ایران کی ایک 32 سالہ صحافیہ اور بلاگر ندا امین حکومت کے خلاف تنقیدی مضامین لکھنے کے بعد سنہ 2014ء کو اپنا ملک چھوڑ کر ترکی آگئیں۔ حال ہی میں وہ تُرکی سے’اسرائیل‘ منتقل ہوئی ہیں جہاں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ زیادہ ’محفوظ‘ ہیں۔ اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق ندا امین ترکی میں پانچ جولائی 2017ء تک پناہ گزین کی حیثیت سے قیام پذیر رہیں۔ پانچ جولائی کو انقرہ نے ندا کو 30 روز کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔
ندا امین باقاعدگی کے ساتھ ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے لیے فارسی بلاگ لکھتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ [ترکی میں خطرہ محسوس ہونے پر] اس نے اخبار کی ویب سائیٹ کے ایڈیٹر ’ڈیوڈ ہوروٹز‘ سے رابطہ کیا۔ اخبار کے ایڈیٹر نے اسرائیل کے متعلقہ محکمے میں اپنی زور آزمائی کرکےندا امین کو اسرائیل کے سفر کی سہولت فراہم کرنے میں مدد کی۔
ہوروٹز کا کہنا ہے کہ ’جیسے ہی ہم نے متعلقہ حکام کی ندا کے معاملے پر توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی تو ہرایک نے پیشہ وارانہ انداز میں ہماری مدد کی۔
ندا امین نے تل ابیب کے بن گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترتے ہی ’آزاد فضاء‘ میں سُکھ کا سانس لیا۔ اس نے کہا کہ ’مجھے ایک ایسے ملک میں رہنے پر فخر ہے جو خطرے سے دوچار کسی بھی شخص کی پکار پربے اختیار جواب دیتا اور اس کی مدد کرتا ہے‘۔
ٹائمز آف اسرائیل کی بلاگر ندا امین کو ایران میں جلاوطنی پر مجبور کیا گیا اور وہ 10 اگست 2017ء کو اسرائیل پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔
اسرائیلی وزیر داخلہ ’اری درعی‘ جنہوں نے ایرانی صحافیہ کو اسرائیل کا ویزہ جاری کیا اسے ’آزادی کے سنگھم‘ میں داخل ہونے پر خوش آمدید کہا۔ ایک ٹویٹ میں درعی نے لکھا کہ ’اسرائیل آمد پرخوش آمدید‘۔
مگرایرانی خاتون صحافی کو اپنے ملک میں صحافتی آزادیوں کا جھانسہ دینے والے وزیر داخلہ اری درعی نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو ملک کے ذرائع ابلاغ کے خلاف چراغ پا ہوتے نہیں دیکھا۔ وزیراعظم ذرائع ابلاغ پر تنقید کرتے ہوئے انہیں بائیں بازو کے ہاتھ میں اپنے اور اپنی جماعت کے خلاف استعمال ہونے والا ہتھیار قرار دے چکے ہیں۔ نیتن یاھو کے بہ قول بائیں بازو کے حکومت مخالف گروپ ذرائع ابلاغ کو انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ’ ہم بائیں بازو اور میڈیا سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ہم یہ بھی جانتےہیں کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ یہ مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے تحت مجھے اور میرے خاندان کو بدنام کررہے ہیں۔ اپنے حامیوں سے خطاب میں نتین یاھو نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’پولیس اور میڈیا ورکر فل ٹائم ایک ہی ایجنڈے پرکام کررہے ہیں۔ اگر آپ برا نہ منائیں تو آپ حیران رہ جائیں گے‘۔
ایک ایرانی پناہ گزین کو آزادی اظہار رائے اور ابلاغ کی آزادی کا تحفہ دینے والی اسرائیلی حکومت کا اصل چہرہ دیکھنا ہوت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صحافتی آزادیوں کو دبانے کے لیے جاری کریک ڈاؤن پر نظر ڈالنی چاہیے۔ قابض اسرائیلی فوج نے فلسطینی سیکڑوں فلسطینی شہریوں کو سوشل میڈیا پر پلیٹ فارمز پر محض ایک لفظ یا جملہ لکھنے کی پاداش میں پابند سلاسل کیے۔ جنوری سے ستمبر 2016ء کے درمیانی عرصے میں محض فیس بک پرکوئی ایک آدھ لفظ یا جملہ لکھنے کے جرم میں 145 فلسطینی نوجوانوں کو جرمانے کیےگئے۔
ایسی ان گنت روپورٹس موجود ہیں جن میں قابض صہیونی فوج کے ہاتھوں صحافیوں کو جان بوجھ کرانتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنائے جانے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انہیں بری طرح مارا پیٹا گیا۔ حراست میں لیا گیا اور ان پر نام نہاد الزامات عاید کرکے سزائیں دی گئیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قابض اسرائیلی فوج کی براہ راست فائرنگ سے کئی صحافیوں کی اموات بھی ہوچکی ہیں جب کہ بڑی تعداد میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ جون میں ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں صحافیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کے ایسے پانچ وحشیانہ واقعات کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں، جن میں فلسطینی صحافیوں پرحملے، تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات شامل ہیں۔
آزادی اظہار پرقدغنیں کوئی نئی صہیونی پالیسی نہیں مگر جب سے اسرائیلی کنیسٹ کی قانون ساز کمیٹی نے جولائی میں ایک متنازع قانون منظور کیا ہے اس کے بعد سے صحافیوں کے خلاف پرتشدد حملے غیرمعمولی حد تک بڑھ گئے ہیں۔ جولائی میں منظور کردہ اس متنازع قانون میں اسرائیلی پولیس کو ’مجرمانہ‘ اور ’تشدد پر اکسانے‘ والے مواد کی موجودگی کے دعوے کی آڑ میں کسی بھی ویب سائیٹ کو بلاک کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اسرائیل کے عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ نے اس نام نہاد قانون پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ پولیس کو میڈیا کے خلاف کارروائی کی اجازت دینے کے قانون میں کئی سقم موجود ہیں۔ قانون میں شفافیت نہیں، حکومت نے پولیس کو خفیہ شواہد کی بناء پر کسی بھی ویب سائیٹ کو بلاک کرنے کا اختیار دیا ہے۔
صحافتی آزادیوں پراسرائیلی حملوں کی تازہ ترین مثال الجزیرہ ٹی وی چینل اور اس کے فلسطینی نامہ نگاروں پر عاید کردہ پابندیوں کی ہے۔ اسرائیلی وزیر مواصلات ایوب قرا نے الجزیرہ چینل سے وابستہ صحافیوں کو جاری کردہ تعارفی اجازت نامے واپس لے لیے۔ ساتھ ہی کیبل آپریٹرز اور سیٹیلائٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو الجزیرہ ٹی وی کی نشریات بلاک کرنے کا حکم دیا گیا۔
اسرائیل کے لیے اپنے کسی بھی وحشیانہ اور بدنیتی پرمبنی اقدام کو سند جواز مہیا کرنے کی حیلہ سازی کوئی مشکل نہیں۔ مگر بین الاقوامی سطح پرغیرمعمولی پذیرائی اور مقبولیت کے حامل الجزیرہ ٹی وی کے خلاف اقدام نے صہیونی ریاست کے آزادی اظہار کے جعلی دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ الجزیرہ ٹی وی چینل نے بتا دیا ہے کہ صہیونی حکومت کی طرف سے اسے آزادی کے ساتھ کام نہیں کرنے دیا گیا۔
صہیونی ریاست کی طرف سے الجزیرہ کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہ دینے کے باوجود الٹا الزام عاید کیا کہ قطر کا یہ مقبول ٹی وی چینل صحافتی آزادی کی آڑ میں اسرائیل کی سلامتی اور اسرائیلی شہریوں کے تحفظ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے الجزیرہ ٹی وی چینل کو پہلی بار ہدف نہیں بنایا گیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور کا الجزیرہ کے بارے میں بیان کافی مشہور ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’الجزیرہ سوویت یا نازی جرمنی کی طرز کا ایک پروپیگنڈہ ہتھیار ہے‘۔
الجزیرہ کا قصور صرف یہ ہے کہ اس نے صہیونی ریاست کے مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کو بے نقاب کیا اور اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں پر پرخاموش تماشائی نہیں رہا۔
ایک ایرانی بلاگر کو اپنے ہاں پناہ گزین کے طورپر قیام کی اجازت دینے سے اسرائیل قطعا یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ وہ آزادی اظہار رائے کی ’ مرکز‘ ہے۔ صہیونی ریاست خود کو ’صحافیوں کی محفوظ جنت‘ ہونے کے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیےجتنا مرضی جتن کرے اور حیلہ سازیوں سے کام لے وہ فلسطین میں آزادی صحافت کے خلاف اپنی کارروائیوں کو چھپا نہیں سکتا۔ جہاں تک ایرانی بلاگر کو اپنے ہاں رہنے کی اجازت دینا ہے تو اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ندا امین اپنی حکومت کے خلاف تنقیدی مضامین لکھتی رہی ہے۔ اسرائیل صحافتی آزادی کے لیے ایرانی شہری کو اپنے ہاں پناہ لینے کی اجازت نہیں دے رہا بلکہ اسرائیل ہر اس شخص کے لیے محفوظ جنت ہے جو ایران کا مخالف ہے۔