چهارشنبه 30/آوریل/2025

ہم سب حماس ہیں

پیر 26-جنوری-2009

یہ ایک عجیب اتفاق تھا۔ تین دن کی جدوجہد کے بعد میں مصر کے سرحدی علاقے رفح سے غزہ میں داخل ہوا تو حماس کی بارڈر سیکورٹی اور امیگریشن کے اہلکاروں نے اہلاً و سہلاً فی فلسطین کہتے ہوئے استقبال کیا۔ صرف چند سو گز پیچھے رفاہ میں مصری امیگریشن اور انٹیلی جنس کے کسی اہلکار نے تین دن میں ایک مرتبہ
بھی مسکرا کر بات نہیں کی تھی حالانکہ نہ مصر پر بمباری ہورہی تھی اور نہ ہی مصر کو کسی اسرائیلی حملے کا خطرہ تھا۔ جہاں بمباری ہوئی، جہاں 1300سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ جہاں 41 مساجد شہید کی گئیں اور جہاں اقوام متحدہ کے اسکولوں پر بھی راکٹ برسائے گئے وہاں کے سرحدی محافظوں نے مسکراتے چہروں کے ساتھ صرف تین منٹ میں ہماری امیگریشن مکمل کردی اور خوشگوار اتفاق یہ ہوا کہ جیسے ہی میں نے غزہ کی سرزمین پر قدم رکھا تو عشاء کی اذان شروع ہوگئی۔

موذن کی آواز اتنی خوبصورت اور لطیف تھی کہ چند لمحوں کے لئے میں سب کچھ بھول کر اس آواز میں ڈوب گیا۔ اذان ختم ہوئی تو میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور الجزیرہ کے کیمرہ مین ندال کے ساتھ ایک ویگن میں بیٹھ گیا جو اس بارڈر چیک پوسٹ سے چالیس کلو میٹر دور ہمیں غزہ شہر لے جانے والی تھی۔ ندال قطر سے غزہ پہنچا تھا۔ اس کے والد کا تعلق یروشلم سے تھا لیکن 1967ء میں وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ندال اُردن میں پیدا ہوا اور اب قطر میں رہتا ہے۔ فلسطینی ہونے کے باوجود آج اس نے پہلی دفعہ فلسطینی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ اس کی زبان سے بار بار ماشا اللہ اور الحمدللہ کے الفاظ نکل رہے تھے لیکن جیسے ہی اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی مساجد اور عمارتیں اس کی نظروں کے سامنے سے گزرنے لگیں تو وہ خاموش ہوگیا۔ ہم دونوں ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا، اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے اور اسے سزا کون دے گا؟

امریکی حکومت نے اسرائیل کی طرف سے غزہ پرتین ہفتے کی مسلسل بمباری کی ذمہ داری حماس پر عائد کی اور کہا کہ حماس نے اسرائیل پر راکٹ برسائے تھے اور اسرائیل نے اپنے دفاع کیلئے غزہ پر حملہ کردیا۔ میرے لئے حیرانی کی بات یہ ہے کہ مجھے غزہ میں ایک بھی فلسطینی ایسا نہیں ملا جو حماس کو اپنی تباہی کا ذمہ دار سمجھتا ہو۔ عام فلسطینی پوچھتا ہے کہ اگر اسرائیل نے حماس کو سزا دینی تھی تو پھر اقوام متحدہ کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں اور مساجد پر بم کیوں گرائے گئے؟ 24جنوری کی رات غزہ کے القدس ہوٹل کی لابی میں انڈونیشیا کے ایک فوٹو گرافر احمد نے مجھے بتایا کہ وہ جنوری 2009ء کے پہلے ہفتے میں غزہ آگیا تھا۔
 
اس وقت تک غزہ میں کچھ لوگ حماس پر تنقید کرتے تھے لیکن جب اسرائیل کی بمباری میں شدت آگئی تو فلسطینیوں کو یقین ہوگیا کہ اسرائیل کی لڑائی حماس کے ساتھ نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ احمد نے مجھے یاد دلایا کہ اسرائیل نے 2006ء میں لبنان میں بھی مساجد کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا اور 2009ء میں اسرائیل نے غزہ کی 41 مساجد کو شہید کرکے اپنے خلاف جو نفرت پیدا کی ہے یہ اگلے 41 سال تک کم نہ ہوگی۔

احمد کا خیال تھا کہ امریکا اور اسرائیل مسلمانوں میں جمہوریت کے فروغ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں کیونکہ جمہوریت انسانی سوچ کو وسعت دیتی ہے، قانون اور انصاف کی بالادستی قائم کرتی ہے اور اس بالادستی سے انسانی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ مسلمانوں کو ترقی سے محروم کرنے کے لئے امریکا اور اسرائیل کی کوشش ہوتی ہے کہ یا تو جمہوریت کے نام پر مسلمانوں کو مغرب کی ذہنی غلام کرپٹ لیڈر شپ کے حوالے کردیا جائے یا پھر ان سے جمہوریت کو چھین لیا جائے۔ الفتح سے تعلق رکھنے والے محمود عباس کی حکومت کو غزہ کے فلسطینی ”کنگ آف کرپشن“ کہتے تھے اور اسی لئے 25جنوری 2006ء کو فلسطین میں الیکشن ہوا تو قانون ساز اسمبلی کی 132 میں سے 74 نشستیں حماس نے جیت لیں۔
 
امریکا اور اسرائیل کو حماس کی جمہوری فتح ایک آنکھ نہ بھائی اور فوری طور پر حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے اور مسلح مزاحمت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ہتھیار پھینک دے۔ دوسری طرف امریکا اور اسرائیل نے الفتح اور حماس کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی۔ حماس کو ایک طرف سے امریکا اور اسرائیل کے ناجائز دباؤ کا سامنا تھا اور دوسری طرف الفتح کی بلیک میلنگ کا سامنا تھا اور ان حالات میں جب فلسطین کے نام نہاد صدر محمود عباس نے امریکی دباؤ پر حماس کی منتخب حکومت کو توڑ دیا تو حماس کے اندر شدت پسندوں نے قوت حاصل کرلی اور انہوں نے اسرائیل پر چند دیسی ساخت کے راکٹ مار دیئے۔ ان راکٹوں سے اسرائیل کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ان راکٹوں پر شور مچانے والے بھول جاتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں خود اسرائیل ایک غیرقانونی ریاست ہے۔

1917ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمنی اور ترکی پر فتح حاصل کرنے کے لئے برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اس جنگ میں برطانیہ کی مالی امداد کریں گے تو اس کے عوض برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر ایک نئی یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد دے گا۔ بالفور کے اس وعدے کو ”اعلان بالفور“ کہا جاتا ہے اور اسی اعلان کی روشنی میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کرکے یہاں اسرائیل قائم کردیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1947ء میں قرارداد 181 کو اکثریت کے ساتھ منظور کیا جس میں کہا گیا تھا کہ یروشلم کو انٹرنیشنل کنٹرول میں دیا جائے گا لیکن اسرائیل نے اس قرارداد کو تسلیم نہیں کیا اور یروشلم پر اس کا قبضہ برقرار ہے۔ کشمیر کی طرح فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہونا مسلمانوں میں بے چینی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

مسلمان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہ کریں تو دہشت گرد قرار پاتے ہیں اور اسرائیل و بھارت ان قراردادوں کی دھجیاں اڑا کر بھی امریکا کے منظور نظر ہیں۔ یہ ظلم جاری رہا تو دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے معروف اخبار ”ہارٹیز“ نے 31 دسمبر 2008ء کی اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ پر حملے کا فیصلہ چھ ماہ قبل جون 2008ء میں کرلیا تھا۔ اس حملے کا تعلق حماس کے دیسی ساخت کے کریکر نما راکٹوں سے نہیں بلکہ 2006ء میں لبنان کی جنگ میں اسرائیل کی شکست سے تھا۔ اسرائیل حماس کو ختم کرکے خود کو ناقابل شکست ثابت کرنا چاہتا تھا تا کہ فروری 2009ء کے انتخابات میں حکمران اتحاد کامیابی حاصل کرسکے لیکن اسرائیل ایک دفعہ پھر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ قطر اور موریطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردیئے ہیں۔
 
مغربی ذرائع ابلاغ کے نمائندے غزہ میں ہونے والے ظلم و ستم کو بے نقاب کرکے اسرائیل کیلئے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور فجر کی اذان ہورہی ہے۔ موذن کہہ رہا ہے الصلوٰة خیر من النوم۔ اس خوبصورت آواز میں ایک گہرا عزم و ارادہ محسوس ہوتا ہے۔ غزہ میں آباد 15لاکھ فلسطینی پہلے سے زیادہ متحد ہیں اور پہلے سے زیادہ قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں۔ غزہ کے دو اطراف میں اسرائیل، تیسری طرف سمندر اور چوتھی طرف مصر ہے۔ مجھے اپنے ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی میں سے سمندر میں موجود اسرائیلی بحری کشتیوں کی روشنیاں نظر آرہی ہیں۔ غزہ تین طرف سے دشمن کے گھیرے میں ہے اس کے باوجود فلسطینی بچے گلی کوچوں میں یہ گیت گاتے نظر آتے ہیں کہ ”ہم سب حماس ہیں“۔ کوئی ان بچوں کو بھلے ناسمجھ کہتا رہے لیکن فلسطینی بچوں کا یہ گیت اسرائیل کی ایک اور شکست کا اعلان ہے۔

لینک کوتاه:

کپی شد