جمعه 02/می/2025

گمشدہ قبیلہ

جمعرات 1-جولائی-2010

ایہود آئرین اسرائیل کی ریزرو فورس میں میجر ہیں-اٹارنی جنرل اور  سابق وزیر اعظم ایہود باراک کی خارجہ پالیسی ٹیم میں خدمات انجام دے چکے ہیں-ان کی کتاب ’’دی ایسینس آف لانکنگ:جنرل ایریز گرنسٹین اینڈ دی وار ان لیبینن‘‘ اسرائیل میں 2007ء میں شائع ہوئی تھی- اس وقت وہ ہارورڈ کے کینیڈی اسکول میں ریسرچ فیلو ہیں

میں اسرائیل سے محبت کرتا ہوں مگر غزہ کے ساحل پر اسرائیلی کمانڈوز کے ہاتھوں امدادی جہازوں کے قافلے پر حملے اور انسانی حقوق کے 9 کارکنوں کی شہادت نے ثابت کر دیا ہے کہ میں اس ملک کے ان لوگوں میں سے بھی ہوں جو اس کی سمت کے درست نہ ہونے کے حوالے سے پریشان ہیں- 

 فلسطینیوں سے تنازع ہمیں اخلاقی اقدار ہی سے دور نہیں کر رہا، بلکہ بے حس بھی کرتا جا رہا ہے- حالات و واقعات کی ساخت بالکل واضح ہے- کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگ مارے جا رہے ہیں اور ہمیں اس کی کم سے کم پروا ہے-2008ء کے اواخراور 2009ء کے اوائل میں غزہ میں جو کچھ ہوا اس میں فلسطینیوں کی شہادتوں کی تعداد کو 1100کے عدد تک پہنچنے میں صرف 22دن لگے- 1949ء کے بعد فلسطینیوں اور
اسرائیلیوں کے درمیان سب سے خوں ریز تصادم انتفاضہ کی تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا تھا- 1987ء سے1993ء کے دوران اس تحریک میں اتنے ہی فلسطینی مارے گئے تھے جتنے غزہ میں صرف 22 دن میں مارے گئے تھے-

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل سخت تر ہوتے گئے ہیں- پہلی انتفاضہ تحریک کے بعد اسرائیل کی ملٹری پولیس نے اندرونی سطح پر تحقیقات کیں تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کتنی ہلاکتیں فورسز کے ہاتھوں ہوئیں- اب ایک عشرے کے دوران ایسی تحقیقات محض خانہ پری کے لیے کی گئی ہیں- اور امدادی قافلے پر حالیہ حملے سے متعلق کسی بھی قسم کی تحقیقات کا کوئی امکان نہیں-

اس وقت اسرائیلیوں کے دلوں میں دوسروں کے لئے ہمدردی کے جزبہ کا تقریبا مکمل فقدان ہمیشہ سے نہیں تھا1923ء میں اسرائیل کے سخت گیر احیاء پسند عناصر کے سرخیل زئیف جیبوٹنسکی نے صہیونیت کے خلاف عرب دنیا کی مزاحمت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا تھا’’ہر مقامی آبادی کی طرح عرب بھی اس علاقے کو اپنا گھر قرار دیتے ہیں اور صہیونیت کے خلاف ان کی مزاحمت فطری امر ہے-‘‘ 63 سال بعد اسرائیل کے وزیر اعظم ایہود بارک نے اسی بات کو یوں بیان کیا’’اگر میں بھی فلسطینیوں میں پیدا ہوا ہوتا تو کسی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہو کر اسرائیل کے خلاف کھڑا ہوتا-‘‘ مگر آج ایہود باراک سمیت کوئی بھی اسرائیلی لیڈر فلسطینیوں کی مشکلات کے بارے میں اس نوعیت کی تفہیم کا مظاہرہ یا اعتراف نہیں کر سکتا-

دلوں میں پیدا ہو جانے والی یہ سختی کچھ ہمارے سیاسی رہنماوں تک محدود نہیں- وہ بہرحال عوامی جذبات کے عکاس ہی ہوتے ہیں- ستمبر 1982ء میں جب لبنان کے صابرہ اور شتیلا کیمپوں میں عیسائی ملیشیا کے کارکنوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کا اندھا دھند قتل عام کیا تھا تب اسرائیل نے 10فیصد آبادی نے دارالحکومت تل ابیب کی سڑکوں پہ آکر ان واقعات میں اسرائیل کی بالواسطہ ذمہ داری کے حوالے سے احتجاج کیا تھا- 2 سال بعد غزہ میں جب اسرائیلی فوج کی کارروائی میں 1100 فلسطینی شہید ہو گئے تو بہت ہی کم تعداد میں اسرائیلیوں نے احتجاج کیا-

مجھے خوف ہے کہ یہ محض اخلاقی بے حسی نہیں- ڈین ایچیسن نے کہا تھا کہ غیر اخلاقی پالیسی سے بھی بری چیز ہوتی ہے اور وہ ہے خامیوں سے عبارت پالیسی – ہمارے قائدین کی وسائل اور اہداف میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی اہلیت سے محرومی نے ملک کے وجود ہی کو داو پر لگا دیا ہے-

ہمارا المیہ یہ ہے کہ130سال قبل شروع ہونے والی صہیونیت کی تحریک کے تحت اپنے لئے محفوظ وطن کے قیام کی خاطر فلسطین ہجرت شروع کرنے کے بعد سے اب تک ہم اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے صرف طاقت پر منحصر رہے ہیں- المیہ یہ ہے کہ 1945ء کے بعد سب سے زیادہ یہودی اسی محفوظ جنت میں مارے گئے ہیں- اگر اسرائیل کی حکومت ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے سلسلے میں عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی تو صہیونی ناکامی کا گراف مزید گر جائے گا-

غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے بھیجے جانے کے لیے امدادی جہازوں پر فائرنگ جیسے واقعات سے صورت حال مزید خراب ہو گی اور مزاحمت کی نئی راہیں کھلیں گی- جس ناکہ بندی نے امدادی جہاز بھیجے جانے کی راہ ہموار کی وہ سراسر غیر انسانی اقدام ہے- سیکورٹی کی وجوہ کو بنیاد بنا کر بھی اس کا جواب مشکل ہی سے پیش کیا جا سکتا ہے- یہ ناکہ بندی انہی لوگوں کے خلاف جن کے وجود ہی سے، ارد گرد کے کروڑوں عرب باشندوں کی نظر میں ، ہمارا ریاستی وجود باجواز ثابت ہوتا ہے-
 
ترک باشندوں کی شہادت نے اسرائیل سے ترکی کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے- ترکی واحد ملک ہے جس نے اسرائیل سے بامقصد تعلقات قائم کرنے کے لیے فلسطینیوں کی رضامندی حاصل کرنے کا انتظار بھی نہیں کیا تھا- اسرائیل نے جو کچھ غزہ کے ساحل پر کیا ہے اس نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سخت پابندیوں کے نفاذ کاعمل سست کر دیا ہے- ہمارا دورجدید کا اسپارٹا کب تک تلوار کے بل پر جی سکتا ہے، جبکہ تلوار نئی مشکلات پیدا کرتی جا رہی ہو!

غزہ آپریشن اور اسی نوعیت کے دیگر تضادات سے جذبات پر پڑنے والا بوجھ بہتوں کے لیے مشترکہ معاملہ ہے-’’مجھ سمیت بہت سے اسرائیلی اس ملک سے پیار کرتے ہیں،اس کی کامیابی پر انہیں فخر ہے اور وہ اس کی حدود میں زندہ رہنا چاہتے ہیں- ہم میں سے بہت سے ہیں جو اس ملک کے دفاع کے لیے اپنی جان جو کھم میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کریں گے-‘‘ یہ الفاظ اسرائیلی فضائیہ کے سابق کمانڈنگ آفیسر میجر جنرل(ر)ایموس لیپیڈٹ کے ہیں- 19اپریل کو انہوں نے اسرائیلی اخبار’’ہارٹز‘‘میں مزید لکھا-’’چند برسوں کے دوران یہ احساس تیزی سے پروان چڑھا ہے کہ کیا ہم اسرائیل کا مزید دفاع کر سکتے ہیں، کیا اس ریاست کے مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟‘‘بہت سے دوسرے لوگ قبائلی وفاداری اور انصاف کے عالمگیر تصور کے درمیان کھنچاو محسوس کرتے ہیں-
 
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن یوڈی الونی نے یکم جون کو آن لائن جریدےYENT میں لکھا’’میں امداد لے جانے والے ایک جہاز پر تقریبا سوار ہو ہی گیا تھا مگر آخری لمحات میں فیصلہ بدل کر میں الگ ہو گیا- میں اس فوج سے کیسے ٹکرا سکتا تھا جس میں 30سال قبل میں خود بھی بھرتی ہوا تھا اور خدمات انجام دی تھیں-‘‘

میری بھی چند وفاداریاں ہیں- عہد شباب کے آغاز کے حوالے سے میری چند خوشگوار یادیں مسٹر ایچ سے وابستہ ہیں جو اب اسپیشل فورسز کے سربراہ ہیں- ہم نے چونکہ ساتھ وقت گزارا ہے اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کپڑے کے ایک ہی ٹکڑے سے کاٹا گیا تھا- ان کا یونٹ غزہ میں تعینات کیا گیا تھا تاہم مجھے یقین ہے کہ وہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث نہیں تھا- ہاں، انسانی حقوق کے گروپوں نے اسی عشرے کے دوران ان پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کا الزام بھی عائد کیا- میرے لیے یہ سوہان روح ہے-

ذہنی الجھن سے بچنے کے لیے اب میں نے بزدلی کا راستہ منتخب کیا ہے – دل اور دماغ کے درمیان کشمکش سے بچنے کے لیے میں اب تمام معاملات کو بیرونی پس منظر کے تحت پر کھتا ہوں- اب میں جو سوچ اختیار کرنے والا ہوں وہ خالص ذاتی نوعیت کی ہے- اب ہمیں فلسطینی مسئلے کے حوالے سے تزویراتی حساب کتاب ختم کر کے خالص انسانی نقطہ نظر کو اپنا نا چاہیے- اسرائیل میں میرے دوست یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ میں اب مشرق وسطی کے مسئلے کو طاقت اور جبر کے ذریعے حل کرنے کی تسلیم شدہ سوچ کے بجائے سادہ لوحی کا مظاہرہ کر رہا ہوں- مگر میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سوچ سادہ لوحی پر مبنی ہے- سچ تو یہ ہے کہ اب یہی ایک طریقہ اس مسئلے کو حل کرنے کا رہ گیا ہے-

بشکریہ پندرہ روزہ معارف فیچر

لینک کوتاه:

کپی شد