ایک امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈاؤمنٹ جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم پھیلاؤ کے حوالے سے جامع آرمز کنٹرول منصوبے وضع کر رہا ہے اور جوہری توانائی کی بین الاقوامی تنظیم کے اربابِ بست و کشاد اس منصوبے کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ یہ عجیب و غریب منصوبہ ہے۔ منصوبے کے تحت بڑی ایٹمی طاقتیں عالمی سلامتی کی خاطر دوسرے ملکوں کو مراعات دیں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی طرح بڑی ایٹمی طاقتوں کے نزدیک عالمی سلامتی کی جامع تعریف کیا ہے؟ کسی ایک اپنے طفیلی اور حلیف ملک کو کوئی بھی بڑی ایٹمی طاقت اس مفروضے کی بنیاد پر مراعات دے سکتی ہے کہ اس کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ کیا اس طرح کسی بڑی ایٹمی طاقت کے حلیف ملک کی سلامتی کے تحفظ کی آڑ میں یورینیم یا پلوٹونیم کے غلط ہاتھوں میں جانے کا احتمال باقی نہیں رہے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ اس طرح بڑی ایٹمی طاقتوں کے تابع مہمل ممالک اپنی سلامتی کے تحفظ کے نام پر یورینیم اور پلوٹونیم کی بھاری مقدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یوں امن عالم کو حقیقی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گمان غالب ہے کہ ایسے ہی کسی منصوبے کے تحت امریکا نے اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی در پردہ منتقل کی۔ نتیجتاً اسرائیل خطے کی غیر اعلانیہ جوہری ریاست کا روپ دھار گیا۔ اسرائیلی جوہری ہتھیاروں پر عالمی طاقت اور عالمی اداروں کی مکمل خاموشی ان کے دوہرے معیارات کی آئینہ دار ہے۔ اسرائیلی جوہری ہتھیاروں کے جواب میں خطے میں موجود دیگر ممالک کے لئے اس امر کا جواز پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی غیر روایتی ہتھیار تیار کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان ممالک کے خلاف عالمی طاقت اور عالمی ادارے محض اطلاعات کی بنیاد پر چڑھ دوڑتے ہیں کہ ان کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ عراق پر یہی ہوّا کھڑ ا کر کے امریکا برطانیہ اوراس کے حلیف مغربی ممالک نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سہارا لے کر لشکر کشی کی۔ 8برس کے غیر مختتم بین الاقوامی فوجی آپریشن کے باوجود عراق کے کسی ہتھیاروں کے گودام سے آج تک وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کوئی میزائل تو کجا ایک سوئی تک بھی ڈھونڈی نہیں جا سکی۔مشرقِ وسطیٰ کے عوام عالمی طاقت کے دوہرے تہرے معیارات کے حامل رویوں سے نالاں ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک فلسطینی اطلاعاتی مرکز نے بین الاقوامی میڈیا کو یہ رپورٹ فراہم کی تھی کہ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون نے خارجہ اور دفاعی تعلقات کمیٹی کے خفیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’’اسرائیلیوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ امریکا نے اسرائیلی حکام کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جب بھی کسی قسم کا خطرہ محسوس کریں، جوہری ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کر کے اسے دور کر دیں‘‘ یہ حقیقت تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل اور امریکا کے مابین مستقل اور مستحکم تعاون پر اسرائیلی حکام نے ہمیشہ اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل نمائندے نے مشرق وسطیٰ کو نیو کلیئر فری زون بنانے کے لئے اقوام متحدہ پر زور دیا تھا کہ’’ وہ اسرائیل سے این پی ٹی پر دستخط کرائے اور مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں کی متوقع تابکارانہ تباہی سے بچانے کے لئے مؤثر اقدامات کرے‘‘ کون نہیں جانتا کہ اسرائیل گزشتہ سوا پانچ عشروں سے بڑی طاقتوں کی شہ پر من مانیاں کر رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی طاقت اور مغربی ممالک کی بھرپور لیکن در پردہ جوہری ، نیوکلیائی اور تکنیکی معاونت سے اسرائیل نے جوہری استعداد اور اہلیت حاصل کر لی ہے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک غیر علانیہ جوہری ریاست ہے۔ اسرائیل کا جوہری ریاست ہونا صر ف مشرق وسطیٰ کے مسلم عوام ہی کے لئے نہیں بلکہ عالم اسلام کے تمام شہریوں کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق ’’انڈر ورلڈ ‘‘سے ایٹمی استعداد حاصل کرنے کے لئے ڈیوائسز اور مطلوبہ مواد حاصل کرنا اور چوری چھپے نیو کلیئر ہتھیار بنانا ایک سنگین ترین جرم ہے۔ اس جرم کی مرتکب ریاستوں کو عالمی طاقت امریکا کے حکمران اور مغربی و امریکی دنیا کے تھنک ٹینکس کے چیفس اور لنکس سنگین ترین بین الاقوامی جرم سے تعبیر کرتے ہیں۔ عالمی اداروں، عالمی طاقت اور مغربی ممالک کا یہ دہرا پن، تضاد اور دو رخہ پن امن عالم کے لئے ایک مستقل خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک طرف تو ایسے ممالک کو جو در پردہ ایٹمی استطاعت اور قابلیت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں ،انہیں امریکی حکومت ’’بدمعاش ریاستیں ‘‘اور ’’بدی کے محور‘‘ قرار دینے سے بھی نہیں تھکتیں اور دوسری طرف انہوں نے اپنے لے پالک اسرائیل کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ جوہری بم اور جوہری ہتھیارتیار کرنے کی استعداد میں بھی کمال حاصل کرے۔
یہ مطالبہ یقیناً کوئی بلا جواز اور جانبدارانہ مطالبہ نہیں ہے کہ مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ بنایا جائے۔ یہ حقیقت کسی بھی باخبر اور با شعور شہری سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عرب ممالک بر س ہا برس سے یہ مطالبہ دہراتے چلے آ رہے ہیں کہ عالمی معائنہ کار اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کا بھی معائنہ کریں۔ مقام تاسف ہے کہ دنیا کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کا حلف اٹھانے بلکہ ذمہ لینے والے مغربی ممالک اس باب میں ہزار فیصد جانبداریت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک این پی ٹی پر دستخط کر چکے ہیں، جو یقیناًخوش آیند ہے لیکن اس گلوبل ویلج کے امن پسند شہری یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تخفیف اسلحہ کا نعرہ تخلیق کرنے والی قوتیں اس معاہدے پر دستخط کرنے سے کیوں گریزاں اور مجتنب ہیں۔ اسرائیل دنیا کی واحد ناجائز اور بدمعاش ریاست ہے۔ دنیا کا واحد ایسا ملک جسے غیر جانبدار اہل الرائے بلا تامل بدی کا محور قرار دے رہے ہیں۔ بادی النظر میں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بدی کے اس علمبردار غنڈہ اور جارح ملک کو نکیل ڈالنا اب کسی بھی عالمی ادارے کے بس میں نہیں رہا۔ اگر مشرق وسطیٰ کو ایک بستی پر محمول کیا جائے تو اس میں اسرائیل کی حیثیت بے زنجیر ہاتھی کی سی ہے۔ ’’چائنہ شاپ ‘‘ میں گھسے اس ’’پاگل سانڈ‘‘ اور’’ ارنے بھینسے‘‘ کو نکال باہر کرنا انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔دنیا کے امن دوست شہری جاننا چاہتے ہیں کہ اس’’بے قابو جن‘‘ کو مسلمہ عالمی قوانین کی بوتل میں کون بند کرے گا؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ اسرائیل ہی کو امریکا اور اس کے حلیف ممالک نے ایٹمی اسلحہ کے انبار لگانے کے لئے فری ہینڈ کیوں دے رکھا ہے؟ کیا یہ اقدام ذہنی و عصبی عدم توازن کے شکار دیوانے کے ہاتھ میں زہر میں بجھا ہشت پہلو خنجر تھما دینے کے مترادف نہیں گزشتہ 54برسوں کا ریکارڈ گواہ ہے کہ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت مشرقِ وسطیٰ کے شہریوں کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ اسرائیل خطے میں در حقیقت’’ منی امریکا‘‘ ہے اور امریکا در اصل’’ گریٹر اسرائیل‘‘ ہے۔ عالمی برادری جاننا چاہتی ہے کہ کیا اسرائیل عالمی معاہدوں سے بالاتر قوت ہے؟ کیا اسے عالمی معاہدوں کا پابند نہیں بنایا جا سکتا؟ ان سوالوں کا جواب یقیناًاثبات میں نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھراقوام متحدہ، سلامتی کونسل، جنیوا کنوشن ، بین الاقوامی عدالت انصا ف اور عالمی ایٹمی توانائی کی ایجنسی ایسے اداروں کے وجود کا جواز کیا رہ جاتا ہے۔ کیا یہ ادارے طاقت ور ممالک کی زر خرید باندی ہیں؟ تضادات، دورخے پن ، دوہرے پن اور جانبداریت سے آلودہ پالیسیاں اس امر کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ دنیا کو امن، آزادی، مساوات، تہذیب اور بنیادی انسانی حقوق کی سر بلندی اور سر افرازی کا پیغام دینے والی چھوٹی بڑی عالمی طاقتوں نے یہ ادارے محض اپنے مخصوص، مذموم مفادات کی پاسبانی اور پشتیبانی کے لئے قائم کر رکھے ہیں۔ ان اداروں کی تاریخ اور ان کا کردار اپنے معنویت کھو چکا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت کو خطے کا تھانے دار اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو علاقے کا غنڈہ بنانے کی پالیسی کے نتائج یقیناًمفید اور مثبت نہیں ہو سکتے۔ کانٹے بو کرفصل گلاب کی کاشت کی توقع رکھنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔
بہ شکریہ روزنامہ نئی بات