جمعه 15/نوامبر/2024

نیلسن منڈیلا اور فلسطین

پیر 30-دسمبر-2013

فلسطینیوں کے لیے سال 2013 بھی مجموعی طور پر کوئی خاص مثبت تبدیلی نہیں لاسکا۔ کچھ دینے کے بجائے یہ سال فلسطینیوں کو ایک ایسے ہمدرد اور حامی سے محروم کرگیا کہ جو خود نسل پرستی کے خلاف اپنی جدوجہد کی وجہ سے عالمی سطح پر تسلیم شدہ شخص تھا۔ جنوبی افریقہ کو سفید فام نسل پرست سامراج کے تسلط سے آزادی دلانے والے نیلسن منڈیلا نے 1997 میںفلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک تقریب میں خطاب کے دوران یہ تاریخی جملہ کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری آزادی فلسطینیوں کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے۔ اس تاریخی جملے نے انھیں فلسطینیوںمیں پہلے سے زیادہ مقبول بنادیا۔

جب یہ سطور سپرد قرطاس کی جارہی ہیں، دنیا میں ایک جھوٹی خبر پھیلائی جاچکی ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے نیلسن منڈیلا کو ایتھوپیا میں فوجی تربیت دی۔ نیلسن منڈیلا فائونڈیشن نے اس خبر کی تردید جاری کردی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ منڈیلا کے صہیونیوں سے روابط نہیں تھے۔ خود انھوں نے ریوونیا مقدمے میں اپنے دفاع کے آغاز میں جو بیان جاری کیا اس میں آرتھر گولڈ ریچ کا تذکرہ کیا تھا جو صہیونی دہشت گرد گروہ ہگانہ کے مسلح ونگ پامیچ کا دہشت گرد تھا اور جس نے انھیں چھپنے کے لیے خفیہ پناہ گاہ بھی فراہم کی تھی۔اس آدمی سے ان کے تعلقات 1958 سے تھے لیکن انھوں نے ان تعلقات کے 39 برس بعد بھی فلسطینیوں کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا اس سے ثابت ہوا کہ وہ صہیونیت کی نسل پرستی سے بیزار تھے۔

یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جس بیان میں انھوں نے گولڈ ریچ سے تعلقات کا انکشاف کیا اسی میں یہ انکشاف بھی کردیا تھا کہ وہ الجزائر کے انقلابی رہنما بن بیلا کی دعوت پر مراکش کے شمال مشرقی شہر وجدۃ میں الجزائر آرمی آف نیشنل لبریشن کے ہیڈ کوارٹر گئے تھے۔ اسی جگہ انھوں نے ابتدائی فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ الجزائر کے پہاڑی علاقوں میں بھی انھیں فوجی تربیت دی گئی تھی۔ جب انھیں قید سے آزادی ملی تو سب سے پہلے انھوں نے الجزائر کا دورہ کیا تھا۔بن بیلا سے اور ان کی تحریک سے وہ بہت متاثر تھے۔ افریقن نیشنل کانگریس کے مسلح ونگ ام کھونٹو کے جوانوں نے ایتھوپیا سے بھی ٹریننگ حاصل کی تھی لیکن اس میں موساد کا کوئی کردار نہیں تھا۔

بن بیلا کا الجزائر خود فلسطینی تحریک آزادی کا ایسا طرفدار ملک بن گیا تھا جس نے اقوام متحدہ میں یاسر عرفات کے خطاب کی راہ ہموار کی تھی۔فلسطینیوں کی نمایندہ تنظیم کو وہاں مبصر کا درجہ بھی الجزائر کی وجہ سے ملا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کی فوجی تربیت میں بھی انھی کا کردار تھا۔ افریقن نیشنل کانگریس کی ویب سائٹ پر ان کی بائیو گرافی میں بھی الجزائر میں ان کی فوجی تربیت کا ذکر ہے ۔ الجزائر کے وزیر خارجہ  رمانتے لاممرا نے ان کی رحلت کے بعد صحافیوں کو ان کی پہلی فوجی تربیت کے بارے میں آن دی ریکارڈ کئی باتیں بتائیں۔ان کا کہنا تھا کہ  اسلحے اور پاسپورٹوں سمیت ہر اس چیز سے مدد کی جو نسل پرست حکومت کے خلاف افریقن نیشنل کانگریس کو کامیاب کرسکتی تھی۔

تاریخی حقائق اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نیلسن منڈیلاصہیونیوں کی نسبت فلسطینیوںکے زیادہ حامی تھے البتہ وہ بھی سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی طرح اسرائیل کی نسل پرستی کے نقاد تھے۔ ان کا اپنا ایک نظریہ تھا کہ جس طرح جنوبی افریقہ کے نسل پرستوں کے ساتھ انھوںنے امن کے مذاکرات کیے اسی طرح فلسطینیوں کو بھی مذاکرات کا سہارا لینا چاہیے۔ لیکن صہیونی ریاست کے بارے میں ان کے نسبتاً کم سخت ریمارکس کا سبب سعودی شہزادے بندر بن سلطان بھی تھے ۔

یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نیلسن منڈیلاسے زیادہ آج کا جنوبی افریقہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف زیادہ سخت موقف رکھتا ہے۔ آج کے جنوبی افریقہ میں پڑھا لکھا طبقہ، دانشور اور حکومت بھی اسرائیل کی نسل پرستی کی وجہ سے اس کے بائیکاٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے 1995 میں فلسطین اور فلسطینی حکومت کو تسلیم کیا تھااور تل ابیب کا دورہ 1997 میں کیا تھا۔ 2004 میں صہیونی وزیر اعظم نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیاتھا۔ نسل پرستی کے خاتمے کے بعد کے جنوبی افریقہ میں یہ پہلا اسرائیلی وزیر اعظم تھا جس نے منڈیلا کے ملک کا دورہ کیا تھا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی ریاست کو جنوبی افریقہ میں پذیرائی حاصل نہیں تھی۔

مسئلہ فلسطین پر آخری عمر میں نیلسن منڈیلا کی نرم روی  اور صہیونی گولڈ ریچ سے مراسم کے باوجود فلسطینیوںنے ان ناخوشگوار باتوں کو فراموش کردیا۔ وہ نیلسن منڈیلا کو ایک ہیرو کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے انتقال پر غمزدہ دکھائی دیتے ہیں۔فلسطین میں ان کی رحلت پر صف ماتم بچھ گئی کیونکہ بہرحال یہ انھی کے الفاظ تھے کہ جنوبی افریقہ کی آزادی فلسطینیوں کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے۔فلسطینی ان کے ان الفاظ سے مانوس ہوگئے تھے۔

لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ سال 2013  فلسطینیوں کو منڈیلا کی جدائی کا داغ دے کر رخصت ہوا ہے۔ فلسطینیوںکے حق میں بولنے والی ایک آواز خاموش ہوگئی۔سال 2014 کا آغازنیلسن منڈیلا کے بغیر ہورہاہے۔ دیکھا جائے تو کسی بھی مسلمان، عرب اور مستضعف ملک کی آزادی فلسطینیوں کی آزادی کے بغیر مکمل نہیں ہے۔ فلسطین کی مکمل آزادی ایک خواب ہے اور فلسطینیوں کو نہیں معلوم کہ یہ سال ان کے خواب کی تعبیر کے ساتھ ختم ہوگا یا ان کا صبر آزما انتظار جاری رہے گا؟
 
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

لینک کوتاه:

کپی شد