جمعه 15/نوامبر/2024

یہودی ونصرانی جارحیت و لاقانونیت کا طویل شیطانی سفر

بدھ 28-اپریل-2010

فلسطین کا وہ حصہ جو بحیرہ روم کے کنارے یہودیوں کی مستقل حکومت قائم کرنے کے لیے اعلان بالفور کی رو سے جبراً الگ کر دیا گیا، حکومت برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودی سرمایہ داروں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد وہ یہودیوں کے لیے فلسطین میں ’’قومی وطن ‘‘ کے قیام کی حمایت کریں گے-
 
لارڈ بالفور جو برطانیہ کے وزیرخارجہ تھے ، کی طرف سے ایک مکتوب 2 نومبر1917ء کو لارڈ اتھس چائلد کے نام بھیجا گیا جس کا متن تھا کہ ’’ملک معظم کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کے قیام کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنی بہترین کوششیں اس نیک مقصد کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے صرف کرے گی لیکن یہ امر واضح کر دینا ضروری ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا جس سے فلسطین میں موجود غیر یہودی آبادی یعنی مسلم اورمسیحی عربوں کے شہری یا ان کے حقوق معرض خطر میں پڑیں یا یہودیوں کو دوسرے ممالک میں جو سیاسی حیثیت حاصل ہے،ان کوضررپہنچے- یہ اعلان صہیونی سیاست میں حقوق بنیادی حیثیت اختیار کر گیا اور اسے معاہدہ سیورے میں بھی شامل کرلیا گیا مگر ترک مجاہدوں نے غازی مصطفی کمال کی زیر قیادت یہ خفی اور مسلمانوں کے خلاف اس معاہدے کے پرخچے اڑا دیئے اور یہودیوں اور نصرانیوں کی اس سازش کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا- مسلمانوں اوراسلام کے خلاف انگریزوں کی یہ مشترکہ سرگرمیاں جاری رہیں لہذاجونہی دیگرممالک میں آباد یہودیوں کا داخلہ فلسطین میں شروع ہوا، عربوں اور یہودیوں کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی –

برطانیہ نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا اور اس طرح 18فروری 1947ء کو فلسطین کا یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے حوالے سے 10مئی کو اپنے فرض سے سبکدوش ہوگیا مگر اس وقت تک چھ لاکھ یہودی فلسطین میں جبراً دخل ہوچکے تھے – انجمن اقوام متحدہ نے اس سازش پر عملی جامہ پہناتے ہوئے تقسیم فلسطین کا ایک منصوبہ پیش کردیا جس کے مطابق یہودیوں کو شمال میں مشرقی الخلیل ساحلی علاقہ اور جنوب میں نجب دے دیا گیاجبکہ عربوں کے لیے مغربی الخلیل درمیانی علاقہ اور جنوب میں غزہ کی بندرگاہ تجویز ہوئی اور یروشلم کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رکھا گیا-
 
عربوں نے اس جبر کے خلاف احتجاج کیا مگر ان کی ایک نہ سنی گئی اور تمام تر احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے یہودی مملکت یعنی اسرائیل قائم کردی گئی – اسرائیل کا پہلا صدر ڈاکٹر وائٹیس مین اور وزیراعظم بن گوریان مقرر ہوا- اقوام متحدہ کی سربراہی و سرپرستی میں یہودی انتہائی بے بکانہ انداز میں آگے بڑھے اور عربوں کے ساتھ بدترین کشمکش کا آغاز کیا-
 
عربوں نے یروشلم کے پرانے شہرکو فتح کرلیا جس میں القدس شریف شامل تھا چنانچہ 8 دسمبر 1948ء کواعلان ہوگیا کہ امیر عبداللہ والی مشرقی اردن فلسطین کے عرب علاقوں کے بادشاہ ہوں گے جبکہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب قرار پایا اور اس کے ساتھ ہی 11مئی 1949ء کواسرائیل اقوام متحدہ کا رکن بن گیا- اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی یہودیوں نے لاکھوں کو جوپشت با پشت سے فلسطین میں آباد تھے، ان کو گھر وں سے نکال کر بے خانماں کردیا جس سے ایک نئی خوفناک صورت حال پیدا ہو گئی-

اس دوران برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل سے ساز باز کرکے متحدہ عرب جمہوریہ پر حملہ کردیا اور پھر خود بھی اس بہانے سے جنگ میں شریک ہوگئے- بین الاقوامی حالات بہت نازک صورت اختیار کرگئے – اس طرح موقع غنیمت جانتے ہی جون 1967ء میں اسرائیل نے امریکی مدد سے اچانک چھاپہ مار کر اردن ، مصر اور شام کے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا چنانچہ ڈاکٹر گزیارنگ کی قیادت میں ایک مصالحتی کمیشن تیار کیاگیا جو عربوں اور یہودیوں کے درمیان مصالحت کراسکتا-
 
عربوں نے اس کمیشن کے ساتھ تعاون کیا کہ اگر اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی کردے تو گفت و شنید ہوسکتی ہے مگر بپھرے ہوئے یہودیوں نے علاقے خالی کرنے سے انکار کردیا اور اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر قائم رہے لہذا اس مختصر سی تاریخ بیان کرنے کامقصد یہ تھا کہ یہودیوں، نصرانیوں کے ان عوامل کا جائزہ لیا جا سکتا ہے- جن کے تحت ان کے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل ان کے فرائض میں شامل ہے- عرب ممالک کے مختلف علاقوں پر یہودیوں کا شب خون مارنا اور ناجائز قبضے کرنا ایک طرح سے عربوں کواس طرف مائل کرنا ہے کہ وہ اس شرط پر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے پر تیار ہیں اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی کردے – 1956ء میں جب حالات نازک صورت اختیار کر گئے تو 1959ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسرائیلی نمائندہ مشتابل روزینہ سے ملاقات کی اور اسے یقین دلایا کہ اسرائیل اگر عرب علاقے خالی کردیتاہے تو وہ اسرائیل کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں بلکہ اسرائیل کو تسلیم کرانے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اور یہ بات پاکستان کے مفاد میں ہے مگر بعد ازاں اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی اور اسرائیلی کارروائیاں تیزی کے ساتھ جار ی ہیں-
 
مارچ 1978ء میں جب اسرائیل نے جنوبی لبنان پر فلسطینی بستیوں کو تباہ کرنے کے لیے حملہ کیاتو پلان کے مطابق امریکا اس جنگ میں کود پڑا اور پھر یہ جنگ عرصہ تقریباً چار ماہ بند ہو گئی مگر اس کے کچھ عرصہ بند 26مارچ 1979ء واشنگٹن میں امریکی صدرجمی کارٹرکی موجودگی میں مصر اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ امن طے پا گیا اور پھر 25 اپریل یعنی ٹھیک ایک ماہ بعد دونوں ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کردی جس کے ساتھ ہی اسرائیل نے دریائے اردن کے کنارے پر اسرائیلیوں کی آبادکاری کاکام شروع کر دیا جس پر پاکستان کے علاوہ دیگر عرب ممالک نے شدید احتجاج کیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا-
 
اس طرح یہودیوں کے بڑھتے ہوئے قدم جو امریکا کی آشیر باد سے مضبوط سے مضبوط ترہوتے چلے جا رہے تھے – یروشلم کی کی طرف بڑھے اور 3جولائی 1980ء کو اسرائیل نے یروشلم کو صدر مقام قرار دے دیا – اس کے ٹھیک ایک سال بعد جون 1981ء میں اسرائیلی طیاروں نے امریکی مدد سے بغداد کے نزدیک عراق کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کردیا اور پھر ایک ہی سال بعد 1982ء کے وسط میں اسرائیلی فوجوں نے مغربی بیروت پر شدید حملہ کیا جس کے نتیجے میں سترہ ہزار سے زائدافراد ہلاک ہوگئے اور اس وحشیانہ کارروائی کے باعث یکم ستمبر 1982ء کو بیروت پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا-امریکا اسرائیل کو مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی امداد جاری رکھے ہوئے تھا اور اس کی کوشش تھی کہ وہ مسلم امہ کو اس قدر نڈھال و بدحال کردے کہ وہ خود بخود اسرائیل کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیں-

مصر اسلامی دنیا کا واحد اور پہلاملک تھا جس نے امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اسرائیل کو تسلیم کرلیا- مصر کااسرائیل کوتسلیم کرتے ہی تقریباً تمام اسلامی مالک نے مصر کیساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کردیئے اس طرح مصر نے اپنی تمام تر توجہ مغرب کی طرف پھیر دی یہی وجہ ہے کہ مصر آج کسی یورپی ملک کا نقشہ پیش کرتا دکھائی دیتاہے- امریکا نے اس احسان کا پورا بدلہ دیا اور تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نے 1979 ء میں مصر کو ڈیڑھ ملین ڈالراور پھر 1980ء میں ایک ارب دس کروڑ ڈالر کا قرضہ دیا -1983-84رقم بڑھا کر 1.3 بلین ڈالر کردی گئی- اسرائیل نے بھی صحرائے سینا کا علاقہ خالی کرکے مصر کے حوالے کردیااور آج مصر مکمل طور پر یورپ کے زیر اثر اسلام سے ہٹ کر مغربی طرز حکومت زندگی اپنائے دکھائی دیتاہے لہذا یہی امریکاکی وہ کامیاب کوشش ہے کہ جس کی بدولت وہ تمام اسلامی ممالک کو جدید اسلام اور روشن خیالی کی طرف راغب کرتے ہوئے ان پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتاہے-
 
پاکستان کے اندر مشرف دور میں اس جدید اسلام اور روشن خیالی کا انتہائی شدو مدکے ساتھ پرچار کیا گیا اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی گئی جواسلام کے منافی اور غیر اخلاقی تھا- ہماری نوجوان نسل کو بہکانے اور اسے بے راہ روی کا شکار کرنے کے لئے ہر طرح کا بے ہودہ عمل نافذالعمل کرنے کی کوشش کی گئی یہاں تک کہ بچوں کی کتابوں میں بھی مختلف نوعیت کی تبدیلیاں لا کرانہیں اسلام سے دور کرنے یا ذہنی انتشار میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی-

جہاد کی آیات کا سلیبس سے نکالنااور ایک دہشت گرد اور مجاہد کے فرق کو مٹا دینے تک کے عمل کو فروغ دیا گیا- اسلامی تشخص سے متنفر کرنے کے لئے جعلی اسلامی گروپس تشکیل دیئے گئے اور پھران سے بہیمانہ عوامل کروا کر لوگوں کواسلام سے دور کرنے کی کوشش کی گئی- افغانستان امریکی داخلے سے لے کر آج تک

امریکا کی تمام تر توجہ پاکستان پر مرکوز ہیں اور وہ اسے مکمل طور پر اپنے دباؤ میں لئے ہوئے ہے بالخصوص 9/11کے خود ساختہ واقعہ کے بعد اس نے پاکستان کو اپناٹارگٹ بنارکھاہے اس لئے کہ یہی وہ اسلامی قوت ہے جو کسی بھی لمحہ یہودیوں نصرانیوں کے لئے مشکلات پید ا کرسکتی ہے اور اسکے بعد دوسری اسلامی طاقت ایران کے گرد گھیرا تنگ کیا جار ہاہے تاکہ آس پاس کی ان اسلامی قوتوں کو تباہ کرکے اس خطے پر مکمل قبضہ کرلیا جائے-

بڑھتی ہوئی اسرائیلی جارحیت خطے کے امن کو تباہ کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہو گی اور یہ بات طے شدہ ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملہ تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوجائے گا – امریکا کی یہ کوشش کسی جنونی شخص کی حد کو پہنچی ہوئی ہے جسے اپنے جنون یا پاگل پن میں اپنے مقصد کے علاوہ کچھ بھی دکھائی یا سجھائی نہیں د یتا – ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکا اپنے مطلب کی ایجنٹ حکومتیں قائم کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے – عراق کے اندر امریکا نواز حکومت قائم کرکے پس پردہ اس پر قبضہ کئے ہوئے اور ہر وہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہے جس کے باعث عراق کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا گیا ہے-

اسی طرح افغانستان کے اندر کرزئی حکومت قائم کی گئی جو طالبان کے مقابلے میں شاید قیامت تک قائم نہ ہوسکتی- اس ایجنٹ حکومت کی موجودگی میں امریکا اور اس کے اتحادی برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اپنے مکروہ عزائم اور ناپاک ارادوں میں بہت حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں- مصر ،ترکی اردن اور متحدہ عرب امارات میں شامل چھوٹے چھوٹے اسلامی ممالک ویسے ہی اس اہل نہیں کہ وہ غلامی سے سراٹھائیں -پاکستان کا معاملہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں اور اس اہم ملک میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کسی سے پوشیدہ نہیں –

ڈاکٹر قدیر خان کی قیدسے بے نظیر کے قتل تک تمام حالیہ معاملات سے اگر پردہ اٹھایا جائے تو مندرجہ بالا ان عوامل کی مکمل تصدیق ہوجاتی ہے جن پر عمل درآمد کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا- پاکستان اس وقت شدید ترین دباؤ کا شکار ہے- ایک پلان کے تحت اس کی معیشت تباہ کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا گیا ہے جس طرح بھوکے ننگے شخص سے ہر طرح کی بات منوائی جاسکتی ہے اسی طرح پاکستان کو بدحال کرکے اس سے اپنے مقاصد کی ہر بات منوائی جار ہی ہے – سابقہ حکومت میں پاکستان پر دباؤ بھی بڑھایا گیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور ہماری حکومت نے اس کا اظہار بھی کیا کہ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو کون سی قیامت آ جائے گی اور یوں محسوس ہو رہا تھاکہ پاکستان بھی جلد یا بدیر اسرائیل کو تسلم کرے گا- مگر شاید دیگر اسلامی ممالک کی طرف سے ایسا اشارہ نہ ملنے پر پاکستان کے اندر یہ پیش رفت نہ ہو سکی-

پاکستان اس پورے علاقے میں ایک ایسا خطہ ہے جہاں سے ایران چین سمیت مشرق وسطی کے تمام مممالک تک رسائی آسان و سہل ہے اور پاکستان کے ساتھ سفارتی واقتصادی تعلقات قائم کرنے کا مطلب پاکستان کے اندر رہ کر اس کے ہر شعبہ کی نگرانی کو ممکن بنایا جاسکتاہے- کیری لوگر بل کی صورت میں پاکستان کی سیاسی عسکری و معاشی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی –

اسی طرح سابق صدر مشرف نے امریکی ایجنٹ ہونے کے پورے پورے ثبوت فراہم کرتے ہوئے اکتوبر 2005ء میں جیوش کانگریس سے خطاب کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھاکہ ’’دونوں ممالک ایک دوسرے کی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں اور اسرائیل سے رابطوں کے بعد پاکستان کوبہت فائدہ ہوگا- پاکستان آزاد فلسطینی ریاست کے بعداسرائیل کوتسلیم کرلے گا- یہودیوں سے ہمارا براہ راست کوئی تنازع نہیں ….’’چنانچہ اس تناظر میں 1947ء سے تاحال یہودی و نصرانی جارحیت و لاقانونیت کا یہ طویل شیطانی سفر ہے کہ جس کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرانے کی یہ امریکی کوششیں شاید بہت جلد رنگ لانے والی ہیں-

لینک کوتاه:

کپی شد