ٹارگٹ کلنگ کی پالیسی معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بن سکتی ہے
مشرق وسطی میں مسلمانوں اور یہودیوں کی کشمکش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ اسرائیل کی تاریخ- اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ہر دور میں اپنے پڑوسی ممالک اور مخالف تنظیموں سے الجھتا رہا ہے – اس نے کبھی شام سے پنجہ آزمائی کی تو کبھی لبنان کے خلاف اپنی سپاہ کو صف آراکیا- کبھی معرکہ حماس سے برپا ہوا تو کبھی حزب اللہ پر زور آزمائی کی گئی- باہمی چپقلش اورنبرد آزمائی کا یہ سلسلہ اب بھی تھمنے میں نہیں آرہا اوراس خونی طوفان کے تھمنے کے امکانات بھی معدوم ہیں-
لبنانی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے آپریشنل کمانڈر عماد فائز مغنیہ کی مبینہ شہادت اسرائیلی ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کی تازہ مثال قرار دی جا سکتی ہے – مغینہ کی شہادت کے بعدخطے کی سیاست اور امن و امان میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں- ایک قیاس یہ بھی ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل ایک بار پھر طاقت آزمائی کا مظاہرہ کرنے جارہے ہیں-اسرائیل ماضی میں بھی حزب اللہ اور حماس کے لیڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کرتا رہا ہے جس کا وہ اعتراف بھی کر چکا ہے، لیکن مغنیہ کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کررہا ہے- دوسری جانب حزب اللہ، شام، ایران اور حماس حملے کی ذمہ داری اسرائیل پر ڈال رہے ہیں-شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے کہا کہ ان کے پاس حزب اللہ راہنما کی شہادت کے حوالے سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد اور امریکی سی آئی اے کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، وہ جلد تمام حقائق منظر عام پر لائیں گے- مغینہ کی شہادت کے پیچھے ان ہی قوتوں کا ہاتھ ہے جو گذشتہ پانچ دھائیوں سے خطے کا امن تاراج کیے ہوئے ہیں-
پروس رائیڈل امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ کے علاوہ صدر کلنٹن اور موجودہ صدر جارج بش کے ادوار میں قومی سلامتی کے مشیر رہ چکے ہیں بھی شیعہ راہنما کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا عندیہ دیتے ہیں- اسرائیلی اخبار ’’یدیعوت احرونوت‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گوکہ اسرائیل نے حزب اللہ لیڈر کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا، لیکن زمینی حقائق اور ماضی میں اسرائیل حزب اللہ کشمکش کو مد نظر رکھتے ہوئے قتل کی ذمہ داری کسی دوسرے ملک پر ڈالنا ناانصافی ہو گی- امریکہ کو مطلوب ہونے کی وجہ سے اگر چہ مغنیہ نے خود کو زیر زمین چھپا لیا تھا تاہم امریکی اور اسرائیلی خفیہ ادارے مل کر اس کا کھوج لگانے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں-
اسرائیل میں محکمہ سراغ رسانی سے متعلقہ امور کے ماہر یوسی میلمان نے جرمنی کے ایک خبر رساں ادارے ’’شبیگل آن لائن‘‘ سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ موساد کے ہاتھوں حزب اللہ لیڈر کے قتل کی کامیاب کوشش سے اسرائیلی عوام میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے- انہوں نے اسرائیلی حکومت کے موقف کو جنگ و جدل سے بچنے کی حکمت عملی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل نے لبنانی لیڈر کے قتل کا اعتراف نہ کر کے دانشمندی کا ثبوت دیا –
حزب اللہ لیڈر کے قتل کے کئی اسباب بتائے جارہے ہیں- ایک خیال یہ ہے کہ چونکہ امریکہ اور اسرائیل ایک عرصے سے مل کر انتہائی اہم ہدف کے حصول کی کوشش میں تھے-سو خفیہ اداروں نے اپنا دیرنہ مقصدپورا کر لیا- ایک دوسرا نقطہ نظرامریکی وینوگراڈ رپورٹ کو بھی قراردیا جارہا ہے- تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یکم فروری 2008 ء کو امریکی عسکری امور کے ماہر وینو گراڈ نے اپنے پانچ معاونین سے مل کر 2006 ء کی لبنان جنگ میں اسرائیلی خامیوں کی چشم کشا رپورٹ جاری کی- اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے اسرائیل کو اندرونی اور بیرونی سطح پر سخت سبکی کا سامنا کرنا پڑا-سابق فوجی افسروں اور سیاست دانوں نے ایہود اولمرٹ کی حکومت کو تنقیدکانشانہ بناتے ہوئے ان سے استعفی طلب کیا – رپورٹ کے مطابق محض دو فوجیوں کی رہائی کے لیے شرع کی گئی یہ جنگ اسرائیل نے نہ صرف حزب اللہ سے ہاردی ،بلکہ ایک فیصد مقاصد بھی حاصل نہ کیے جا سکے- اس روپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اسرائیلی حکام نے حزب اللہ سے اس سبکی کا بدلہ لینے کے بھی دعوے شروع کر دیے تھے-اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وینوگراڈ رپورٹ نے ہمیں حزب اللہ کے حوالے سے ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبورکیاہے-حزب اللہ نے صہیونی وزیر دفاع کے اس بیان کو اپنے خلاف کھلی دھمکی قرار دیا- لبنان اور شام کے ذرائع ابلاغ وینوگراڈہی کوعماد مغنیہ کا سبب قرار دے رہے ہیں-
یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ عماد کے قتل کے بعدکیا لبنان کی سرزمین ایک بار پھر میدان جنگ بننے والی ہے- حزب اللہ کی طرف سے ایک سے زیادہ مرتبہ اسرائیل کو چیلنج کیاجاچکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہیں- حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصرا للہ کے اس بیان کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے جس میں انہوں نے کہا کہ عماد کا خون اسرائیل کے خاتمے کا نقطہ آغاز ہے، اب کی بار اسرائیل سے ہونے والا معرکہ فیصلہ کن ہو گا- اسرائیل سے ہماری جنگ کسی بھی جغرافیائی قید سے آزاد ہے اوراب ہم اسرائیلی مفادات کو ہر جگہ پر نشانہ بنائیں گے- حسن نصرا للہ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے ہزاروں خودکش بمبار موجود ہیں جو عماد کا بدلہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں- انہوں نے لبنانی خطباء اور آئمہ مساجد سے کہا کہ وہ اپنے خطبات میں لوگوں کو اسرائیل کے خلاف ایک نئی جنگ کی تیاری کے لیے تیار کریں-
حزب اللہ اپنے لیڈر کی انتقامی کارروائی میں اسرائیل سے باہر اس کے مفادات پر حملے کرسکتی ہے- حال ہی میں ایک عرب خبر رساں ادارے’’فلسطین انفارمیشن سینٹر‘‘ نے انٹر نیٹ پر عوامی سروے کیا ہے ، سروے 75 فیصد رائے دہند گان کا خیال ہے کہ حزب اللہ اسرائیل سے باہر اس کے مفادات کو نشانہ بناسکتی ہے-
دوسری جانب اسرائیل میں فضاء کسی حد تک پرسکون دکھائی دے رہی ہے، تادم تحریر اسرائیل کی جانب سے سرکاری طور پر ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا جسے بنیاد بنا کر یہ کہا جا سکے کہ اسرائیل حزب اللہ کے خلاف کوئی نئی جنگ کی تیار ی کر رہا ہے- تاہم اسرائیل نے اندرون اور بیرون ملک اپنی اہم تنصیبات پرغیر معینہ مدت کے لیے سکیورٹی سخت کردی ہے- اس ضمن میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ الگ کہانی کہتے دکھائی دیتے ہیں- پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹوں اور خبروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اندر خانہ حزب اللہ کے خلاف کسی بھی جارحانہ کارروائی کی تیاری کر رہاہے، تاحال اسے خفیہ رکھا جارہا ہے- عبرانی اخبار’’معاریف ‘‘ کے حالیہ اداریے میں کہاگیا ہے کہ ہو نہ ہو حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان معرکہ آرائی ناگزیر ہے، یہ معرکہ جس کا کوئی وقت متعین نہیں کسی بھی وقت شروع ہو کر کہیں بھی ختم ہو سکتا ہے- اس دوسطری تبصرے کے علاوہ دیگر اخبارات بھی حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشید گی کا تاثر دے رہے ہیں- اسرائیلی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے اپنے اداریے میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ محاذ آرائی کے تناظر میں لکھا کہ ماضی میں جب بھی کسی ایک طرف سے کشیدگی کی فضاء پیدا ہوئی تو وہ یقینا کسی جنگ پر ہی جا کر ختم ہوئی، لہذا یہ کہنا کہ اسرائیل اور حزب اللہ ایک نئی لڑائی شروع کرنے والے ہیں کوئی انوکھی بات نہ ہو گی-اسی طرح کا تبصرہ یہودی عسکری تجزیہ کار یوسی میلمان نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا،انہوں نے کہا کہ حزب اللہ لیڈر کا قتل اور ردعمل کے طور پر اسرائیل کو اس کا ذمہ دار قرار دینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کی جانب سے ایک نئی جنگ کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے-
غیر جانب دار ماہرین بھی حزب اللہ لیڈر کے قتل کو مشرق وسطی میں کسی نئی جنگ کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں- یورپی یونین کی جانب سے اگرچہ کوئی جانبدارانہ موقف سامنے نہیں آیا، تاہم بعض یورپی حلقوں خصوصاروس نے حزب اللہ راہنما کے قتل کو نا پسندیدہ کارروائی قرار دیا- سرکاری سطح پر جاری ایک بیان میں کہاگیا کہ قتل عام کی سیاست سے خطے میں قیام امن کی صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے- اسرائیل پہلے فلسطینیوں پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ لبنان پر حملہ کیا گیا تونتیجہ انسانی جانوکے ضیاع کی صورت میں سامنے آئے گا –
اگر حزب اللہ اور اسرائیل باہمی محاذ آرائی پر اتر آتے ہیں تو اس محاذ آرائی کا نتیجہ کس کے حق میں جائے گا- اس حوالے سے شام کے ایک ماہر امور جنگ سلیمان مصطفی نے ’’الانہار‘‘ اخبار میں لکھے گئے اپنے ایک حالیہ مضمون میں تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں اسرائیل حزب اللہ کے خلاف بھاری ہتھیار استعمال کرے گا- امریکی وینو گراڈ رپورٹ نے اسرائیلی حکام اور فو ج کو اپنی رپورٹ میں نئی جنگی چالوں سے آگاہ کردیا ہے، البتہ حزب اللہ کی جنگجویانہ مہارت آسانی سے اسرائیل سے شکست قبول کرنے والی نہیں- نتیجہ کچھ بھی ہو یہ بات ظاہر ہے کہ حز ب اللہ اور حماس جیسی جماعتوں کو جو عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہوں اکھاڑناکوئی کوئی آسان نہ ہو گا-آئندہ کسی بھی ممکنہ جنگ میں فریقین کے جانی اور مالی نقصان کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں اور مزید یہ کہ اسرائیلی جارحیت صرف لبنان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے اثرات دیگر عرب دنیا پر بھی پڑیں گے-
ایک اہم سوال یہ ہے کہ حزب اللہ کے انتہائی چالاک لیڈر کے پس منظر سے ہٹ جانے کے بعد اب کہاں کھڑی ہے ؟حماس کے پولیٹ بیور خالد مشعل نے ایک تعزیتی ریفرنس کے دوران کہا کہ عماد کی شہادت بلا شبہ ایک بڑا سانحہ ہے لیکن اس سے حزب اللہ کی اسرائیل بارے سوچ میں کوئی فرق نہیں آئے گا -اسرائیل یہ بات ذہن سے نکال دے کہ اس نے ایک انتہائی خطرناک مجاہد کو ختم کر کے اپنا راستہ صاف کر لیا- قتل عام کی وجہ سے اگر اس کا راستہ صاف ہونا ہوتا تو اب تک وہ پورے عالم عرب پر تسلط جما چکا ہوتا -خالد مشعل کا کہنا تھا کہ عماد مغنیہ کے ہمارے درمیان نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ان کے تیار کردہ مجاہدین ان کی جگہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں-حماس راہنما کے اس دعوے کو محض جذباتی رو نہیں قراردیا جا سکتا، کیونکہ خود اسرائیل میں اعلی سطحی حکام یہی اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں- مثال کے طور پر اسرائیل میں دائیں باز و کے ایک راہنما لیبر مین کا کہنا ہے کہ عماد مغنیہ تنہا اسرائیل اور امریکہ کے لیے خطرہ نہیں تھا بلکہ اس سے بڑھ کر اسرائیل کے لیے اس کے تیار کردہ جنگجو خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ہیں، جو اسرائیل کے سرپر لٹکتی ہوئی تلوار ہیں- انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس وقت دو دھاری تلوار کی زد میں ہے، ایک طرف فلسطینی خودکش بمبار اور ا ن کے راکٹ یہودی عوام کے لیے خطرہ ہیں تو دوسری طرف ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے مسلح جنگجو اسرائیل کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں-
عماد فائز مغنیہ ایک نظر میں:
عماد مغنیہ سات دسمبر1962 ء کو جنوبی لبنان کے گائوں صور میں پیدا ہوئے- ان کی والدہ سول سوسائٹی کی ایک سر گرم خاتون تھیں، یہی وجہ ہے کہ شروع ہی سے عماد کی زندگی پروالدہ کی اچھی تربیت کے اثرات مرتسم ہوتے گئے- ابتدائی تعلیم طیر دبا کے علاقے سے حاصل کی جبکہ گریجویشن بیروت میں قائم ایک امریکی یونیورسٹی’’بیروت امریکن یونیورسٹی‘‘ سے کی- لبنانی عوام اور حزب اللہ کے ہاں وہ الحاج عماد، ہیرو، چیتا،عماد رضوان اور حزب اللہ کا دماغ کے ناموں اور القابات سے جانے جاتے تھے- جبکہ امریکہ اور اسرائیل کے ہاں گریٹ کلر،شیعہ بن لادن اور چالاک لومڑی کے القابات سے مشہور تھے- امریکہ، اسرائیل اور انٹر پول کو کئی مقدمات میں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں ان کا نام سر فہرست تھا-ستمبرنائن الیون سے قبل امریکہ کو دنیا بھر سے مطلوب بیس افراد میں عماد مغنیہ فہرست میں پہلے نمبر پر تھے-
زمانہ طالب علمی میں عماد کی ملاقات سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات سے ہوئی توانہوں نے ان کی جماعت فتح میں شمولیت کا فیصلہ کیا -عرفات مرحوم کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد انہوں نے اسلامک جہاد کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کی، تاہم بعد ازاں اسے ختم کر کے 1980 ء میں حزب اللہ میں شامل ہو گئے، جہاں انہیں تنظیم کے بانی شیخ حسن فضل اللہ جیسے لوگوں سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا -حزب اللہ میں شمولیت کے بعد انہوں نے لبنان سے امریکی اور اسرائیلی فوجوں کے انخلاء کے لیے جنگ کا آغاز کیا- حزب اللہ میں انہیں سکیورٹی چیف بنایاگیا اور کہیں بھی ہونے والے حملوں کی تمام ترکارروائی عماد کی نگرانی اور ہدایات کی روشنی میں طے کی جانے لگی-اپریل1983ء میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کر کے 63 امریکیوں کی ہلاکت اور اسی سال لبنان میں امریکی فوج پر بم حملہ کر کے 241 فوجیوں کے قتل ذمہ داری بھی ان پر ڈالی گئی، جس پر امریکہ نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتار ی کے لیے پچیس ملین ڈالر کی رقم مختص کی- وادی بقاع میں 58 فرانسیسی فوجیوں کے قتل کے پس پردہ بھی ان ہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے -جون 1985ء میں یورپ سے ایک امریکی ایئر لائن ڈبلیو ٹی او کا طیارہ اغواء کرنے اور 1992ء ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارت خانے میں بم حملوں میں انتالیس افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی ان پر عائد کی گئی-عماد نے 1980ء اور 90 کی دہائیوں میں کئی امریکی فوجیوں کو اغواء کیا-
عما د مغنیہ فلسطینی تحریک آزادی کے زبردست حامی سمجھے جاتے تھے – ابتداء میں انہوں نے تحریک آزادی فلسطین کے لیے کام کیا- اتحاد عالم اسلامی کے زبر دست داعی تھے ، انہی کی کوششوں سے حماس اور حزب اللہ کے درمیان مثالی او ردوستانہ تعلقات قائم ہوئے- جون 2006ء کی اسرائیل لبنان جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی اور اسرائیلی شکست کے پیچھے بھی کمانڈر عماد ہی کی پالیسی کار فرما تھی-انہیں القاعدہ اور عراق میں امریکی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے ابو مصعب الزرقاوی کا بھی دوست سمجھاجاتا ہے -امریکی سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار کا کہنا ہے مغنیہ ایک دروازے سے داخل ہوتا او ردوسرے سے نکلتا، روزانہ گاڑی تبدیل کرتا، فون پر کسی سے ملاقات کا وقت طے نہیں کرتا، وہ ایک تیز اور شاطر دہشت گردتھا-حزب اللہ کے ماہر ڈاکٹر میگنس کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے حزب اللہ ایک تنظیم کے طور پر ابھری، اسی طرح مغنیہ پس پردہ چلے گئے اور یہی ان کے تحفظ کی کامیاب ترین حکمت عملی تھی- امریکی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کے پاس کمانڈر عماد کی تصویر بائیس سال پرانی ہے، جاسوسوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عماد نے سرجری کے ذریعے اپنے چہرے کا حلیہ بالکل تبدیل کر لیاتھا، جس سے ان کی شناخت نا ممکن ہو گئی تھی- ’’حزب اللہ کا دماغ‘‘ 12 فروری 2008ء کو شام کے دارلحکومت دمشق کار بم حملے میں شہید کردیاگیا-
مشرق وسطی میں مسلمانوں اور یہودیوں کی کشمکش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ اسرائیل کی تاریخ- اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ہر دور میں اپنے پڑوسی ممالک اور مخالف تنظیموں سے الجھتا رہا ہے – اس نے کبھی شام سے پنجہ آزمائی کی تو کبھی لبنان کے خلاف اپنی سپاہ کو صف آراکیا- کبھی معرکہ حماس سے برپا ہوا تو کبھی حزب اللہ پر زور آزمائی کی گئی- باہمی چپقلش اورنبرد آزمائی کا یہ سلسلہ اب بھی تھمنے میں نہیں آرہا اوراس خونی طوفان کے تھمنے کے امکانات بھی معدوم ہیں-
لبنانی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے آپریشنل کمانڈر عماد فائز مغنیہ کی مبینہ شہادت اسرائیلی ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کی تازہ مثال قرار دی جا سکتی ہے – مغینہ کی شہادت کے بعدخطے کی سیاست اور امن و امان میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں- ایک قیاس یہ بھی ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل ایک بار پھر طاقت آزمائی کا مظاہرہ کرنے جارہے ہیں-اسرائیل ماضی میں بھی حزب اللہ اور حماس کے لیڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کرتا رہا ہے جس کا وہ اعتراف بھی کر چکا ہے، لیکن مغنیہ کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کررہا ہے- دوسری جانب حزب اللہ، شام، ایران اور حماس حملے کی ذمہ داری اسرائیل پر ڈال رہے ہیں-شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے کہا کہ ان کے پاس حزب اللہ راہنما کی شہادت کے حوالے سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد اور امریکی سی آئی اے کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، وہ جلد تمام حقائق منظر عام پر لائیں گے- مغینہ کی شہادت کے پیچھے ان ہی قوتوں کا ہاتھ ہے جو گذشتہ پانچ دھائیوں سے خطے کا امن تاراج کیے ہوئے ہیں-
پروس رائیڈل امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ کے علاوہ صدر کلنٹن اور موجودہ صدر جارج بش کے ادوار میں قومی سلامتی کے مشیر رہ چکے ہیں بھی شیعہ راہنما کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا عندیہ دیتے ہیں- اسرائیلی اخبار ’’یدیعوت احرونوت‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گوکہ اسرائیل نے حزب اللہ لیڈر کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا، لیکن زمینی حقائق اور ماضی میں اسرائیل حزب اللہ کشمکش کو مد نظر رکھتے ہوئے قتل کی ذمہ داری کسی دوسرے ملک پر ڈالنا ناانصافی ہو گی- امریکہ کو مطلوب ہونے کی وجہ سے اگر چہ مغنیہ نے خود کو زیر زمین چھپا لیا تھا تاہم امریکی اور اسرائیلی خفیہ ادارے مل کر اس کا کھوج لگانے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں-
اسرائیل میں محکمہ سراغ رسانی سے متعلقہ امور کے ماہر یوسی میلمان نے جرمنی کے ایک خبر رساں ادارے ’’شبیگل آن لائن‘‘ سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ موساد کے ہاتھوں حزب اللہ لیڈر کے قتل کی کامیاب کوشش سے اسرائیلی عوام میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے- انہوں نے اسرائیلی حکومت کے موقف کو جنگ و جدل سے بچنے کی حکمت عملی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل نے لبنانی لیڈر کے قتل کا اعتراف نہ کر کے دانشمندی کا ثبوت دیا –
حزب اللہ لیڈر کے قتل کے کئی اسباب بتائے جارہے ہیں- ایک خیال یہ ہے کہ چونکہ امریکہ اور اسرائیل ایک عرصے سے مل کر انتہائی اہم ہدف کے حصول کی کوشش میں تھے-سو خفیہ اداروں نے اپنا دیرنہ مقصدپورا کر لیا- ایک دوسرا نقطہ نظرامریکی وینوگراڈ رپورٹ کو بھی قراردیا جارہا ہے- تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یکم فروری 2008 ء کو امریکی عسکری امور کے ماہر وینو گراڈ نے اپنے پانچ معاونین سے مل کر 2006 ء کی لبنان جنگ میں اسرائیلی خامیوں کی چشم کشا رپورٹ جاری کی- اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے اسرائیل کو اندرونی اور بیرونی سطح پر سخت سبکی کا سامنا کرنا پڑا-سابق فوجی افسروں اور سیاست دانوں نے ایہود اولمرٹ کی حکومت کو تنقیدکانشانہ بناتے ہوئے ان سے استعفی طلب کیا – رپورٹ کے مطابق محض دو فوجیوں کی رہائی کے لیے شرع کی گئی یہ جنگ اسرائیل نے نہ صرف حزب اللہ سے ہاردی ،بلکہ ایک فیصد مقاصد بھی حاصل نہ کیے جا سکے- اس روپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اسرائیلی حکام نے حزب اللہ سے اس سبکی کا بدلہ لینے کے بھی دعوے شروع کر دیے تھے-اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وینوگراڈ رپورٹ نے ہمیں حزب اللہ کے حوالے سے ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبورکیاہے-حزب اللہ نے صہیونی وزیر دفاع کے اس بیان کو اپنے خلاف کھلی دھمکی قرار دیا- لبنان اور شام کے ذرائع ابلاغ وینوگراڈہی کوعماد مغنیہ کا سبب قرار دے رہے ہیں-
یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ عماد کے قتل کے بعدکیا لبنان کی سرزمین ایک بار پھر میدان جنگ بننے والی ہے- حزب اللہ کی طرف سے ایک سے زیادہ مرتبہ اسرائیل کو چیلنج کیاجاچکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہیں- حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصرا للہ کے اس بیان کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے جس میں انہوں نے کہا کہ عماد کا خون اسرائیل کے خاتمے کا نقطہ آغاز ہے، اب کی بار اسرائیل سے ہونے والا معرکہ فیصلہ کن ہو گا- اسرائیل سے ہماری جنگ کسی بھی جغرافیائی قید سے آزاد ہے اوراب ہم اسرائیلی مفادات کو ہر جگہ پر نشانہ بنائیں گے- حسن نصرا للہ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے ہزاروں خودکش بمبار موجود ہیں جو عماد کا بدلہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں- انہوں نے لبنانی خطباء اور آئمہ مساجد سے کہا کہ وہ اپنے خطبات میں لوگوں کو اسرائیل کے خلاف ایک نئی جنگ کی تیاری کے لیے تیار کریں-
حزب اللہ اپنے لیڈر کی انتقامی کارروائی میں اسرائیل سے باہر اس کے مفادات پر حملے کرسکتی ہے- حال ہی میں ایک عرب خبر رساں ادارے’’فلسطین انفارمیشن سینٹر‘‘ نے انٹر نیٹ پر عوامی سروے کیا ہے ، سروے 75 فیصد رائے دہند گان کا خیال ہے کہ حزب اللہ اسرائیل سے باہر اس کے مفادات کو نشانہ بناسکتی ہے-
دوسری جانب اسرائیل میں فضاء کسی حد تک پرسکون دکھائی دے رہی ہے، تادم تحریر اسرائیل کی جانب سے سرکاری طور پر ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا جسے بنیاد بنا کر یہ کہا جا سکے کہ اسرائیل حزب اللہ کے خلاف کوئی نئی جنگ کی تیار ی کر رہا ہے- تاہم اسرائیل نے اندرون اور بیرون ملک اپنی اہم تنصیبات پرغیر معینہ مدت کے لیے سکیورٹی سخت کردی ہے- اس ضمن میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ الگ کہانی کہتے دکھائی دیتے ہیں- پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹوں اور خبروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اندر خانہ حزب اللہ کے خلاف کسی بھی جارحانہ کارروائی کی تیاری کر رہاہے، تاحال اسے خفیہ رکھا جارہا ہے- عبرانی اخبار’’معاریف ‘‘ کے حالیہ اداریے میں کہاگیا ہے کہ ہو نہ ہو حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان معرکہ آرائی ناگزیر ہے، یہ معرکہ جس کا کوئی وقت متعین نہیں کسی بھی وقت شروع ہو کر کہیں بھی ختم ہو سکتا ہے- اس دوسطری تبصرے کے علاوہ دیگر اخبارات بھی حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشید گی کا تاثر دے رہے ہیں- اسرائیلی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے اپنے اداریے میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ محاذ آرائی کے تناظر میں لکھا کہ ماضی میں جب بھی کسی ایک طرف سے کشیدگی کی فضاء پیدا ہوئی تو وہ یقینا کسی جنگ پر ہی جا کر ختم ہوئی، لہذا یہ کہنا کہ اسرائیل اور حزب اللہ ایک نئی لڑائی شروع کرنے والے ہیں کوئی انوکھی بات نہ ہو گی-اسی طرح کا تبصرہ یہودی عسکری تجزیہ کار یوسی میلمان نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا،انہوں نے کہا کہ حزب اللہ لیڈر کا قتل اور ردعمل کے طور پر اسرائیل کو اس کا ذمہ دار قرار دینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کی جانب سے ایک نئی جنگ کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے-
غیر جانب دار ماہرین بھی حزب اللہ لیڈر کے قتل کو مشرق وسطی میں کسی نئی جنگ کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں- یورپی یونین کی جانب سے اگرچہ کوئی جانبدارانہ موقف سامنے نہیں آیا، تاہم بعض یورپی حلقوں خصوصاروس نے حزب اللہ راہنما کے قتل کو نا پسندیدہ کارروائی قرار دیا- سرکاری سطح پر جاری ایک بیان میں کہاگیا کہ قتل عام کی سیاست سے خطے میں قیام امن کی صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے- اسرائیل پہلے فلسطینیوں پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ لبنان پر حملہ کیا گیا تونتیجہ انسانی جانوکے ضیاع کی صورت میں سامنے آئے گا –
اگر حزب اللہ اور اسرائیل باہمی محاذ آرائی پر اتر آتے ہیں تو اس محاذ آرائی کا نتیجہ کس کے حق میں جائے گا- اس حوالے سے شام کے ایک ماہر امور جنگ سلیمان مصطفی نے ’’الانہار‘‘ اخبار میں لکھے گئے اپنے ایک حالیہ مضمون میں تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں اسرائیل حزب اللہ کے خلاف بھاری ہتھیار استعمال کرے گا- امریکی وینو گراڈ رپورٹ نے اسرائیلی حکام اور فو ج کو اپنی رپورٹ میں نئی جنگی چالوں سے آگاہ کردیا ہے، البتہ حزب اللہ کی جنگجویانہ مہارت آسانی سے اسرائیل سے شکست قبول کرنے والی نہیں- نتیجہ کچھ بھی ہو یہ بات ظاہر ہے کہ حز ب اللہ اور حماس جیسی جماعتوں کو جو عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہوں اکھاڑناکوئی کوئی آسان نہ ہو گا-آئندہ کسی بھی ممکنہ جنگ میں فریقین کے جانی اور مالی نقصان کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں اور مزید یہ کہ اسرائیلی جارحیت صرف لبنان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے اثرات دیگر عرب دنیا پر بھی پڑیں گے-
ایک اہم سوال یہ ہے کہ حزب اللہ کے انتہائی چالاک لیڈر کے پس منظر سے ہٹ جانے کے بعد اب کہاں کھڑی ہے ؟حماس کے پولیٹ بیور خالد مشعل نے ایک تعزیتی ریفرنس کے دوران کہا کہ عماد کی شہادت بلا شبہ ایک بڑا سانحہ ہے لیکن اس سے حزب اللہ کی اسرائیل بارے سوچ میں کوئی فرق نہیں آئے گا -اسرائیل یہ بات ذہن سے نکال دے کہ اس نے ایک انتہائی خطرناک مجاہد کو ختم کر کے اپنا راستہ صاف کر لیا- قتل عام کی وجہ سے اگر اس کا راستہ صاف ہونا ہوتا تو اب تک وہ پورے عالم عرب پر تسلط جما چکا ہوتا -خالد مشعل کا کہنا تھا کہ عماد مغنیہ کے ہمارے درمیان نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ان کے تیار کردہ مجاہدین ان کی جگہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں-حماس راہنما کے اس دعوے کو محض جذباتی رو نہیں قراردیا جا سکتا، کیونکہ خود اسرائیل میں اعلی سطحی حکام یہی اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں- مثال کے طور پر اسرائیل میں دائیں باز و کے ایک راہنما لیبر مین کا کہنا ہے کہ عماد مغنیہ تنہا اسرائیل اور امریکہ کے لیے خطرہ نہیں تھا بلکہ اس سے بڑھ کر اسرائیل کے لیے اس کے تیار کردہ جنگجو خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ہیں، جو اسرائیل کے سرپر لٹکتی ہوئی تلوار ہیں- انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس وقت دو دھاری تلوار کی زد میں ہے، ایک طرف فلسطینی خودکش بمبار اور ا ن کے راکٹ یہودی عوام کے لیے خطرہ ہیں تو دوسری طرف ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے مسلح جنگجو اسرائیل کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں-
عماد فائز مغنیہ ایک نظر میں:
عماد مغنیہ سات دسمبر1962 ء کو جنوبی لبنان کے گائوں صور میں پیدا ہوئے- ان کی والدہ سول سوسائٹی کی ایک سر گرم خاتون تھیں، یہی وجہ ہے کہ شروع ہی سے عماد کی زندگی پروالدہ کی اچھی تربیت کے اثرات مرتسم ہوتے گئے- ابتدائی تعلیم طیر دبا کے علاقے سے حاصل کی جبکہ گریجویشن بیروت میں قائم ایک امریکی یونیورسٹی’’بیروت امریکن یونیورسٹی‘‘ سے کی- لبنانی عوام اور حزب اللہ کے ہاں وہ الحاج عماد، ہیرو، چیتا،عماد رضوان اور حزب اللہ کا دماغ کے ناموں اور القابات سے جانے جاتے تھے- جبکہ امریکہ اور اسرائیل کے ہاں گریٹ کلر،شیعہ بن لادن اور چالاک لومڑی کے القابات سے مشہور تھے- امریکہ، اسرائیل اور انٹر پول کو کئی مقدمات میں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں ان کا نام سر فہرست تھا-ستمبرنائن الیون سے قبل امریکہ کو دنیا بھر سے مطلوب بیس افراد میں عماد مغنیہ فہرست میں پہلے نمبر پر تھے-
زمانہ طالب علمی میں عماد کی ملاقات سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات سے ہوئی توانہوں نے ان کی جماعت فتح میں شمولیت کا فیصلہ کیا -عرفات مرحوم کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد انہوں نے اسلامک جہاد کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کی، تاہم بعد ازاں اسے ختم کر کے 1980 ء میں حزب اللہ میں شامل ہو گئے، جہاں انہیں تنظیم کے بانی شیخ حسن فضل اللہ جیسے لوگوں سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا -حزب اللہ میں شمولیت کے بعد انہوں نے لبنان سے امریکی اور اسرائیلی فوجوں کے انخلاء کے لیے جنگ کا آغاز کیا- حزب اللہ میں انہیں سکیورٹی چیف بنایاگیا اور کہیں بھی ہونے والے حملوں کی تمام ترکارروائی عماد کی نگرانی اور ہدایات کی روشنی میں طے کی جانے لگی-اپریل1983ء میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کر کے 63 امریکیوں کی ہلاکت اور اسی سال لبنان میں امریکی فوج پر بم حملہ کر کے 241 فوجیوں کے قتل ذمہ داری بھی ان پر ڈالی گئی، جس پر امریکہ نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتار ی کے لیے پچیس ملین ڈالر کی رقم مختص کی- وادی بقاع میں 58 فرانسیسی فوجیوں کے قتل کے پس پردہ بھی ان ہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے -جون 1985ء میں یورپ سے ایک امریکی ایئر لائن ڈبلیو ٹی او کا طیارہ اغواء کرنے اور 1992ء ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارت خانے میں بم حملوں میں انتالیس افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی ان پر عائد کی گئی-عماد نے 1980ء اور 90 کی دہائیوں میں کئی امریکی فوجیوں کو اغواء کیا-
عما د مغنیہ فلسطینی تحریک آزادی کے زبردست حامی سمجھے جاتے تھے – ابتداء میں انہوں نے تحریک آزادی فلسطین کے لیے کام کیا- اتحاد عالم اسلامی کے زبر دست داعی تھے ، انہی کی کوششوں سے حماس اور حزب اللہ کے درمیان مثالی او ردوستانہ تعلقات قائم ہوئے- جون 2006ء کی اسرائیل لبنان جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی اور اسرائیلی شکست کے پیچھے بھی کمانڈر عماد ہی کی پالیسی کار فرما تھی-انہیں القاعدہ اور عراق میں امریکی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے ابو مصعب الزرقاوی کا بھی دوست سمجھاجاتا ہے -امریکی سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار کا کہنا ہے مغنیہ ایک دروازے سے داخل ہوتا او ردوسرے سے نکلتا، روزانہ گاڑی تبدیل کرتا، فون پر کسی سے ملاقات کا وقت طے نہیں کرتا، وہ ایک تیز اور شاطر دہشت گردتھا-حزب اللہ کے ماہر ڈاکٹر میگنس کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے حزب اللہ ایک تنظیم کے طور پر ابھری، اسی طرح مغنیہ پس پردہ چلے گئے اور یہی ان کے تحفظ کی کامیاب ترین حکمت عملی تھی- امریکی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کے پاس کمانڈر عماد کی تصویر بائیس سال پرانی ہے، جاسوسوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عماد نے سرجری کے ذریعے اپنے چہرے کا حلیہ بالکل تبدیل کر لیاتھا، جس سے ان کی شناخت نا ممکن ہو گئی تھی- ’’حزب اللہ کا دماغ‘‘ 12 فروری 2008ء کو شام کے دارلحکومت دمشق کار بم حملے میں شہید کردیاگیا-