جمعه 15/نوامبر/2024

ہولو کاسٹ متاثرین کی رقوم سے اسرائیلی بنک پھل پھول رہے ہیں

اتوار 5-جولائی-2009

اسرائیل کے دوسرے سب سے بڑے بنک ’’لیومی بنک‘‘ سے کہا گیا ہے کہ اس الزام کے بارے میں اپنا مؤقف واضح کرے کہ ’’نازی موت کیمپوں‘‘ میں جاں بحق ہونے والے یہودیوں کے اکاؤنٹ اس بنک میں تھے اور جاں بحق ہونے والے یہودیوں کی رقوم اس بنک کے پاس تاحال موجود ہیں-

لیومی بنک نے اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس ایسی رقوم موجود نہیں ہیں جبکہ اسرائیل کی پارلیمان (کنیست) نے 2004ء میں انکشاف کیا تھا کہ بنک کے پاس ان لوگوں کے پچھتر ملین ڈالر موجود ہیں جو ہولو کاسٹ کے دوران جاں بحق ہوئے تھے-

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک مثال ہے اس کے علاوہ بھی کئی بنک ہیں جن کے پاس ہولو کاسٹ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی رقوم جمع تھیں اور یہ رقوم ان کے ورثاء کو ابھی تک نہیں ملی ہیں جبکہ سوئٹرز لینڈ جیسے ملک بھی ادائیگیاں کرچکے ہیں-

73 سالہ ڈیوڈ ہلینگر جس کے دادا آرون کو آش وز کیمپ (پولینڈ) میں موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا ان کی زندگی میں ان کا اکاؤنٹ لیومی بنک میں تھا- ڈیوڈ ہلینگر کا مطالبہ ہے کہ اسے، اس کے والد اور دادا آرون کی رقم ادا کی جائے- اس وقت آرون کے اکاؤنٹ میں رقم موجود تھی اور اب اسے ایک لاکھ ڈالر ہرجانہ کی رقم ادا کی جائے- لیومی بنک کے خلاف الزامات اس وقت منظر عام پر آئے کہ جب اسرائیلی مؤرخ یوسی کاز نے اس بارے میں معلومات اکٹھی کی تھیں- اس نے جنگ عظیم دوم کے بعد بنک کی خط و کتابت کا ریکارڈ دیکھنا چاہا تو معلوم ہوا کہ ہولو کاسٹ میں جاں بحق ہونے والے لاتعداد افراد کے نام خفیہ رکھے گئے ہیں اس کی وجہ ’’تجارتی رازداری‘‘ ہے-

ڈاکٹر کاز کا کہنا ہے کہ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی- ڈاکٹر کاز کا تل ابیب کے نزدیک بار الان یونیورسٹی سے تعلق ہے- 1998ء میں سوئٹزرلینڈ کے بنکوں نے اس سے اتفاق کیا تھا کہ 1.25 بلین ڈالر کی رقم بطور ہرجانہ ادا کردی جائے گی- اس کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان بنکوں نے ہولو کاسٹ کے ہلاک شدگان کی رقوم سے بہت منافع کمایا ہے-

ڈاکٹر کاز کے انکشاف کی وجہ سے اسرائیل میں سال 2000ء میں پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی تھی تاکہ اسرائیل کے بنکوں کے مذکورہ معاملے میں رویے کے بارے میں تحقیق کرسکیں-

2004ء میں کمیٹی کی رپورٹ آئی کیونکہ لیومی بنک نے حکومت پر دباؤڈالا کہ اس رپورٹ کی اشاعت کو روکے رکھا جائے- تحقیق کاروں کو معلوم ہوا کہ ہولو کاسٹ میں ہلاک شدگان کے کئی بنکوں میں اکاؤنٹ تھے لیکن سب سے زیادہ اکاؤنٹ لیومی بنک میں تھے- تحقیق کاروں کا کہنا تھا کہ لیومی بنک میں کئی اور کھاتہ دار بھی تھے جو ہولو کاسٹ میں جاں بحق ہوئے اور ان کی رقوم بنکوں نے دبا لیں-

پارلیمانی کمیٹی کا ابتدائی جائزہ یہ تھا کہ کھاتہ داروں کے 160 ملین ڈالر بنکوں میں تھے اس کے لیے وہی فارمولہ اختیار کیا گیا تھا جو سوئٹزر لینڈ کے بنکوں نے اختیار کیا تھا لیکن لیومی بنک اور حکومت کے دباؤ کی وجہ سے یہ رقم نصف سے بھی کم رہ گئی- سال 2006ء میں ایک بحالی کمپنی قائم کی گئی تاکہ اکاؤنٹ ہولڈروں کا پتہ کرسکے اور اثاثے ان کے ورثا کے حوالے کیا جاسکے-

کمپنی کی خاتون ترجمان متیل نوئے نے کہا کہ لیومی بنک کا ابھی تک دعوی ہے کہ جو دعوے کیے گئے ہیں وہ ’’بے بنیاد‘‘ ہیں-

بنک نے دو سالوں میں پانچ ملین ڈالر کی رقم ادا کی تھی جو بنک کے نزدیک ایک اچھی علامت ہے- نوئے کا کہنا ہے کہ بنک کی طرف سے معاوضوں کی فراہمی مذاق ہے کیونکہ ساڑھے تین ہزار خاندان بنک لیومی سے ہرجانے کی رقوم وصول کرنے کے دعوے کرچکے ہیں-

2007ء میں سامنے آنے والی رپورٹ نے لیومی بنک کے لیے ناگوار صورتحال پیدا کردی کیونکہ یہ بات عام ہو چکی ہے کہ بنک کے اثاثوں کا ایک فیصد یعنی اسی ملین ڈالر کی رقم ان ہزاروں یہودیوں کی رقوم سے وجود میں آئی ہے جو ہولوکاسٹ میں ہلاک ہو چکے تھے-
ہلینگر کی 1936ء میں بیلجئیم میں پیدائش ہوئی تھی اور جس نے جنگ عظیم دوم کا عرصہ جنوبی فرانس میں گزارا تھا اب وہ وسطی اسرائیل میں تپاح تکوہ میں رہتا ہے-
 
اس کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے قبل اس کے والد اور دادا نے اینگلو فلسطین بنک میں رقم جمع کرائی تھی یہ لیومی کے پیش رو بنک کا نام ہے- اس نے بتایا کہ میرے والد اور دادا نے اینگلو فلسطین بنک میں اس امید پر رقم جمع کرائی تھی کہ انہیں اس وقت برطانوی زیر انتداب فلسطین کا ویزا مل جائے گا- اگرچہ اس کے والدین موت کیمپوں سے بچ گئے تھے اس کے دادا دادی کو آش وز کیمپ بھیج دیا گیا اور انہیں گیس چیمبر میں فوری طور پر ہلاک کردیا گیا-

ہلینگر کا کہنا ہے کہ اسے بنک لیومی کی اس وقت خبر ملی کہ جب اس کے والد بھی 1996ء میں انتقال کرچکے تھے- کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ رفاہ عامہ کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہولوکاسٹ کے متاثرین کی ایک چوتھائی تعداد ڈھائی لاکھ یہودی اسرائیل میں رہے ہیں جبکہ ان کی ایک تہائی تعداد بے انتہا غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے- بنک نے اس کے والد کا اکاؤنٹ بند کرنے کی اطلاع دی تھی لیکن اس کے والد کی رقم کی واپسی کا ذکر نہیں تھا- ہولو کاسٹ میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کی ایک چوتھائی تعداد اسرائیل میں ہے جب اس نے 1998ء میں بنک لیومی سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس سے یکسر انکار کردیا کہ اس کے دادا کا ہمارے پاس کوئی اکاؤنٹ ہے-

ہلینگر کا کہنا تھا کہ میرے دادا کو اس لیے ہلاک کیا گیا کہ وہ یہودی تھے اور جو ان کی رقم غصب کیے بیٹھے ہیں وہ بھی یہودی ہیں-

زیورخ میں اقتصادی جرنلسٹ شراگہ ایلام نے کہا ہے کہ 1948ء کی جنگ کے بعد یہودی یورپی مہاجر اسرائیل پہنچنا شروع ہوئے تو ان کے ساتھ ہمدردی کا سلوک نہ کیا گیا-

ڈیوڈ بن گوریان نے جو اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ہیں نے انہیں ’’انسانی خاک‘‘ قرار دیا جبکہ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے یورپ سے آنے والے یہودی کے لیے Sabonim قرار دیا جس کا مطلب ’’صابن‘‘ ہے- ان کا اشارہ نازیوں کے اس طرز عمل کی طرف تھا کہ وہ یہودیوں کی لاشوں سے صابن بناتے تھے-

ایلام کا کہنا ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو کہ جہاں ہولو کاسٹ سے بچ رہنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا ہو جیسا کہ اسرائیل میں کیا گیا ہے-

ایلام کا کہنا ہے کہ ہولو کاسٹ کا شکار ہونے والوں کے اکاؤنٹوں کو ’’گمشدہ‘‘ قرار دے دیا گیا لیکن ان رقوم سے اسرائیلی کمپنیوں نے بڑی ترقی کی اور اسرائیلی ریاست کو چاہیے کہ وہ ان کی واپسی کی بھرپور کوشش کرے- اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ رقم تیس ارب ڈالر ہوگی- ایلام کا کہنا ہے کہ یورپی یہودیوں نے جنگ سے پہلے فلسطین میں بڑی رقوم لگائی تھیں- زمین شیئر انشورنس پالیسیاں علاوہ ازیں بنک اکاؤنٹ بھی کھولے گئے تھے- دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے ان حصص پر قبضہ کرلیا کہ کیونکہ ان کے مالکان دشمن ملک میں رہ رہے تھے اور نازی جرمنی ان کا مالک تھا-

1950ء میں برطانیہ نے نئی قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست کو 1.4 ملین ڈالر دیے تاکہ جن لوگوں کو نقصان پہنچا ہو ان کو زر تلافی کا پہلا حصہ لوٹا دیا جائے- لیکن اس کی بالکل کوشش نہ کی گئی کہ دیگر لوگوں کے بارے میں بھی تفصیلات اکٹھی کی جائیں-

ایلام کا کہنا ہے کہ ان اثاثوں سے اسرائیل کے کئی کاروباری ادارے بام عروج تک پہنچ چکے ہیں- گزشتہ برس اسرائیلی ذرائع ابلاغ ایک تحقیق کو منظر عام پر لائے- جس کے مطابق 1950ء کے دورانیے میں وزارت خزانہ نے اراضی کے متعلق فائیلیں ضائع کردی تھیں تاکہ اسرائیلی ریاست ان اثاثوں اور زمینوں پر قبضہ کرسکے- لیومی بنک کے خلاف چلنے والا مقدمہ بنک کے خلاف پراپیگنڈے کو کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے-

سرکاری حکام اور ان افراد کے اہل خانہ کا خیال ہے کہ لیومی بنک کے واقعے سے معلوم ہو جائے گا کہ اسرائیل میں یورپ سے آنے والے یہودیوں کے ساتھ سلوک کیا جارہا ہے- نیز یہ کہ اسرائیل یہودیوں کا سرپرست ملک نہیں ہے- 2003ء لیومی بنک کے وکیل رملے کا ای نے پارلیمان کمیٹی کے سامنے کہا کہ اس واقعے سے امریکہ میں یہ تصور پروان چڑھے گا کہ اسرائیلی بنک رقوم چھپا کر رکھتے ہیں اور معاملات میں شفاف نہیں ہیں-

یورپی بنکوں سے گمشدہ رقوم کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں مثلاً ’’جیوش کلیمز ریفرنس‘‘ نے بھی اسرائیلی بنکوں کے کردار کی مذمت کی ہے-

( مضمون کو انگلش سے اردو قالب میں محمد ایوب منیر نے ڈھالا )

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از جوناتھن کک