جمعه 15/نوامبر/2024

”یہودی ڈرامے ہولوکوسٹ “کے 60 سال

ہفتہ 15-نومبر-2008

مجھے مسلم ورلڈ لیگ کے زیراہتمام دو بین المذاہب کانفرنس میں جانے کااتفاق ہوا جن میں سے ایک مکہ مکرمہ اور دوسری ہسپانیہ میں منعقد ہوئی…اسپین میں سعودی عرب کے فرماں رواں ملک عبداللہ بن عبدالعزیز(خادم الحرمین الشریفین) نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ تیسری کانفرنس اقوام متحدہ میں ہوگی جہاں تمام مذاہب، مقدس شخصیات اور مقامات کے تحفظ کے لیے ایک بین الاقوامی چارٹر تشکیل دیا جائے گاجو ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے اسکالر اور پیشوا کی مدد اور مکمل مباحثے کے بعد حتمی شکل اختیار کرے گا لیکن مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ خادم الحرمین الشریفین کے وعدے کے برعکس اِس بار یعنی تیسری اور آخری بار ”بین المذاہب کانفرنس“ میں نہ تو کوئی قابل ذکر اسکالر شریک ہوا اور نہ ہی یہ علمی بحث کامستند فورم بن سکا

البتہ”سربراہان مملکت“ اور بالخصوص اسرائیلی صدر کو دیا جانے والا خصوصی”پروٹوکول“ اور ہولوکوسٹ کی کوکھ سے جنم لینے والے اِس ناجائز بچے کو دنیا میں جائز مقام دلانے کے لیے ”خاموش سفارت کاری“ ضرور کی جارہی ہے …افسوس تو اِس بات پر ہے کہ ایسی بدخو، تند مزاج، اکھڑ، خودسر، مغرور، کاذب اور غاصب قوم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہمارا وطن بھی پیچھے نہیں ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق ”ڈھلتا ہوا بش“غروب ہوتے ہوتے اِس کانفرنس کے ذریعے مسلم ممالک اور اسرائیل کے درمیان اعلانیہ رابطوں اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کام کا آغاز چاہتا ہے …

صدرمملکت آصف علی زرداری، اقوام متحدہ میں امریکی سفیر ذلمے خلیل زاداور متعدد عرب ممالک کے سربراہانِ حکومت و مملکت، اِس مشن کے حصول کے لیے خاموشی سے تعاون کررہے ہیں…میں تنگ نظر نہیں جو یہودیوں کے ساتھ مکالمے سے انکار کردوں کیونکہ میرے نزدیک ”مکالمہ“ ہی وہ واحد راستہ ہے جوابہام کو دور اور نظریات کو واضح کرتا ہے لیکن مجھے دکھ اِس بات پر ہے کہ اِس بار ”بین المذاہب کانفرنس“ کی جو تاریخ مقرر کی گئی وہ”ہولوکوسٹ“ کے60 برس مکمل ہونے کا دن تھا!…

اُس یہودی ریاست کے جواز کے ”ڈرامے“ کی تاریخ جس کے بطن سے ہونے والی سازشوں نے کبھی جھوٹے نبیوں کو ہم پر مسلط کیا تو کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں دریدہ دہنی اور خاکوں کی اشاعت کو اظہارے رائے کی آزادی کا نام دے کر عاشقوں کے سینے چھلنی کئے گئے ، کبھی صبرہ و شتیلا میں لہو کی ندیاں بہا کر خیبر، تبوک، احزاب اور حنین کے بدلے لیے گئے اور کبھی گیئرٹ ولڈر(جسے میں اُس کے خبث باطن کے باعث وائلڈرکہتا ہوں)کے ذریعے”فتنہ“ فلم بنا کر اُس میں قرآن پاک کے (معاذ اللہ) مقدس اوراق پھاڑے گئے اور مسلمانوں کو یہ رزیل اور بدبودارپیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ”قرآن پاک میں سے اگر یہ صفحے نکال دیے جائیں(نعوذ باللہ) تو اسلام انتہا پسندی سے باہر نکل آئے گا…

یہی ہیں وہ انتہا پسند یہودی(میں تمام یہودیوں کو برا نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے دین نے مجھے ظاہر کا مکلف بنایا ہے ، باطن کا نہیں)جو نہایت دروغ گو، مکار اور شاطر ہیں ،درحقیقت شیطان کے وہ گماشتے ہیں جنہیں دنیا کا امن و سکون ایک آنکھ نہیں بھاتااوریہ ہمہ وقت اپنی برتری کے خناس میں دنیا کے امن وسکون کو غارت کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں…ہولوکوسٹ کی حقیقت بتانے سے قبل اگر یہ برا نہ مانیں تواِن حقیقی انتہا پسندوں کو اِن کا مکروہ چہرہ دکھانے کی ایک کوشش ضرور کروں گا کیونکہ میں چاہتاہوں کہ دنیا جان لے کہ یہی وہ برادران یوسف علیہ السلام ہیں جنہوں نے اللہ کے اُس عظیم پیغمبر کو سرعام مصر کے بازار میں نیلام کیا…یہی وہ ناخلف فرزندانِ یعقوب علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنے محترم باپ کو سالہا سال گریہ وزاری پر مجبور کیا یہاں تک کہ اُن کی آنکھیں جاتی رہیں…

یہی وہ قوم ہے جو (قرآن و توریت کے مطابق)اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں کے قتل میں ملوث رہی… یہی تو ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جھوٹے الزامات لگائے اور ان کی زوجہ مطہرہ حضرت ہاجرہ کو جو کہ شاہزادی تھیں، انہیں معاذ اللہ لونڈی کہہ کر ان کا مرتبہ گھٹانے کی کوشش کی… یہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وہ نافرمان پیروکار ہیں کہ جب وہ کوہ طور پر گئے تواُن کی غیر موجودگی میں اُن کے پیغمبر بھائی پر پھبتیاں کستے ہوئے ”گئو پرستی “میں مبتلا ہوگئے…

اِن ہی ناشکروں نے جنت سے اتاری گئی مبرک نعمتوں من و سلویٰ کو ٹھکرا کرکفران نعمت کیا اور موسیٰ علیہ السلام کے معجزات یعنی بارہ چشموں کے اجراء سے انکار کیا…یہی تو ہیں(اِس وقت میں بالخصوص اپنے مسیحی بھائیوں سے مخاطب ہوں) جنہوں نے بی بی مریم علیہا السلام جیسی پاک، عظیم اورباعفت خاتون پر بدکاری کی تہمت لگائی اور پیلاطوس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کومصلوب کر نے کا حکم نامہ جاری کرانے میں بھی اِن ہی کا ہاتھ تھا…اور یہ ہی وہ بدبخت ہیں جو نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر تسلیم کرنے سے آج بھی سینہ ٹھوک کر انکار کرتے ہیں اور اپنے مسیح دجال کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں…اِن کم ظرفوں نے روا کو ناروا بنایا، جائز کو ناجائز قرار دیا، حرام کو حلال جانا اور مذہب میں خود ساختہ اختراعات کو شامل کیا… مادہ پرستی اور حرص و ہوس کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے محبتوں کی آماج گاہ یعنی اِس کرہٴ ارض کو نفرت کاٹھکانہ بنادیا، اور یہ ہی وہ غاصب ہیں جنہوں نے ارضِ فلسطین پر اپنا ناجائز تسلط قائم کررکھاہے۔

اس حوالے سے دنیا بھر میں کئی کتابیں لکھی گئیں اوران تصانیف سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کے قیام کا مقصدیہ نہیں تھا کہ وہاں محض یہودی قیام کریں یا پھر یہ کہ اُس ریاست کا مذہب یہودیت ہو بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ وہ ہر غیر یہودی کو اپنا غلام بنانا چاہتے تھے، وہ صرف یہ نہیں چاہتے تھے کہ دنیا انہیں اُن کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے دے بلکہ اِن کا اصل مقصد اقوام عالم کو غلام بنانا تھا…ہولوکوسٹ کے60برس مکمل ہونے پر یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں یہودیوں کی منافقت اور دروغ گوئی پر مبنی طویل تاریخ پر مختصر روشنی ڈالوں لہٰذا جان لیجیے اور اِس بات پر ایمان رکھیے کہ امن و آشتی کے ساتھ زندگی گزارنا یہودیوں کی فطرت کے منافی ہے، جہاں اِنہیں کچھ سکون میسر آیا وہاں انہوں نے ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے جال بچھانا شروع کردیے!! اسلامی عہدِ خلافت میں، بغداد میں اِنہیں دیگر مسلمان شہریوں کے مساوی حقوق حاصل تھے مگر وہاں یہ اسلام کے خلاف صف آراء ہوگئے رومی حکمرانوں نے انہیں اپنی سلطنت میں پناہ دی مگر وہاں بھی امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے انہوں نے سلطنت روما کے خلاف سازشیں شروع کردیں جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ رومی سلطنت شکست و ریخت سے دوچار ہوگئی، اسپین میں انہیں باعزت مقام دیا گیا مگر یہاں ایک مرتبہ پھر یہ اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے اور مسلمانوں کا قتل عام کروایا، فرانسیسی شہنشاہیت کے خلاف انقلاب فرانس اِن ہی کی ایماء پر برپا ہوا جس کا مقصد وہاں کی شہریت اور دیگر حقوق حاصل کرنا تھا…

ربئی اسٹیفن وائز کی حکمت عملی اور جرمن نازیوں کے خلاف پروپیگنڈا فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قیام کے لیے کافی نہیں تھا اس کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت تھی تاکہ امریکا اور یورپ اس امر پر قائل ہوسکیں اور وہ یہودیوں کی علیحدہ ریاست کے قیام پر متفق ہوجائیں۔ یہودی وہ سازشی قوم تھی جسے یورپی ممالک اپنے عقائد،وسائل اور روایات کے خلاف خطرہ تصور کرتے تھے

۔ اُن سے پیچھا چھڑا نا چاہتے تھے لہٰذا اُن سے جان چھڑانے کا ایک یہ ہی طریقہ تھا کہ انہیں فلسطین میں علیحدہ ریاست بناکر دے دی جائے،یہودیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے یہ تجویز اِنہیں پسند آئی، وہ جانتے تھے کہ ایک بار اِن یہودیوں کو اُن کے خوابوں کی سرزمین یعنی فلسطین میں رہنے کا موقع ملا تو وہ اِن نادیدہ یہودی قوتوں سے نجات حاصل کرلیں گے … ہٹلر بھی جرمنی کو یہودیوں سے پاک کرنا چاہتا تھا مگراُس کا مقصد اُن کی نسل کشی نہ تھا بلکہ وہ صرف یہ چاہتا تھا کے یہودی جرمنی کو خیر بادکہہ دیں اور کہیں اور پناہ تلاش کریں…یہودیوں نے نہ صرف اُس کی حکمت عملی ناکام بنادی بلکہ اُس پر اپنی نسل کشی یعنی ہولوکاسٹ کاجھوٹا الزام لگایا… اُسے اِس درجہ بدنام کیا کہ تاریخ کے ناپسندیدہ ترین مشاہیر کی صف میں اُسے لاکھڑا کیا اور اتنا پروپیگنڈا کیا کہ دیگر یورپی قوتوں نے اس واقعے سے عبرت پکڑی… عظیم شاعرعلامہ اقبال# نے یورپی اقوام کے یہودیوں سے اشتراک عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا

فرنگ کی رگِ جاں پنجہٴ یہود میں ہے

ہولوکوسٹ …ایک ایسا فسانہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔یہ وہ واقعہ سرے سے وقوع پذیر ہی نہیں ہوا محض یہودیوں کی ذہنی اختراع ہے…نہ کسی کو گیس چیمبرز میں قتل کیا گیا نہ کسی کی جِلد سے لیمپ شیڈ بنائے گئے نہ ہی کسی کی چربی پگھلا کر صابن میں ڈھالا گیااور نازیوں کو مفت میں بدنام کیا گیا… ہولوکوسٹ توبہرحال نہیں ہوا تاہم لوگوں کو جھانسا دینے کی بہترین کوشش ضرورکی گئی …ہولوکوسٹ لفظی طور پر یونانی اصطلاح ”ہولوکوسٹن“ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے دیوتاکے حضور خاکستر شدہ قربانی کی بھینٹ چڑھانا۔اصطلاحی معنوں میں ہٹلر کے عہد حکومت اور دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کی نسل کشی کو ہولوکوسٹ کہا جاتا ہے…انتہاپسندیہودیوں کا مبالغہ آمیزدعویٰ ہے کہ 1933عیسوی سے 1945کے دوران ساٹھ لاکھ یہودیوں کو نازیوں نے موت کے گھاٹ اتارا مگر آثار و قرائن بتاتے ہیں ان کا یہ دعویٰ سراسر جھوٹا اور دروغ گوئی پر مبنی ہے اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے دعووٴں میں سچے نہیں!

دوسری جنگ عظیم تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز جنگ تھی جس میں مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لاکھوں باشندے لقمہ اجل بنے، اُن ہی لاکھوں مقتولین میں چند ہزار یہودی بھی تھے، جہاں مختلف اقوام کے کروڑوں نفوس مارے گئے ہوں وہاں چند ہزار یہودیوں کا قتل ہوجانا کوئی غیر معمولی یا انہونی بات نہیں مگر یہودیوں نے اِن اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، مبالغہ آمیزی کی انتہا کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نازیوں کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودی مارے گئے ،حقیقت یہ تھی کہ یہودی اعلیٰ قیادت سالہا سال سے ایک علیحدہ یہودی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں تھی تاکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تتربتر یہودیوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم میسر آسکے، یہودیوں نے دیکھا کہ یہ موقع اچھا ہے کیوں نہ اِس سے فائدہ اٹھایا جائے اورنازیوں کے مظالم کی اختراع شدہ کہانیاں سنا کر عالمی برادری کو گمراہ کیا جائے اور خود کو مظلوم ثابت کیا جائے چناچہ اُنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل عام کا ہوّا کھڑا کردیاتاکہ یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جاسکے…اُنہوں نے سوچی سمجھی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے نازیوں کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ مہم چلائی اور اُن پر بڑے پیمانے پر یہودیوں کی نسل کشی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ اگراِنہیں نہ روکا گیا تو یہ دنیا بھر میں افراتفری پھیلانے کا باعث بنیں گے…1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے بعد یہودیوں نے علیحدہ ریاست کے قیام کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کردیا،بالآخراُن کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور 1948ء میں وہ اپنی علیحدہ ریاست ”اسرائیل“ کے قیام میں کامیاب ہوگئے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ ریاست اُن معصوم فلسطینیوں کی لاشوں پر قائم ہوئی جن کا نازیوں کے ہاتھ یہودیوں کے نام نہاد قتل عام میں کوئی کردار نہ تھا، نہ ہی دوسری جنگ عظیم ہی سے ان کا کوئی تعلق تھا…مگر یہ پِسے اور اب تک یہودی نفرت کی چکی میں پِس رہے ہیں…

چونکہ یہودی خود کو دیگر اقوام سے برتر قوم تصور کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہولوکاسٹ کو تقدیس کا درجہ دیا ہوا ہے اوراُس کی توہین کو یعنی ہولوکاسٹ کے منکر کو قابل سزا قرار دے دیایعنی ایک ایسا واقعہ جو سرے سے پیش ہی نہیں آیا یہودیوں نے اس پر مکالمہ آرائی کو جرم قرار دے دیاہے…

جن پر یہ” جرم“ ثابت ہوجائے اسے مختلف سزاوٴں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُس کی کردار کشی کی جاتی ہے اور بسا اوقات اُسے زندگی سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے… کئی لوگ اِس جرم کی پاداش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور زباں بندی نہ کرنے کی سزا بھگتی…اِ ن انتہاپسندوں کے جھوٹ کے 60برس مکمل ہونے پر میں ذاتی طورپر اُس پرو پیگنڈے کی پردہ کشائی ضروری خیال کرتا ہوں جو کہ ہولوکوسٹ کے حوالے سے یہودیوں نے عام کیا ہے اور وقتاً فوقتاً اس حوالے سے واویلا کرکے دنیا کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔

میں اپنے اِن دعوؤں کی دلیل میں متعدد ثبوت پیش کروں گا…بس میرے رب نے اگر زندگی دی ،اور اگلے ہفتے تک یہ ناکارہ سانسیں چلتی رہیں توآنے والے جمعے کا انتظار کیجیے، بہت کچھ لکھنا ابھی باقی ہے

 
یہودیوں کو نسلی وراثت میں یہ تاثر منتقل ہوتا چلا آرہا ہے کہ ان کے بارے میں کسی بھی عوامی مباحثے یا گفتگو کو نفرت کا شاخسانہ سمجھا جاتا ہے اِن کے دماغوں میں یہ تصور راسخ ہے کہ یہودیوں کے حوالے سے کوئی بھی گفتگو،چاہے وہ کسی بھی تاثر کے تحت کی جارہی ہو، لامحالہ نفرت و تعصب کی پیداوار ہوتی ہے اور وہ اُسے اپنی ہتک سمجھ لیتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہولوکوسٹ پر بات کرنا بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔

اِس وقت اسرائیل اور دس کے قریب یورپی ممالک میں عوامی سطح پر ہولوکوسٹ کو نہ ماننا یااُسے جائز قرار دینا جرم ہے اوراِس ”حرکت“پر قید تک کی سزا دی جاسکتی ہے اِن یورپی ممالک میں جرمنی، آسٹریا، فرانس، رومانیہ،بلجیم، سوئٹزرلینڈ، جمہوریہ چیک، پولینڈ، لتھوانیا اور سلیویکیاشامل ہیں کچھ عرصہ پہلے ایک برطانوی موٴرخ واشنگٹن ارونگ کو آسٹروی قانون کے تحت تین سال سزا سنائی گئی

یہ آسٹریا کا خاصا معروف قانون ہے اور 2004ء کے دوران724 افراد پر اِس کے تحت مقدمہ چلایا گیا مگر یہ اب تک ملنے والی پہلی سزائے قید ہے ہولوکوسٹ کو جھٹلانے والے کے خلاف تادیبی کاروائی کا قانون ایک خاص پس منظر کا حامل ہے اورہولوکوسٹ کے حوالے سے یورپی ممالک میں موجود قانون مسلمانوں کے لیے بھی نظیر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اِس سے پہلے ہمیں ہولوکوسٹ کے پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے ہولوکوسٹ کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر بعد نیورمبرگ ٹرائل کے موقع پر پہلی بار استعمال ہوئی اوریہیں پہلی مرتبہ 6 ملیں یہودیوں کے من گھڑت قتل عام یعنی ہولوکوسٹ کا ہوّا کھڑا کیا گیا۔

6 ملیں یہودیوں کے قتل عام کی بازگشت پہلی مرتبہ 1900ء میں سنی گئی تھی اور یہ اسٹیفن وائز نامی” ربائی“ کے ذہن رسا کی پیداوار تھی جس کا مقصد اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھایعنی یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اِس من گھڑت اصطلاح کا تعلق بنیادی طور پرقدیم صیہونی تحریک سے ملتا ہے اور اِس کی تاریخ فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کی تخلیق کے ارادے سے پیوست ہے لہٰذاسب سے پہلے اُن6 ملیں یہودیوں کے نام نہاد قتل عام کے حوالے سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کا پردہ فاش کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنا پر یہ انتہا پسندیہودی”مظلومیت“ کا لبادہ اوڑھ کر پوری دنیا پر ظلم کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جرمنی میں ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے بعد اور دوسری جنگ عظیم کے دوران یعنی 1933 ء سے 1945 ء کے درمیانی عرصے میں 6 ملین یہودی ،نازیوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر ے یہ اعداد و شمار قطعاً من گھڑت ہیں اورمیں اِس سلسلے میں چند اہم شواہدآپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں۔

نیویارک ٹائمز کی 11 جون 1990ء کی اشاعت میں درج ہے کہ”یہ اعداد و شمار1900ء میں نیویارک ٹائمزمیں شائع ہونے والی اُس تقریر سے ماخوذ ہیں جو صیہونی قیادت کے اہم اجلاس کے دوران کی گئی“ ربائی اسٹیفن وائزنے صیہونی قیادت کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہاتھا”وہ دن کبھی نہیں آئے گا کہ میں لمحے بھر کے لیے بھی صیہونی مفادات کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کروں، میں عظیم تر صیہونی مفادات کی تکمیل کی کوشش جاری رکھوں گاکیونکہ صیہونیت کی بالادستی کی مہم میں اب تک کوئی 6 ملین یہودی جان کی بازی ہار چکے ہیں،اِن کی نظر میں زندگی کی کوئی اہمیت نہیں اوراِن کا مشن دنیاوی مفادات سے کہیں بڑھ کر ہے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی سالہا سال پر محیط تشنگی کو مٹانے کے لیے بے تاب اوردنیا کے حقوق، عدل و انصاف اور انسانیت کے رہبرو رہنما بننے کے خواہاں ہیں“ یہاں یقیناآپ کے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہوگا کہ آخر یہ ربائی اسٹیفن وائز ہے کون؟یہ دراصل کئی صیہونی تنظیموں کا رکن اور بانی تھااور امریکا میں عالمی صیہونی کانگریس کی بنیاد بھی اِسی نے رکھی تھی اور یہ عالمی صیہونی کانگریس ہی تھی جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد نیورمبرگ ٹرائل کے موقع پر 6 ملین یہودیوں کے قتل عام کا الزام عائد کیا اور اپنے مقاصد میں کامیاب رہی ورلڈ المانک(World Almanac) کی رُو سے دیکھا جائے تو 6 ملین  افراد کے قتل عام کے حوالے سے کیے جانے والے اِس پر وپیگنڈے کی قلعی کھل جاتی ہے وہ اِس طرح کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل 1938ء میں طبع ہونے والے ورلڈ المانک کے صفحہ 510 پر دنیا بھر میں یہودیوں کی مجموعی آبادی 091، 748، 15 بتائی گئی ہے جبکہ1947ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد شائع ہونے والے ورلڈ المانک کے صفحہ487 پردنیا میں یہودیوں کی مجموعی آبادی 000، 690، 15 ظاہر کی گئی ہے یعنی یہ فرق صرف 58091 کا ہے 6 ملین کا نہیں!!!

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ باقی 5941909 افراد جن کے قتل کا واویلا کیاجاتا ہے کہاں ہیں؟اعدادوشماراِس دعوے کی تائید نہیں کررہے اور پھر ویسے بھی یہودی خود ہی اس بات پر زوردیتے ہیں کہ قدیم المانک جھوٹ نہیں بولتے! 6 ملین چونکہ عرصہٴ دراز سے یہودیوں کا پسندیدہ ہندسہ تھا لہٰذا انہوں نے ہولوکوسٹ کے نام پر اپنے اُن ہی پسندیدہ اعداد و شمار کا اعادہ کی۔اِس موقع پر بہتر ہوگا کہ میں اُن نام نہاد ”آشوٹز “کیمپ (Auschwitz Camp)کی حقیقت بھی واضح کرتا چلوں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ عقوبت خانہ تھا جہاں ہزاروں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

آشوٹز جسے عقوبت خانے اور ڈیتھ کیمپ کا نام دیا جاتا ہے درحقیقت قیدیوں کی تفریح طبع کا ذریعہ اور صحت مندانہ سرگرمیوں کا مرکز تھا یہ بیمار افراد کا ایسا مسکن تھا جہاں انہیں پرتعیش سہولیات فراہم کی جاتی تھیں اوراِس طبی مرکز کا موازنہ آج کے اُن امریکی کمیونٹی سینٹرز سے کیا جاسکتا ہے جہاں ماہر فزیشن اور سرجن ہمہ وقت موجود رہتے ہیں اِس کے علاوہ یہ بھی ایک اٹل تاریخی حقیقت ہے کہ آشوٹز میں بعض مریضوں کے پیچیدہ طبی امراض کے پیش نظر برلن سرجیکل کلینک کے مشہور سرجن اور ماہرین طب بھی گاہے بگاہے اس کیمپ کا وزٹ کرتے رہتے تھے اِسی آشوٹز کیمپ میں واقع کچن ایک وسیع و عریض عمارت پر محیط اور کھانے پکانے کے جدید ترین لوازمات سے مرصع تھاجسے بارہ کمروں میں تقسیم کیاگیاتھا یہاں تیار ہونے والے کھانوں کا، کیمپ اور ریڈ کراس کے طبی ماہرین باریکی سے جائزہ لیتے تھے اِسی ”بدنام زمانہ کیمپ“ میں قیدیوں کے لیے تفریح طبع کے ذرائع بھی موجود تھے جن میں تھیٹر بھی شامل تھا جہاں جرمنی کے مشہور فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے ایک کانفرنس ہال تھا جہاں مختلف موضوعات پر لیکچر دیے جاتے اور طب، فنون لطیفہ، فلسفہ، سائنس، معاشی و سیاسی تصورات جیسے موضوعات زیر بحث آتے اور جو وقت باقی بچ رہتا اُس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیدیوں کو فلمیں بھی دکھائی جاتیں 

یہی نہیں بلکہ ایک بڑا کتب خانہ بھی کیمپ میں موجود تھا جہاں مختلف موضوعات پر لگ بھگ کوئی 45 ہزار کتابیں موجود تھیں جبکہ کیمپ کے رہائشیوں کے لیے ”سوئمنگ پول “کی سہولت کے ساتھ ساتھ گھنے اورسایہ دار اشجار کے نیچے پرسکون وقت گزارنے کی مواقع بھی میسر تھے صحت مندانہ سرگرمیوں کے طور پر فٹبال، ہینڈ بال، شمشیر زنی اوراِسی نوع کے دیگر کھیل بھی کھیلے جاتے تھے ۔کیمپ کے حوالے سے کسی بھی قسم کی شکایات کے ازالے کے لیے باقاعدہ ”مرکز شکایات “قائم تھا جہاں قیدی اپنی شکایات درج کرانے کے ساتھ ساتھ کیمپ کی حالت بہتر بنانے کے لیے مفید مشورے اور تجاویز بھی پیش کرسکتے تھے آشوٹز میں مالی معاملات کا اپنا نظام تھا، اپنا ڈاک خانہ تھا جو ہفتے میں دو مرتبہ ڈاک کی ترسیل کرتا تھا۔

یہ ہے وہ مشہور زمانہ آشوٹز کیمپ جسے یہودیوں نے ڈیتھ کیمپ اور بدترین عقوبت خانہ قرار دے رکھا ہے پروپگینڈے کی آڑ میں سہولتوں کے مزے لوٹنے والے یہ انتہا پسند یہودی آج اصل ڈیتھ کیمپ یعنی ”گوانتا ناموبے“ میں مسلمانوں کو پنجروں کے سوا کچھ نہیں دے سکے واہ دو منہ والے یہودیو! واہ کتنا بدصورت چہرہ ہے تم انسانیت دشمنو کا! چلیے اب اُن مبینہ گیس چیمبرز کا پردہ بھی چاک کرتے ہیں اور اُس کے پس پردہ حقائق بیان کرتے ہیں اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہٹلر کے پاس اعلیٰ قسم کے گیس چیمبر زتھے جن کا مقصد جراثیم کشی تھا تاکہ اہم مقامات کو جرثوموں سے پاک رکھا جاسکے اِسی لیے وہاں زیکلون بی نامی گیس کا چھڑکاوٴ کیا جاتا تھاجن سے (تحقیق شرط ہے )جرثومے مرتے ہیں انسان نہیں!انٹرنیٹ پر آپ کسی بھی مبینہ گیس چیمبر کی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور جب دیکھ لیں گے تویہ بھی جان جائیں گے کہ مبینہ گیس چیمبر کے چوبی دروازے میں موجود شیشے کی کھڑکی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اگر واقعی کسی کو گیس چیمبر میں بند کرکے مارا جاتا تواُس کے لیے شیشے کی کھڑکی توڑ کر باہر آنا مشکل نہ تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صیہونی قیادت نے ہولوکوسٹ کا چرچا کرکے اور اسے ثابت کرکے کیا مقاصد حاصل کیے؟جو اب بہت واضح ہے کہ صیہونی قیادت نے عالمی برادری کو باور کرادیا کہ مختلف جنگوں میں گو کہ بہت سے لوگوں کو مظالم کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہودیوں کو تاریخ کے ہر موڑ پر مظالم کا سامنا کرنا پڑا ،جلا وطنی کی اذیت سہنی پڑی، گیس چیمبرز میں ہلاکتوں کا سامنا کرناپڑااور بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہوئے جس کے نتیجے میں 6 ملین افراداپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے

 
اِس طرح انہوں نے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی یعنی دوسرے الفاظ میں یہودیوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی اور ان کی گیس چیمبرز میں ہلاکتوں کے حوالے سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کا مقصد عالمی برادری کو فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے لیے قائل کرنا تھا چنانچہ بعدازاں طاقتور ممالک نے جن میں سوویت یونین، فرانس، برطانیہ اور امریکا شامل تھے ، یہ اعلان کیا کہ ”مظلوم یہودی جنہوں نے جنگ عظیم کے دوران زبردست ظلم و ستم کا سامنا کیا انہیں فلسطین میں آزاد ریاست کے قیام کا حق حاصل ہے“ بعد میں آزاد اور غیر جانبدار ذرائع نے یہودیوں کے نام نہاد قتل عام یعنی ہولوکوسٹ کا پول کھول دیا اور اس حوالے سے جھوٹے پروپیگنڈے کو سامنے لایا گیا یوں اُن کے جھوٹے دعووٴں کی قلعی کھل گئی کہ آشوٹز کوئی ڈیتھ کیمپ نہیں تھا اوریہودیوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تشہیر کے لیے ہولوکوسٹ کا واویلا مچایا، جنگ کے بعد نیورمبرگ میں تحقیقاتی کمیشن 1946ء میں قائم ہواجہاں یہودیوں نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرانے کی کوششیں تیز ترکردیں اور بالآخر فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا اور یوں یہودیوں نے خود کو مظلوم ظاہرکرتے ہوئے ہولوکوسٹ کی آڑ میں اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرلیے
 
کئی بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیات نے ہولوکوسٹ کے حوالے سے اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے ہٹن پیٹر گبسن مذاہب عالم کے موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ” ہولوکوسٹ ایک فسانہ ہے اور مردم شماری اور اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں یہودیوں کی تعداد د پہلے کے مقابلے میں بڑھ گئی تھی“ امریکی مؤرخ ودانشور مائیکل انتھونی ہوف مین نے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور وہ اس امر کو مشتبہ سمجھتے ہیں کہ نازیوں نے گیس چیمبرز میں یہودیوں کا قتل عام کیا اِن کا کہنا ہے کہ” زیادہ تر یہودیوں کی دوسری جنگ عظیم میں اموات کا سبب میعادی امراض اور دیگربیماریاں ہیں“ پال ریزینیئرجو ایک معروف سماجی کارکن اور مصنف ہیں ، کہتے ہیں کہ ”جرمن کیمپوں کی تصاویر جعلی اور خود ساختہ ہیں“
 
ڈیوڈ جان کا ؤڈل ارونگ، انگریز مؤرخ جو کہ دوسری جنگ عظیم کی فوجی تاریخ کے مصنف ہیں، لکھتے ہیں کہ ” یہودیوں کا قتل عام کسی خاص منصوبہ بندی کا حصہ نہ تھا اگر حقیقتاً ایسا ہوتا تو اتنے بڑے پیمانے پر یہودی آبادی اپنا وجود برقرار نہ رکھ پاتی“ بہرحال اگر ہولوکوسٹ کا واویلا درست ہے تو پھر انتہا پسند یہودیوں کو اِن سوالات کے جوابات دنیا کو دینے میں کیا عار ہے کہ ربائی اسٹیفن وائز نے جنگ عظیم دوم سے 39 سال قبل ہی 1900ء میں 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام کا معاملہ کیوں اٹھایا تھا اوراِسے جواز بناتے ہوئے صیہونی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیوں کیا تھا؟ اگر ہولوکوسٹ کی کوئی حقیقت ہے تو پھر اِس حوالے سے گفت و شنید اور رائے زنی کو یہودیوں نے ممنوع کیوں قرار دیا ہوا؟
 قدیم تاریخی واقعات بھی ہمیشہ زیر بحث آتے ہیں اور تحقیق کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے کچھ کم بختوں ، کم ظرفوں اور متعصب کیڑوں کے دماغ میں جب یہ تجسس ”علمی تحقیق “ کے نام پر چپکا رہتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نکاح کے وقت عمر کیا تھی؟ تو محض 60برس قبل پیش آنے والے واقعے کی تحقیق کیوں نہیں کی جاتی؟ اسرائیلی حکومت اس واقعے کی تحقیق کے لیے مورخین کو اجازت کیوں نہیں دیتی؟اور تاریخی دستاویزات کو منظر عام پر کیوں نہیں لاتی؟

اگر حقیقتاً ہولوکوسٹ ہوا ہے تو کہاں ہوا ہے؟ کیا فلسطینیوں کااِس میں کوئی ہاتھ ہے ؟

اوراگر یہ واقعات یورپ میں پیش آئے ہیں تو بے چارے مظلوم فلسطینی اس کی قیمت کیوں چکا رہے ہیں گزشتہ 60 برسوں میں مظلوم فلسطینیوں پر کیا کیا قیامتیں نہیں ڈھائی گئیں۔ وہ اپنے پیاروں سے ،اپنے چہیتوں سے محروم ہوگئے، اِن کے گھر تباہ کردیے گئے یہاں تک کہ اِن سے جینے کا حق بھی چھین کراُنہیں اپنی ہی زمین پر اجنبی بنادیاگیا آخر ہولوکوسٹ میں اُن کا کیا کردار تھا؟ اوراُن کوکن ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی؟ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جو لوگ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کرعالمی ہمدردی حاصل کرنے میں کوشاں رہے، اور ہولوکوسٹ کے نام پرنسل کشی کا دعویٰ کیا اُن ہی کے ہاتھ فلسطین اور لبنان کے نہتے شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں

وہ اُن روح فرسا مظالم سے کس طرح انکار کرسکتے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر کیا؟ 1982ء میں صابرہ و شتیلہ کیمپوں میں ان کی بربریت کو کون بھول سکتا ہے جس میں تین روز تک متواتر فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا،تین ہزار بے گناہ فلسطینی مارے گئے۔ عورتوں، بچوں اوربزرگوں تک کو نہیں بخشا گیااور شقاوت کی انتہا کرتے ہوئے گولیاں چلانے کے بجائے نیزوں کی مدد سے اُن معصوموں کو قتل کیاگیا تاکہ کوئی شور شرابا نہ ہو اور خاموشی سے وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرلیں یہودی کس منہ سے خود کو مظلوم کہتے ہیں۔

یہ وہ ظالم ہیں جنہوں نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر معصوم عبادت گزاروں کو خون میں نہلایا۔اِن کا کا عقیدہ ہے کہ6کا تہرا ہندسہ یعنی ٹریپل سکس666) (شیطانی علامت ہے مگر جب ہم مڑ کر تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم یہ ہندسہ جسے یہودی نحس خیال کرتے ہیں، اس کا اعادہ کوئی تین مرتبہ دیکھتے ہیں۔ پہلے 1900ء میں ربی اسٹیفن وائز نے 6ملین یہودیوں کے قتل عام کی بات کی، دوسری مرتبہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر6 ملین یہودیوں کے قتل کا معاملہ اٹھا ،پھر علیحدہ ریاست کے قیام کے لیے یہودیوں نے 6 ملین افراد کے قتل عام کا مسئلہ اٹھایااِس طرح 6 کے ہندسے کی تین مرتبہ تکرار نے ٹریپل سکس کے شیطانی ہندسے کو جنم دیایعنی ثابت ہوا کہ ان عوامل کے پیچھے جو امرکار فرما ہے وہ خباثت کے سوا کچھ اور نہیں اورپھر ویسے بھی شیطان کے چیلے شیطنت کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں !! ان شواہد کی روشنی میں کم از کم میں تو یہ کہنے اور لکھنے سے نہیں ڈرتا کہ یہودی دنیا کے شاطر اور مکار ترین لوگ ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی مقدس ہستی کے گستاخانہ خاکے بنائے ، فتنہ نامی فلم تیار کی اورمقدس کتاب قرآن مجید کی آیات کا (نعوذ باللہ )مضحکہ اڑایا !!

لینک کوتاه:

کپی شد