ غزہ کی پٹی میں ذبح ہونے والے بھی فلوجہ، بغداد، کابل، قندھار اور وزیرستان میں ذبح ہونے والوں کے قبیلے سے ہیں، سو ان کی زندگیاں جنس بے مایہ ہیں، ان کا لہو برساتی جوہڑ کے گدلے پانی سے بھی زیادہ ارزاں ہے، ان کے بدن کے چیتھڑے خسن و خاشاک کے ڈھیر سے بھی بے توقیر ہیں، ان کی مائیں جیتے جاگتے انسان نہیں، پتھر جنتی ہیں اور انسانوں جیسے دکھائی دینے کے باوجود انہیں انسانوں جیسے حقوق نہیں دئیے جاسکتے اسلئے اگر اسرائیل نے ایک بار پھر بم اور میزائل برسا کر سیکڑوں معصوم فلسطینیوں کے پرخچے اڑا دئیے،
 
اگر جابجا ان کا لہو چھوٹے چھوٹے تالابوں کی شکل میں جمع ہوگیا ہے۔ اگر ہزاروں لوگ شدید زخمی پڑے ہیں، اگر مسلسل محاصرے اور ناکہ بندی کے باعث پندرہ لاکھ انسان کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات سے محروم کردئیے گئے ہیں اور اگر معصوم بچے بھوک سے بلک بلک کر جان دے رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ ایسا ان پر پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر شہنشاہ عالم پناہ کو تشویش ہو، جس پر اقوام متحدہ کے آرام و سکون میں خلل پڑے، جس سے ”بان کی مون“ کی نیندیں حرام ہوں، جس پر سلامتی کونسل مضطرب ہوجائے، جس پر حقوق انسانی کی تنظیمیں پیچ و تاب کھائیں، جس پر یورپی یونین بے کل ہوجائے اور جس پر مہذب دنیا انگاروں پر لوٹنے لگے۔ غزہ، اسلام کے نام لیواؤں کی ایک کم نصیب سی بستی ہے، وہ نہ نیویارک ہے نہ لندن نہ ممبئی کہ ساری دنیا تلملانے لگے۔ غزہ میں انسان نہیں بستے اسلئے ”مہذب“ دنیا، کرسمس کی رعنائیوں کو بدمزہ نہیں کرنا چاہتی۔ امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے کہہ دیا ہے کہ حماس باز آجائے اور اسرائیل صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے۔

سچ کو کتنی ہی گہری قبر میں دفن کردیا جائے، ایک نہ ایک دن اس کا سخت جان بیج زمین کا سینہ چیرتا ہوا پھوٹ نکلتا ہے۔ نائن الیون کا مردہ بھی ایک دن کفن پھاڑ کر بولے گا۔ اس ڈرامے کے اسکرپٹ رائٹر، اس کے ہدایت کار اور اس کے اداکار خود ہی بول اٹھیں گے۔
 
دنیا نے دیکھا کہ تین ہزار امریکیوں کا انتقام لینے کیلئے امریکہ پہلے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ پھر اس نے عراق پر چڑھائی کردی اور پھر اس نے پاکستان کو میدان جنگ بنالیا۔ تین ہزار انسانوں کے خوں بہا کے طور پر وہ اب تک کم و بیش چودہ لاکھ انسانوں کا لہو پی چکا ہے، لاکھوں انسان زندگی بھر کیلئے معذور ہوچکے ہیں، بیواؤں اور یتیموں کی ایک نئی فصل لہلہانے لگی ہے، ہزاروں بستیاں کھنڈر ہوچکی ہیں لیکن رقص ابلیسی تھمنے میں نہیں آرہا۔ ستم یہ کہ ساڑھے سات برس گزر جانے کے بعد بھی کوئی ایک بھی ایسی مستند شہادت پیش نہیں کی جاسکی جس سے پتہ چلتا ہو کہ نائن الیون کس کے معجزہ فن کی نمود تھا۔ اس درندگی و سفاکی کے باوجود امریکہ تہذیب کا سردار، تمدن کا پرچم بردار، جمہوریت کا تاجدار، انسانی حقوق کا پاسدار اور امن عالم کا علمبردار ہے اور وہ جو مررہے ہیں، جو قتل ہورہے ہیں، جن کے بچے ان کی گود میں دم توڑ رہے ہیں وہ سب دہشت گرد ہیں، شدت پسند ہیں، خونی، اجڈ اور گنوار ہیں۔ کیا اس فریب کا پردہ کبھی چاک نہ ہوگا کہ اصل دہشت گرد کون ہے؟

بش نے عراق پر چڑھائی کی تو عالم عرب کو تسلی دینے کے لئے مسئلہ فلسطین کے تناظر میں ایک روڈ میپ کا اعلان کیا۔ یہ روڈ میپ اپریل 2003ء میں سامنے آیا۔ اس روڈ میپ میں کہا گیا کہ اسرائیل مارچ 2001ء کے بعد قائم کی گئی اپنی بستیاں، کالونیاں اور پوسٹیں ختم کردے گا اور نئی کالونیوں کی تعمیر روک دے گا۔ دو ماہ بعد، جون 2003ء میں شیرون نے اسرائیلی کا بینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ ”نئی کالونیاں بنتی رہیں گی لیکن لوگوں کو جشن منانے کی ضرورت نہیں۔ یہ کام خاموشی کے ساتھ آگے بڑھتا رہے گا“۔ چنانچہ روڈ میپ کے بعد نئی کالونیوں کی تعمیر میں 35فیصد اضافہ ہوگیا۔ امریکہ نے ”ناراضگی“ کا اظہار کرتے ہوئے گیارہ ارب ڈالر کی قرضہ جاتی امداد میں سے 30کروڑ ڈالر روک لئے۔
 
اپریل 2004ء میں امریکہ نے بھی شیرون کا راگ الاپنا شروع کردیا۔ جارج ڈبلیو بش نے شیرون کو ”امن کا سفیر“، ”تاریخ ساز“ اور ”جری“ جیسے القابات سے نوازا۔ہم امریکہ اور اسرائیل کو لگام نہیں دے سکتے۔ ہم کہ اپنے آپ کو امریکی ڈرونز سے نہیں بچا سکتے، غزہ کے مظلوموں کی کیا مدد کرسکتے ہیں لیکن ہم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ تہہ در تہہ کالک میں چھپے مکروہ چہروں کو شریف زادے نہ بننے دیں۔ امریکہ نے ”جماعت الدعوة“ کو نکیل ڈلوانے کیلئے ہمارا ناک میں دم کردیا لیکن کیا ہم کسی کو نہیں بتا سکتے کہ امریکہ کس درندے کا نام ہے اور اس نے کس طرح کے خونخوار پال رکھے ہیں؟

پتہ نہیں تقاضائے وقت کیا ہے لیکن فتح حق و صداقت ہی کی ہوگی کہ یہی اصول ازلی و ابدی ہے۔ میرے پاس آج بھی فلسطینیوں کیلئے وہی پیغام ہے جو علامہ اقبال نے اپنی مختصر سی نظم ”فلسطینی عرب سے“ میں دیا تھا۔

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے خالی
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے، غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
 

 

لینک کوتاه:

کپی شد