جمعه 15/نوامبر/2024

ہند اسرائیل بڑھتے تعلقات مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت ہیں

پیر 26-مئی-2008

اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف کھلی جارحیت، اس کی بربریت اور دہشت گردانہ کارروائیاں دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں- اب غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی سے 15 لاکھ فلسطینیوں کی زندگی کو عذاب بنا دیا گیا ہے- پورا عالم عرب اور مسلمان دنیا فلسطینیوں کی حالت پر دکھ اور کرب سے گزر رہے ہیں، ایسے میں ہندوستان اور اسرائیل آپس میں دوستی کی پینگیں بڑھارہے ہیں-

عدم تشدد کے حامی ایک سیکولر ملک کا یہ معاندانہ رویہ ظاہر کررہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کرنے اور اس کا ساتھ دینے والا ملک مسلمانوں کے سخت خلاف ہے- ہندوستان کا کوئی دشمن ملک ہندوستان کی جاسوسی کیلئے اگر پاکستان، بنگلہ دیش یا کسی دوسرے ہمسایہ ملک کی سرزمین کو استعمال کرے تو اس کا کیا ردعمل ہوگا؟ ہندوستان اس کام کو تکنیکی یا کمرشل بنیادوں پر کہہ کر جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ اگر یہی جواز پاکستان استعمال کرے تو ہندوستان کا کیا مؤقف ہے- کیا وہ آسانی سے اسے تسلیم کرلے گا؟ آسانی تو دور کی بات ہے ہندوستان تو اس کے خلاف واویلا کھڑا کردے گا-
 
ہندوستانی اور بین الاقوامی میڈیا تو طوفان لے آتا- گزشتہ ماہ ہندوستان نے سری ہری کوٹا سے ایک اسرائیلی جاسوسی طیارے کو خلاء میں پہنچایا تھا جس کا مقصد خاص طور پر ایران اور شام کی جاسوسی ہے- کئی اور جاسوس طیارے ابھی سری ہری کوٹا سے چھوڑے جائیں گے- اسرائیلی سفارت کار کے مطابق اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان تین سال قبل خلائی تعاون کا معاہدہ طے ہوا تھا-

اسرائیل کا پہلا جاسوس سیارہ ٹکسار 21 جنوری 2008ء کو خلا میں چھوڑا گیا- پہلے اسے ستمبر 2007ء میں چھوڑنے کا پروگرام تھا، مگر ایران کے دباؤ کی وجہ سے پروگرام پر عملدرآمد نہ ہوسکا- خود ہندوستان کے اندر بائیں بازو کی پارٹیوں، مسلمان سیاسی جماعتوں اور مسلمان ممبران پارلیمنٹ کی مخالفت کا بھی حکومت کو سامنا تھا، مگر یو پی اے حکومت نے ایرانی لابی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل سے تعاون بڑھانے کا فیصلہ کرلیا- اسرائیل کے ساتھ تعاون میں بھارت کو بھی مالی فائدہ ہے- بھارت نے اس کیلئے اسرائیل سے خاصی بڑی رقم لی ہے- حکومت کے اس فیصلے کو ملکی حلقوں میں تنقید کا سامنا ہے- ہندوستان اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہے- اسرائیل کا 1948ء میں وجود میں آنا جائز ریاست ہے، اس کی بنیاد توسیع پسندانہ عزائم پر رکھی گئی-

1967ء میں اس نے عرب علاقوں پر قبضہ کر کے ایک غاصب ملک کی حیثیت اختیار کرلی- 60 سال سے اس کے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے- 21 جنوری 2008ء کو سری ہری کوٹا سے اسرائیل نے اپنا جاسوسی سٹیلائٹ خلا میں بھیج کر ثابت کردیا کہ وہ کبھی مسلمان ممالک کا دوست نہیں ہو سکتا- اسرائیل کے قائدین کا شاہانہ استقبال، ان سے فوجی معاہدات، اس کا مغرب اور یہود سے لگاوٹ ظاہر کررہے ہیں- ہندوستان ایران کے خلاف اسرائیل کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت تو دے رہا ہے مگر اس کے ایران سے بھی بہت پرانے تعلقات ہیں- ان دونوں ممالک سے تجارت سے لیکر امن کے قیام تک مشترکہ طور پر بھی کام کیا-
ہندوستان یہ بھی جانتا ہے کہ ایران امریکہ اور اسرائیل کو بری طرح کھٹک رہا ہے-
 
اسرائیل کی دیرینہ خواہش ہے کہ ایران کا حشر بھی عراق جیسا ہو، اس کیلئے وہ اپنا پھندا بننے میں مصروف ہے- اسرائیل کو ایران کی جاسوسی کیلئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کا موقع دینا امریکہ کو ایران پر حملے کی شہہ دینے کے مترادف ہے- بی جے پی نے اپنے دور حکومت میں امریکہ، اسرائیل، ہندوستان مثلث تیار کیا تھا جو کہ عربوں کے خلاف تھا- این ڈی اے کے دور حکومت میں اٹل بہاری واجپائی کے خصوصی مشیر برجیش مشرا نے کہا تھا کہ ہندوستان، امریکہ اور اسرائیل میں بعض بنیادی مماثلتیں پائی جاتی ہیں لہذا ان تینوں کے درمیان اتحاد ثلاثہ ہونا چاہیے- برجیس مشرا نے امریکی یہودیوں کی کمیٹی کے سالانہ ڈنر کے موقع پر یہ تقریر کی تھی- اس تقریر میں مشرا نے اشاروں کنایوں میں فلسطینیوں پر تنقید کی تھی اور اسرائیل کی تائید اور اس کا ساتھ دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا-

دہشت گردی کی مخالفت کے بہانے اسرائیل کی اندھا دھند تائید، اسرائیل کو رواداری، مساوات پر مبنی مملکت قرار دے کر اس سے تعلقات بڑھانا آزاد خارجہ پالیسی رکھنے والے ملک کیلئے درست نہیں- ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں تضاد اور بے سمتی مسلمانوں کی مخالفت پر مبنی ہے-

ہند اسرائیل بڑھتے ہوئے تعلقات ظاہر کررہے ہیں کہ ہندوستان وقتی اور موقتی فائدوں کا رفیق ہے- اس کی خارجہ پالیسی مفادات پر مبنی ہے- وہ امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر ناچنے کیلئے خود کو تیار کرچکا ہے- جس انداز سے اسرائیل کے قدم بھارت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بھارت ان کو خوش آمدید کہہ رہا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات اور مضبوط ہوں گے- حالات کے اس تناظر میں اسرائیلی سفیر کا یہ حیرت انگیز بیان بھی سامنے آیا کہ کارگل جنگ کے دوران اسرائیل کے ہندوستان سے تعاون کے نتیجے میں یہی حالات نئی دہلی کے موافق ہوئے- مارک سوفرنے کہا پاکستان کے خلاف ہندوستان کی کارگل جنگ کے بعد ہند اسرائیل دفاعی تعلقات کو قربت حاصل ہوئی-
 
آزمائش کی اس نازک گھڑی میں اسرائیل نے ہندوستان کی فیصلہ کن مدد کی تھی اور ثابت کردیا تھا کہ اسرائیل ہندوستان کا دوست اور مسلمانوں کا دشمن ہے- ہندوستان کے عربوں سے بھی خاص تعلقات رہے ہیں- اس دوستی کے نتیجہ میں ہندوستان نے عربوں سے بہت کچھ حاصل کیا ہے- دس لاکھ سے زائد شہری خلیجی ممالک میں برسر روزگار ہیں- کئی ملین ڈالرز زرمبادلہ ان خلیجی ممالک سے ہندوستان کو حاصل ہوتا ہے- خلیجی ممالک میں مسلمانوں سے زیادہ دیگر برادر ان وطن کی تعداد ہے-

یہ لوگ ان ممالک میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں- عرب ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات خوشگوار رہے ہیں، یاسر عرفات ہندوستان کے بہت قریب رہے ہیں- ہندوستان کو اسرائیل جیسے فسطائی اور دھوکے باز ملک سے سیاسی تعلقات بڑھانے میں سوچ بچار سے کام لینا چاہیے- ہندوستان نے اسرائیل کیلئے اپنی سرزمین سے ایک ایسا سٹیلائٹ چھوڑا ہے جس سے ایران کے بارے میں اسے پل پل کی خبر اور خفیہ جگہوں کی تصاویر فراہم ہوں گی- ہندوستان میں مسلم آبادی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے سخت خلاف ہے-

ہندوستان نے اپنی مسلم آبادی، عرب ممالک اور دیگر مسلمان ملکوں حتی کہ ایران جیسے دوست ملک کے ردعمل کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات بڑھائے ہیں- اس طرح ہندوستان اسرائیل سے تعلقات بڑھا کر مسلمانوں کے جذبات کو ہی ٹھیس نہیں پہنچا رہا بلکہ عالمی سطح پر تمام مسلمان ممالک کے خلاف یہ قدم اٹھایا گیا- لاکھوں ہندوستانی مسلم ممالک میں رہ کر اربوں کھربوں ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کررہے ہیں اور ہندوستان اربوں کھربوں ڈالر کی مسلم ممالک کے ساتھ تجارت کررہا ہے- مسلمان ممالک سے ہندوستان بے شمار فائدے اور مراعات حاصل کررہا ہے- ہندوستان اگر ان سیاسی اور اقتصادی معاملات کو نظر انداز کر کے اسرائیل کے خلاف تعلقات بڑھاتا ہے تو کیا وہ مسلمانوں کی ناراضگی کے بدلے میں یہ سودا کرے گا- ایسے تعلقات کیا مناسب ہوں گے جو مسلمانوں کے خلاف جارہے ہوں اور ملک کی ترقی کے خلاف بھی ہوں- ہندوستان کو دن بدن اسرائیل کے ساتھ جھکاؤ والی خارجہ پالیسی کے بارے میں سوچنا ہوگا-
 
سیاسی نقطہ نظر سے حکومت ہند کے پاس کوئی موزوں جواز نہیں ہے- 2006ء میں ایران نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ایٹمی تجدید اسلحہ این پی ٹی پر مبنی ایک قرارداد کی پرزور حمایت کی تھی، لیکن ہندوستان نے ایٹمی طاقت بن جانے اور ایٹمی اسلحہ سازی کی صلاحیت حاصل کرلینے کے باوجود ابھی تک این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے- اس لیے ہندوستان نے ایران کے اس اقدام کو اپنے خلاف سمجھا مگر اس کے بعد 2007ء میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی اتھارٹی کی میٹنگ میں ہندوستان نے ایران کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد کے حق میں ووٹ بھی دے کر اس کا بدلہ ایران سے لے لیا-
 
اب ایران کی جاسوسی کیلئے دشمن ملک کے سیارے کو خلاف میں چھوڑنا ایک بالکل الگ نوعیت کا معاملہ ہے- جس کو این پی ٹی کی حمایت کے مسئلے سے جوڑنا دانشمندی نہیں- ایران کے سفیر سید مہدی نبی زادہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان جیسے دانشمند اور آزاد ملک کو ایران جیسے دوست ملک کے خلاف جاسوسی کیلئے اپنی خلائی سہولتوں کے استعمال کی اجازت نہیں دینی چاہیے، مگر ہندوستان کے تیور بتارہے ہیں کہ وہ اسرائیل سے دوستی کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے گا- اس نے تمام عرب اور مسلم ممالک کے دشمن اسرائیل سے نہ صرف تعلقات بڑھا لیے ہیں بلکہ امریکہ کے دباؤ میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن معاہدے سے بھی الگ ہوگیا ہے- انصاف کے علمبردار لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صہیونیت کی بنیاد ہی مسلمانوں کے خلاف رکھی گئی ہے- یہودیوں سے دوستی بھلے ذاتی مفاد کیلئے کیجائے اس کے نتائج ہندوستان کے حق میں بھی اچھے نہیں نکلیں گے-

لینک کوتاه:

کپی شد