جمعه 15/نوامبر/2024

یورپی یونین اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی

جمعہ 13-مئی-2022

 یورپی یونین نے ایک مرتبہ پھر غلط سوچ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب اسرائیل کو بہت نرم الفاظ میں ان 1200 فلسطینیوں کے مستقبل پر بات کی ہے جن کو ’’مسافر یطا‘‘ سے بے دخل کر دیا ہے۔ اس خطے کو ’’فائرنگ زون 918‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسرائیل کی سپریم کورٹ نے ان فلسطینیوں کے آٹھ دیہات کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ یورپی یونین نے اسرائیل اور عالمی برادری کی پیروی میں اس واقعہ کو محض سیدھا سیدھا بیان کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے اور فقط یہ کہا ہے کہ اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔

بین الاقوامی قانون مقبوضہ عرب علاقوں سے شہریوں کے جبری انخلاء اور محفوظ قرار دیے گئے افراد کو بے دخل کرنے سے روکتا ہے خواہ یہ انخلاء انفرادی ہو یا بڑی تعداد میں لوگوں کو نکالا جا رہا ہو۔ ان انفرادی یا اجتماعی جبری بے دخلیوں سے دوچار افراد کے کچھ بھی مقاصد ہوں، انہیں مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے علاقوں، گھربار اور کاروبار کو چھوڑ دیں۔

ایک قابض قوت کی حیثیت سے اسرائیل کو بخوبی علم ہے کہ بین الاقوامی قانون کا منشا کیا ہے۔ فلسطینی آبادی کو اس قانون کے تحت تحفظ فراہم کرنا اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔ ان حالات میں انہیں اپنے مقامات سے بے دخل کرنا اس قانون کی صریحاً اور سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ صورت حال اسی اعتبار سے اور بھی خراب ہے جب یہ سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل میں عالمی برادری نے سیاسی اور معاشی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر نام نہاد سلامتی کا بیانیہ پیش کیا ہے۔ اس نے جس زمین پر مساغر یطا تعمیر کیا گیا تھا، اسے یہ کہہ کر خالی کرانا شروع کر دیا ہے کہ اسرائیل کی فوج نے کہا ہے کہ یہ جگہ اس لیے خالی کرانا ضروری ہے کیوں کہ یہاں فوج کے تربیتی مقاصد پورے کیے جائیں گے۔ یروشلم پوسٹ کی خبر میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اب بھی اسرائیلی فوج کے ساتھ ایک معاہدہ اس بنیاد پر کر سکتے ہیں کہ یہ زمین زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں لائی جانا ضروری ہے۔

اس امر کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کی زرعی زمین سے مستقل طور پر محروم کر دیا گیا تھا۔ ان مقامات پر اسرائیل نے یہودی آبادکاروں کو لا کر ان کی بستیاں تعمیر کر دی تھیں۔ فوج نے مختلف حیلے بہانوں سے فلسطینیوں پر معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر دیا تھا۔

دستاویزات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ارئیل شیرون نے یہ خطہ فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کرنے کی غرض سے اسرائیلی فوج کو ناجائز طور پر دیا تھا تاکہ اسرائیل اسے اپنی حدود میں اضافے کے لیے استعمال میں لا سکے۔ یہ بات پوری ڈھٹائی سے کہی گئی تھی کہ اسرائیل کی حدود میں اضافہ کے لیے اس خطے کی ضرورت ہے۔ اس طرح سے دیہی فلسطینیوں کو پہاڑ کی پشت پر صحرا میں دھکیل دیا گیا تھا۔

مسافر یطا کے مئیر ابو نضال یونس کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ حکم ظاہر کرتا ہے کہ یہ عدالت بھی دراصل اسرائیلی قبضے کا ہی حصہ ہے۔ یہ حکم نامے اس اعتبار سے قابل رحم فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔

ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان حکم ناموں کے بعد یہ کہنا بھی ضروری نہیں کہ سپریم کورٹ صرف اسرائیل کے مفادات کے لیے ہی کام کرتی ہے۔ یہ اس کی نو آبادیاتی قوت سے وفاداری کو ظاہر کرتی ہے۔ کوئی بھی ریاستی یا عدالتی ادارہ کسی بھی صورت میں اس نو آبادیات کے خلاف کسی بھی صورت میں کام نہیں کرے گا۔ یہی معاملہ یورپی یونین کا ہے، یورپی یونین نے ہی مسافر یطا میں رہائش اختیار کرنے والی آبادیوں کو مالی امداد فراہم کی ہے۔

اس سال جنوری میں اسرائیل نے اس علاقے میں آٹھ آبادیوں کو مسمار کیا ہے۔ اسی دوران میں 19 افراد اور 11 بچوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکال دیا ہے۔ یورپی یونین نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی عملی کام نہیں کیا ہے۔ فلسطین میں یورپی یونین کی سرمایہ کاری برائے نام ہے۔ اس میں بھی کرپشن کا عنصر غالب ہے۔ وہ زبانی طور پر اسرائیل کو یاد دلا رہا ہے کہ اسے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ اسرائیل کا حال یہ ہے کہ وہ خود کو ہر دم مضبوط کرتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے لیے سفارتی تعاون حاصل کرتا ہے۔

یورپی یونین جب بھی انسانی بنیادوں پر امداد کا فلسطینیوں کے لیے اعلان کرتی ہے تو اس سے اس کی نفرت کا اظہار ہوتا ہے جو آبادی کے جبری انخلاء کی بات کرنے سے آگے نہیں بڑھتی۔ یہ عمل اسرائیل کی تاسیس کے دن [نکبہ] سے ہی جاری ہے جب لاکھوں فلسطینیوں پر قیامت توڑی گئی اور ان کی غالب تعداد بے گھر اور بے وطن کر دی گئی۔

لینک کوتاه:

کپی شد