اسرائیلی رہنما اکثر کہتے ہیں کہ ان کا ملک ’ایک مشکل محلے‘ میں پھنسا ہوا ہے لیکن حال ہی میں عرب دنیا کے کچھ ممالک سے اسرائیل کے تعلقات میں ایک نئی گرمجوشی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
اکتوبر کے آخری دنوں میں اچانک ہی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اپنی اہلیہ کے ہمراہ عمان کے سلطان سے ملنے پہنچ گئے۔ یہ گذشتہ دو عشروں سے زیادہ عرصے میں اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔
سلطان کے ہاں نہایت پرتکلف دعوت اور روایتی عمانی موسیقی سے تواضع کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ سلطان سے ان کی ’بات چیت بہت اچھی‘ رہی اور یہ وعدہ بھی ہوا ہے کہ آئندہ ایسی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔
یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی، کیونکہ جب اسرائیلی وزیر اعظم اپنی کابینہ کو یہ نوید دے رہے تھے، تو اس وقت کھیلوں اور ثقافت کی اسرائیلی وزیر میری رجا متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں موجود تھیں جہاں وہ جوڈو کے بین الاقوامی مقابلے دیکھ رہی تھیں۔
جب ایک اسرائیلی کھلاڑی نے طلائی تمغہ جیتا اور اسرائیل کے قومی ترانے کی دھن بجائی گئی تو میری رجا جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور رو پڑیں۔ جزیرہ نما عرب کی سرزمین پر یہ منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
اور اس کے بعد ہم نے ایک اور اسرائیلی افسر کو دبئی میں کھڑے ہو کر ’امن اور سکیورٹی‘ کی بات کرتے بھی دیکھا۔ خلیجی ریاستوں کے ساتھ اسرائیلی روابط کا یہ سلسلہ جاری ہے اور اِس وقت اسرائیل کے وزیرِ ٹرانسپورٹ عمان کے صدر مقام مسقط میں ہیں جہاں وہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ریلوے لائن بچھانے کی بات کر رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا جب سرکاری سطح پر عمان یا متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہی نہیں۔
’ایران کو قابو میں رکھنا‘
دیگر عرب دنیا کی طرح، خلیجی ریاستیں بھی 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قائم کیے جانے کے بعد سے اسرائیل سے دور ہی رہی ہیں۔
سابق اسرائیلی سفارتکار دورے گولڈ کے بقول حالیہ ملاقاتیں ’بہت ہی اہم ہیں کیونکہ ان ملاقاتوں سے ہی برف پگھل رہی ہے۔ تعلقات میں بہتری کی ’کنجی اس قسم کی علامتی چیزوں میں ہی ہے۔‘
دورے گولڈ کہتے ہیں کہ ’خلیجی عربوں اور اسرائیلی حکام کے درمیان ملاقاتیں کئی برسوں سے ہو رہی ہیں، دونوں فریق ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن اگلا قدم اٹھانے میں ایک ہچکچاہٹ تھی۔ اب صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔‘
اس جھجھک کے ختم ہونے کی بڑی وجہ ایران کے بارے میں خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مشترکہ خدشات ہیں۔ اکثر خلیجی ریاستوں کی طرح اسرائیل کو بھی ایران کے عزائم پر پریشانی ہے اور وہ ایران کو ایسی طاقت سمجھتا ہے جو مشرقِ وسطیٰ کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔
شام اور عراق کے اندر تنازعات میں ایران براہ راست ملوث رہا ہے،جـبکہ وہ یمن میں لڑنے والے باغیوں، لبنان میں حزب اللہ اور ’فلسطینی اسلامی جہاد` نامی تنظیم کی بھی مدد کر رہا ہے۔
ایران کے اثر و رسوخ پر قابو رکھنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ بھی خلیج میں امریکی اتحادیوں اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کی زبردست حامی ہے۔
فکرمند اور محتاط فلسطینی
خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں، نئے اتحادوں اور صدر ٹرمپ کے اس وعدے کے بعد کہ وہ اسرائیل عرب تنازعے کو ختم کرنے کے لیے اس ’صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘ کرانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، فلسطینیوں کی فکرمندی میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔
فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اُن پر دباؤ بڑھانے کے لیے سعوی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقائی ریاستوں کی جانب دیکھ رہی اور یہ امریکی انتظامیہ فلسطینیوں کو ایک ایسے امن معاہدے پر مجبوراً رضامند کرانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے ان کے دیرینہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔
تنظیمِ آزادئ فلسطین (پی ایل او) کی سینیئر اہلکار حنان عشراوی کہتی ہیں کہ ’اسرائیل کو خطے میں اس طرح ایک معمول کا ملک بنانے کی کوشش، جس میں اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لاتا اور ایک قابض طاقت بنا رہتا ہے، اپنے مقاصد کے خلاف جائے گی اور یہ خطرناک بھی ہے۔‘
حنان عشراوی کے خیال میں حالیہ عرصے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے اُس امن معاہدے (عرب پیس انیشئیٹِو) کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس پر عرب لیگ کے بائیس ارکان نے سنہ دو ہزار دو میں دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کے مطابق اسرائیل کو صرف اس صورت میں عرب ممالک کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات پر اتفاق ہوا تھا جب وہ ان عرب علاقوں سے مکمل انخلا کرے جو اس نے 1967 کی جنگ میں چھین کر اپنے زیر قبضہ کر لیے تھے۔
فی الحال صرف مصر اور اردن ہی وہ عرب ممالک ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کا عمل بہت پہلے رک چکا ہے لیکن گزشتہ سال اسے ایک اور دھچکا لگا۔
وہ فلسطینی عوام جو مقبوضہ بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانے چاہتے ہیں انھوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے اسے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے اقدام کو مسترد کر دیا۔
انھوں نے یہ کہہ کر واشنگٹن سے اپنے تعلقات ختم کر لیے کہ یہ قدم تصفیہ کرانے والے کسی منصف کا نہیں ہو سکتا۔
لیکن اس کے باوجود مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے ایلچی جیسن گرین بلاٹ اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم کے عمان کے دورے کے حوالے سے پرجوش بھی ہیں۔
اپنی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدم ہماری امن کی کوششوں کے لیے نہ صرف مدد گار ہے بلکہ اسرائیل، فلسطین اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان استحکام اور خوشحالی کی فضا قائم کرنے کے لیے ضروری بھی ہے۔‘
عرب گلی کوچے
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امن مذاکرات کی بحالی میں سعودی عرب کو جو کردار دیا گیا تھا وہ سعودی صحافی جمالی خاشقجی کے قتل کے بعد شکوک کا شکار ہو گیا ہے۔ تاہم جمعہ کو اسرائیلی وزیر اعظم نے جو غیر معمولی بیان دیا اس سے لگتا ہے کہ وہ طاقتور ولی عہد محمد بن سلمان کی مدد کریں گے۔
خاشقجی کا قتل اور مشرق وسطی کی سیاست
اس بیان میں بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگرچہ خاشقجی کی ہلاکت ایک ’ہولناک” خبر تھی لیکن اس سے سعودی عرب کے اندر عدم استحکام پیدا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل اور بڑا مسئلہ ایران ہے۔
بحرین نے اسرائیل کی جانب سے اس ’واضح موقف‘ کو اسی طرح سراہا ہے جیسا اس نے گذشتہ دنوں عمان کو اسرائیلی وزیر اعظم کی آمد پر سراہا تھا۔
حالیہ دنوں میں کیے جانے والے تمام اقدامات پر نہ صرف اسرائیلی عوام خوش ہیں بلکہ مسٹر نتن یاہو کے سیاسی مخالفین بھی خلیجی ریاستوں میں ان کی پیشرفت کی تعریف کر رہے ہیں۔
لیکن عرب عوام کے امن معاہدے کے بغیر دل جیتنا بہت مشکل ہو گا جن کے لیے مسئلہ فلسطین ایک جذباتی معاملہ ہے۔
اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ عرب ممالک جلد ہی اسرائیل کو پوری طرح گلے لگا لیں گے، اس لیے فی الحال ہمیں دونوں فریقوں کے درمیان ایسے دعوت ناموں اور پرجوش انداز میں ہاتھ ملانے کے مناظر کو ہی کافی سمجھنا پڑے گا جن کے بارے میں ہم کل تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔