جمعه 15/نوامبر/2024

نیلسن منڈیلا کے دیس میں نقب زنی کا صہیونی منصوبہ

ہفتہ 16-ستمبر-2017

یہ چند ہی عشرے پہلے کی بات ہے جب یورپی ملکوں کی براعظم افریقا پر رال ٹپکنے لگی تو انہوں نے اس خطے کے اس طرح حصے بخرےکردیے جیسے کیک کاٹ دیا گیا ہو۔ براعظم افریقا کی تقسیم کے دوران ہریورپی ملک کی دلی خواہش یہ تھی کہ دوسرے کی نسبت وہ اس براعظم کی قدرتی ثقافت کا سب سے زیادہ حصہ لے اور دوسرے کو کم سے کم آئے۔

براعظم افریقا کو ایک ’یتیم‘ بے آسرا، دھتکارا ہوا،انسانی تاریخ اور جغرافیائی اعتبار سے دوسروں پر انحصار کرنے والا خطہ قرار دیا جاتا۔ یورپی سپر طاقتوں نے اس کی تاریکی کو مٹانے کی آڑ میں کبھی تلوار اور کبھی دوسرے ذرائع سے براعظم افریقا کوان گنت چرکے لگائے، یہاں تک کہ اس خطے پر سفید فاموں کو مسلط کرکے یہاں کی سیاہ نسل کی ’تاریکی‘ مٹانے کی کوشش کی گئی۔

اگرچہ افریقا کی حصوں بخروں میں تقسیم کو اب کئی عشرے بیت چکے ہیں۔ وہ افریقا جو تاریخ کے انسائیکلو پیڈیا میں ایک تاریخی حقیقت بن کر داخل ہوا، آج ایک بار پھر مرکزنگاہ ہے۔ جلد یا بدیر اسرائیل اس خطے کواپنے خوابوں کی سرزمین دیکھ رہا ہے۔ وہ اسرائیل جس کی سرشت میں  دنیا کے خطوں پرقبضے کی نہ ختم ہونے والی جنونی خواہش، اپنے سامراجی منصوبوں کی تکمیل کے لیے  خفیہ نقب زنی، گندے چینلز کا استعمال شامل ہے افریقی ملکوں کو اپنے چنگل میں پھنسانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔

آج سے چند مہینے پہلے اسرائیل اور مغربی افریقی ملکوں کے درمیان اکتوبر 2017ء کے آخر میں سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ یہ کانفرنس افریقی ملک ’توگو‘ کی میزبانی میں قرار پائی۔ اس فیصلے پر بیشتر افریقی ممالک نے نسل پرستی اور غاصبانہ سامراجیت مخالف اپنی تاریخ کو دہراتے ہوئے صہیونی ریاست کےساتھ سربراہ کانفرنس کی ڈٹ کر مخالفت کی۔

مغربی افریقی ممالک اور اسرائیل کی سربراہ کانفرنس کا اعلان رواں سال جون میںECOWAS  کانفرنس کے موقع پر کیاگیا۔ اس کانفرنس میں اسرائیل اور لائبیریا کی قیادت نے شرکت کی تھی۔

صہیونی ریاست کے بدنام زمانہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے ’ایکواس‘ کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ’ہم افریقا۔ اسرائیل سمٹ کا انعقاد کرکے دو طرفہ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کررہے ہیں۔ اس آغاز سے دونوں طرف کی اقوام کو زمین پر ایک نئی جنت میسرآئے گی‘۔

نیتن یاھو کے ان الفاظ کو دیکھ کرلگتا تھا کہ وہ انسانیت کے بہت بڑے بہی خواہ ہیں اور افریقی ممالک کی پسماندگی کو اپنے دل میں محسوس کرتے ہوئے اسے دور کرنے کا عزم رکھتے ہیں مگر کون نہیں جانتا کہ نیتن یاھو کا اپنا دامن تو بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے رنگین ہے۔ لائبیریا کے ساتھ کانفرنس سے خطاب میں نیتن یاھو بھول گئے کہ صہیونی فوج روز مرہ کی بنیاد پر مقبوضہ مغربی کنارے، مقبوضیت المقدس اور دوسرے فلسطینی علاقوں میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتی ہے۔ افریقیوں کے لیے ہمدردی کا دعویٰ کرنے والے نیتن یاھو یہ بھول گئے انہوں نے غزہ کی پٹی کے دو ملین لوگوں پر کس طرح بھوک اور غربت مسلط کررکھی ہے کہ لوگ خوراک اور ادویات نہ ملنے کے باعث شہید ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ یورپی ملکوں میں بھی فلسطینی صہیونی ریاست کی شر سے محفوظ نہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی ذہنی یاداشت کھو چکی ہے وہ ان بے شمار اور ان گنت لمحات کو بھول گئے کہ انہوں نے غزہ کی پٹی کے عوام پر مسلط کی گئی ناکہ بندی سے شہریوں کو خوراک اور ادویہ سے محروم کر رکھا ہے۔ انہیں غزہ کی پٹی کے خوراک اور ادیات کی کمی کے شکار بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ ان بے گناہ خواتین کا دکھ انہیں کبھی یاد نہیں ہوگا جن کے اطراف میں بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے بم گرتے اور ان کے چیتھڑے اڑا دیتے۔ نیتن یاھو کو تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اس نے غزہ کی پٹی پر بمباری کراکے کتنے ہزاربچوں اور خواتین سمیت معصوم شہریوں کو سخت سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے کے لیے چھوڑ دایا۔ ان کے ہنستے بستے گھر اجاڑ دیے۔ نوجوان بیٹیوں کے سہاگ لوٹ لیے۔ ماؤں سے ان کے جگرگوشے اور بیٹیوں سے ان کے سہارے چھین لیے۔ وہ ان گنت لمحات بھی نیتن یاھو کو یاد آئیں گے جب اس کی فوج کے گرائے بموں نے غزہ کی پٹی میں سیکڑوں خواتین کو بیوہ اور ہزاروں بچوں کو یتیم کیا۔ خیر اسرائیلی ریاست کے جنگی جرائم کی فہرست اتنی جلد ختم تو نہیں ہوسکتی۔

’ایکواس‘ کانفرنس سے خطاب میں نیتن یاھو نے کہا کہ ’ہماری منزل فورسز کو باہم لڑانے کے لیے ایک دوسرے سے ملنا نہیں بلکہ ہم ایک ساتھ کام کرنے اور بہتر انداز میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے مشن کی روح ہے۔ میں یہاں آیا ہی اس لیے ہوں تاکہ اس سادہ سچائی کا اظہار کرسکوں اور وہ سچائی یہ ہے کہ اسرائیل افریقا کی طرف اور افریقا اسرائیل کی طرف پلٹ رہا ہے‘۔

بلا شبہ نیتن یاھو کے الفاظ اس کے چہرے کے تاثرات کی طرح جھوٹے اور نفرت آمیز دکھائی دے رہے تھے۔ گویا نیتن یاھو نے اس لہجے میں بات کی جس میں کسی دور میں نائیجیریا پر قبضے کے لیے آئے برطانیہ اور مغرب افریقا پرتسلط کا دعویٰ کرنے والے فرانس نے کی تھی۔ ان ملکوں نے تب افریقی ممالک کے عوام کو ’تاریکی کی اولاد‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے سفید فاموں کو اللہ کی منتخب کردہ قوم قرار دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی افریقی غلاموں پر آقائیت کا مخلصانہ حق ان سفید فاموں کے پاس ہے۔

اگر افریقی ممالک کے لوگ خون آشام صہیونی لیڈرشپ کو مسلط کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا افریقی اپنی عزت نفس کھو چکے ہیں۔ افریقیوں کو اپنی تاریخ، ثقافتی ورثے، پوٹنشل پر یقین کے لیے نیتن یاھو کے الفاظ کی قطعا ضرورت نہیں اور نہ ہی انہیں نیتن یاھو کے فلسفے کے مطابق اپنے ماضی، حال اور مستقبل کی شان وشوکت کو دہرانے کی ضرورت ہے۔

افریقیوں کو اپنے بابائے اعظم نیلسن منڈیلا کے وہ الفاظ یاد رکھنا ہوں گے جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ ’اسرائیل نسل پرست ریاستوں کے بہت قریب ہے اور ان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔ اپارتھائیڈ ریاستوں کے ساتھ تعاون کرکے اسرائیل لوگوں کو جانوروں کی طرح تہہ تیغ کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل اپنی یاداشت بحال کرتے ہوئے فلسطینی قوم کے ساتھ افریقی اقوام پر بھی سوار ہو، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا میں اپنے گھناؤنے کھیل کو دہرائے۔ بلا شبہ طویل ترین انسانی تحریک کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔

لینک کوتاه:

کپی شد