مستقبل کی اسرائیلی ریاست کے نقشے کے مطابق یہودیوں کا موقف یہ ہے کہ اس میں عراق کے علاوہ خاکم بدہن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو بھی شامل کیاجائے گا کیونکہ جس سرزمین میں ان کے بزرگوں کی ہڈیاں دفن ہیں وہ اسے دوسروں کی تحویل میں نہیں رہنے دیں گی چنانچہ اپنے عزائم کی تکمیل اور گریٹر اسرائیل کے قیام کے منصوبے کے تحت غزہ کو محصور کرنے اور بقیہ علاقوں سے فلسطینیوں کا رابطہ منقطع کرنے کے لئے ایک دیوار تعمیر کی گئی اسرائیلی سپریم کورٹ نے اس دیوار کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا لیکن اسکے باوجود اس دیوار کی تعمیر مکمل کر لی گئی اور غزہ کی پٹی اور یہاں آباد فلسطینیوں کو محصور کر دیا گیا۔
جہاں تک حماس حکومت کے قیام کا تعلق ہے عام انتخابات میں الفتح کے مقابلے میں اس کی زبردست کامیابی فلسطینی عوام کی بھاری اکثریت کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتی ہے اور ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام اس کے منشور کا جزو لاینفک ہے وہ کسی مصالحت و مفاہمت کی بنیاد پر ایک بلدیاتی ادارے کی طرح برائے نام فلسطینی ریاست کا قیام اسے ہرگز منظور نہیں۔ ادھر حالت یہ ہے کہ اس نام نہاد ریاست کے بانی یاسر عرفات کو ایک سازش کے تحت ہلاک کرنے کے علاوہ اس کی برائے نام تنصیبات، ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشن، انتظامی دفاتر تک کو اسرائیل تباہ کر چکا ہے۔
حماس کی کامیابی پر امریکہ نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے اسرائیل کے لئے ایک سنگین خطرہ قرار دیا اور اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ کا یہ رویہ حماس کی حکومت کے متعلق اسرائیل کے لئے ایک رہنما اصول کا درجہ رکھتا ہے اور وہ اس پر سختی سے قائم ہے۔ فلسطینی عوام پر اسرائیل کے ظلم و تشدد میں ہر لمحہ تیزی آرہی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انہیں ترک سکونت پر مجبور کیا جائے چنانچہ مصری حکومت کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق چالیس ہزار کے لگ بھگ فلسطینی مصر میں پناہ حاصل کرچکے ہیں مصر نے اس بوجھ سے بچنے کے لئے غزہ کی پٹی سے ملحقہ سرحدوں کی نگرانی سخت کر دی ہے۔
اسرائیل نے بیت المقدس کو شہیدکرنے اور اسلام اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو منہدم کرنے کے لئے بہت عرصہ پہلے منظم کوششوں کا آغاز کر دیا تھا چنانچہ دو تین مرتبہ مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے نواح میں ایسی تعمیرات کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد قبلہ اول کو حصار میں لے کر اس کے مختلف حصوں کو تعمیراتی ضروریات کی آڑ میں گرانا تھا چنانچہ اس کی بعض بیرونی دیواروں کی شکست و ریخت کا عمل آج بھی جاری ہے۔ اسرائیل دنیا بھر سے یہودیوں کو گریٹر اسرائیل میں لانے اور آباد کرنے کے منصوبے پر تیزی کے ساتھ عمل پیرا ہے چنانچہ حال ہی میں القدس میں چالیس ہزار مکانات کی تعمیر کے ایک ایسے منصوبے کی منظوری دی گئی ہے جو نہ صرف عرب ممالک بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے دعوت فکر و عمل ہے۔
اس منصوبے کا مقصد اسرائیل کو ایک مکمل یہودی ریاست میں تبدیل کرنا، فلسطینیوں کا اخراج اور حماس حکومت کا خاتمہ ہے۔ حماس کی طاقت، قوت اور اتحادو یکجہتی کا شیرازہ منتشر کرنے کے لئے اسرائیل نے ایک فیصلہ کن حملے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ اس کے لئے اسے امریکہ کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ امریکی صدر بش اور وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کا حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ حماس کی قیادت پہلے دن ہی سے صدر بش اور کونڈا لیزا رائس کی پالیسی کی شدید مخالفت کرتی رہی ہے۔
اسرائیل کے ذمہ دار حلقوں کا کہنا ہے کہ چالیس ہزار مکانات کی تعمیر کے بعد غرب اردن تک تعمیرات کا یہ دائرہ وسیع کیا جائے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو مستقل رہائش کی سہولت فراہم کی جا سکے ، اسرائیل کے لئے ان کی دوسرے ممالک سے ترک سکونت کو پرکشش بنایا جا سکے اور ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس سے قبل بھی اسرائیلی حکومت نے آٹھ ہزار سے زائد مکانات کی تعمیر کی منظوری دی تھی جس پر کام جاری ہے۔
ان منصوبوں کے ساتھ ہی اسرائیلی قیادت نے کھل کر اپنے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا حالانکہ خود اسرائیلی فوج کے مظالم فلسطینی عوام کو ردعمل پر مجبور کر رہے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ نوجوان فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں اور مسجد میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کا انہدام اسرائیل کے منشور کا حصہ ہے حالیہ اقداما ت کے بعد اسرائیلی حکومت تسلسل کے ساتھ اس موقف کا اعادہ کر رہی ہے کہ اسرائیل کو بہرطور حماس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا ہوگا۔
اس پس منظر میں حال ہی میں مکہ معظمہ میں تین روزہ عالمی اسلامی کانفرنس کا انعقاد اور پچاس سے زائد مسلمان ممالک کے جید علمائے کرام اور دانشوروں کی کانفرنس میں شرکت اور سعودی عرب کے حکمران شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کا شرکاء سے خطاب اس لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ثابت ہوسکتا ہے جو عالم اسلام کو درپیش مسائل اور اس کے خلاف عالم کفر کے اتحاد اور سازشوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمان ممالک اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کے رشتوں کو مضبوط تر بنانے سے اپنے فروعی اختلافات ختم کرنے اور دشمن کے مقابلے میں اپنی افرادی قوت اور وسائل کو یکجا کرنے کی دعوت دیتا ہے اگرچہ اس کانفرنس کا موضوع تہذیبوں کے درمیان تصادم کی بجائے بین المذاہب مکالمے کی ضرورت اور اہمیت واضح کرنا تھا اور دنیا بھر کے مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور دانشوروں کی شرکت نے اس کی اہمیت میں ہی اضافہ نہیں کیا بلکہ معروضی حالات اور زمینی حقائق کے پیش نظر یہ کانفرنس پوری امت مسلمہ کے لئے دعوت فکر و عمل کا درجہ رکھتی ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ عالم کفر نے بالخصوص امریکہ اسرائیل اور بھارت کے اشتراک سے مسلمانوں کو دہشت گرد اور اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب قرار دینے کی سازش امت مسلمہ کا شیرازہ منتشر کرنے اور اسے ہدف بنانے، اس کے وسائل پر قبضہ کرکے اسے اقتصادی اور سیاسی غلامی کے شکنجے میں کس کر کفر کے غلبے کی راہ ہموار کرنا ہے اور اس کا واحد مقصد اسلام اور مسلمانوں کو مٹانا ہے۔اس کانفرنس میں ایران کے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی نے ایرانی وفد کے قائد کی حیثیت سے شرکت کی، اس سے پہلے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا تھا کچھ عرصہ قبل شاہ عبد اللہ اور بعض دوسرے سعودی قائدین بھی ایران کا دورہ کر چکے تھے، دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار دوستانہ تعلقات کا فروغ ایک خوش آئند اور امید افزاء امر ہے جس سے مسلمان ممالک کے درمیان اتحادو یکجہتی کے رشتوں کو مضبوط بنانے اور فروعی اختلافات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
اگر امت مسلمہ اپنے خلاف عالم کفر کی سازشوں کا صحیح ادراک رکھتی ہے اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کی سازش کی آڑ میں دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانا چاہتی ہے تو پھر اسے نہ صرف اسلام اورمسلمانوں کے خلاف الزام تراشیوں کا مسکت جواب دینا ہوگا بلکہ انہیں ناکام بنانے کیلئے اپنی آزادی ، سلامتی اور بقاء کے لئے اپنی طاقت میں بھی اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ عالم کفر نے امت مسلمہ کے خلاف اپنے عزائم کے محور و مرکز طاقت اور قوت کے استعمال ہی کو قرار دے رکھا ہے اور مقبوضہ کشمیر، فلسطین، عراق افغانستان، چیچنیا میں اس کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان حالات و واقعات کا تقاضا یہ ہے کہ امت مسلمہ کے نمائندہ اجتماعات کا اہتمام کیا جائے تاکہ مغرب کے بقائے باہمی کے فلسفہ کی آڑ میں اسلام دشمن عزائم کی تار پود کو بکھیرا جا سکے، یکطرفہ مصلحت اور نرم رویہ ہمیں دشمن کا تر نوالہ تو بنا سکتا ہے ہماری بقاء اور سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔