توقع کی جارہی ہے کہ آئندہ برس ہونے والے مقابلے میں ساٹھ ممالک سے دس ہزار ایتھلیٹ شرکت کریں گے اب یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اٹھارہ سال سے کم عمر یہودی نوجوانوں کے کھیلوں کے اس مقابلے کی آڑ میں اسرائیل اور کیا کیا کارنامے نہیں دکھا رہا ہوگا! سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کا کوئی کونہ شعبہ ایسا موجود ہے جو اسرائیلی چیرہ دستیوں سے آزاد ہو؟ کراچی اور اس کا ساحل سمندر ہمیشہ سے یہودیوں کی نگاہوں کا مرکز رہے ہیں-
دستیاب ریکارڈ اور معلومات کے مطابق اٹھارویں صدی میں کراچی میں لگ بھگ 2500 یہودی خاندان آباد تھے جو مراچی زبان بولتے تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے آبا و اجداد اسرائیل کے علاقے بین (Bane) سے تعلق رکھتے تھے- 1893ء میں انہوں نے اپنا ایک بڑا مذہبی مرکز shalome magain synagogue تعمیر کیا- 1903ء میں ’’یہودی نوجوان‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا بظاہر مقصد کھیلوں کے علاوہ یہودیوں کی دیگر سرگرمیوں کو فروغ دیتا تھا- 1918
ء میں کراچی سرگرمیوں کو فروغ دیتا تھا- 1918ء میں کراچی یہودی سنڈیکٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد غریب یہودیوں کو انتہائی کم کرائے پر مکانات فراہم کرنا تھا- کراچی میں یہودیوں کا عمل دخل اس حدتک بڑھ گیا تھا کہ 1936ء میں ان کا ایک لیڈر جس کا نام ابراہیم ریوبن بتایا جاتا ہے، کراچی کارپوریشن کا کونسلر بھی منتخب ہوگیا تھا- قیام پاکستان کے بعد کراچی میں یہودیوں کا عمل دخل کم سے کم ہونا شروع ہوگیا-
جلتی پر تیل کا کام 1948ء، 1956ء اور 1967ء کی عرب اسرائیل جنگوں نے کیا- جس کے بعد کراچی کے یہودی بھارت، برطانیہ اور اسرائیل منتقل ہوگئے اور انہوں نے مذہبی مرکز میگن شیلوم جس کو Solomon Umerdekar نے تعمیر کیا تھا، 1980ء میں گرا کر ایک بڑا تجارتی مرکز قائم کردیا گیا- کراچی سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کی ایک بڑی اکثریت نے رام اللہ میں رہائش اختیار کی اور کراچی کی یاد میں وہاں اپنا ایک مرکز میگن شیلوم کے نام سے تعمیر کیا-
یہودیوں نے کراچی سے اپناناطہ تو کسی حد تک ختم کردیا مگر وہ پاکستان کو کبھی نہ بھول سکے- اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم اور دنیا میں یہودی تحریک کے بانی ڈیوڈ بن گورین نے 9 اگست 1967ء کو کہا تھا کہ ’’بھارت کے ہندوئوں کے دل مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے لیے کبھی بھی صاف نہیں ہوسکتے اور وہ ہمیشہ ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے- اس لیے ہمیں پاکستان کے مقابلے میں ہمیشہ بھارت کو اپنا دوست رکھنا ہوگا اور پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لیے ہمیں بھارت ایک مرکز کے طور پر میسر ہوگا-‘‘
اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ بھارت میں یہودیوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہو اور ان کا پاکستان کے ساتھ رابطہ نہ ٹوٹے اس کے لیے انہوں نے بھارت میں پاکستان سے جانے والے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی بسانا شروع کردیا جس کے لیے انہوں نے کراچی کا ساحل سمندر استعمال کیا-
یہ روٹ ان کے لیے گلف ریاستوں اور ایران تک رسائی کے علاوہ بھارت پہنچنے کا ذریعہ تھا- یہودیوں کے اس خفیہ راستے کو 2000ء میں ایران نے دریافت کرلیا اور اس پر مکمل پہرہ بٹھا دیا گیا، جس کے نتیجے میں وقتی طور پر ان کا یہ سمندری راستہ تو بند ہوگیا مگر بھارت کے ساتھ تعلقات کبھی بھی سرد مہری کا شکار نہ ہوئے- آج ممبئی حملوں کو کئی مہینے گزر چکے ہیں مگر ساحل سمندر، بحیرۂ عرب کے علاوہ سمندری روٹ کی بات ختم ہونے میں نہیں آرہی-
مغربی میڈیا کی تان بار بار سمندری روٹ پر جا کر ٹوٹتی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل جو بھارت کا اس وقت قدرتی حلیف بن چکا ہے- کوئی اور کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں- اسرائیلی موساد اور بھارتی خفیہ ایجنسی راجو اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے اپنے ہی ملک کے شہریوں اور ہم مذہبیوں کو قتل کرنے میں شہرت رکھتی ہے، کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی بھی خوفناک سازش کے خدشے کو رد نہیں کیا جاسکتا- وہ ملک جو بیس سال سے زائد عرصے تک دنیا کو اندھیرے میں رکھ کر سمندر کے روٹ کو ایران، گلف اور بھارت کی ریاستوں تک رابطے کا ذریعہ بنا سکتا ہے اس کے لیے ایک بوٹ کے علاوہ چند قربانی کے بکرے تلاش کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا-
یہودیت کی سازشوں کا مقابلہ امت مسلمہ کے اتحاد کے بغیر ممکن نہیں- وقت آگیا ہے کہ امت کے مفکرین، علماء اور قائدین اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی طرف توجہ دیں- ورنہ یہودیت کا ایک اور مقصد ڈیوڈ بن گورین نے 1948ء میں برطانیہ میں یہودیوں کی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بیان کردیا تھا کہ ’’پاکستان اسلام کے نام پر بننے والی دنیا کی واحد ریاست ہے اس ریاست کا پھلنا پھولنا درحقیقت مستقبل میں یہودیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے- اس لیے میں تمام یہودی مفکرین سے گزارش کروں گا کہ وہ اس خطرے کے سدباب کا حل ڈھونڈیں-‘‘