پنج شنبه 01/می/2025

نفرت ہمیشہ کیلئے یہودیوں کا نصیب ہے

اتوار 10-جنوری-2010

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام کو منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا-
 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے عرب اقوام نے جنم لیا اور دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کیف رزند ارجمند جو اللہ تعالی کے بڑے ہی برگزیدہ نبی ہوئے اور قرآن مجید میں ان کا متعدد بار تذکرہ کیا ان کا نام حضرت یعقوب علیہ السلام تھا- انہیں اللہ تعالی نے ’’اسرائیل‘‘ کا لقب عطا کیا جو عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ’’اللہ تعالی کا بندہ‘‘ ہے- عربی میں ’’بن‘‘ بیٹے کو کہتے ہیں اور ’’بنی‘‘ اس کی جمع ہے-
 
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن سے ان کی نسل چلی ان بیٹوں کو اور ان کی نسل کو قرآن نے ’’بنی اسرائیل‘‘ یعنی اولاد یعقوب علیہ السلام سے یاد کیا ہے- ’’یہودہ‘‘ نامی لڑکا حضرت یعقوب علیہ السلام کا چوتھا بیٹا تھا جس کے ہاں اولاد نرینہ بہت تھی، بنی اسرائیل کا ہر دوسرا تیسرا نوجوان ’’یہودہ‘‘ کا بیٹا یا پوتا ہوتا تھا جس وجہ سے اس قبیلے کو ’’یہودی‘‘ کہا جانے لگا جو آج تک مروج ہے-
حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ اقتدار میں یہ قبیلہ اپنے آبائی علاقے سے مصر منتقل ہوا- حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد چار سو تیس سالوں تک ان پر تاریخ کی بدترین غلامی مسلط رہی اور مصر کے مقامی لوگوں نے انہیں اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا، ان کا ہر حکمران فرعون کہلاتا تھا-
 
فرعونوں اور فرعونیوں نے بنی اسرائیل پر بے پناہ تشدد کیا یہاں تک کہ حضرت موسی کی قیادت میں ان لوگوں نے مصر سے ہجرت کی اور صحرائے سینا میں آن وارد ہوئے- اللہ تعالی کے نبی حضرت موسی علیہ السلام نے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا، قتل سے انکار پر چالیس سال تک صحرا نوردی ان کا مقدر بنی رہی یہاں تک کہ وہ ساری نسل ختم ہوگئی جس نے قتال سے انکار کیا گیا تھا- نئی نسل نے طالوت کی قیادت میں قتال کیا اور انہیں تمدنی زندگی نصیب ہوئی-
طالوت کی فوج میں حضرت داؤد علیہ السلام بھی شامل تھے- طالوت کی نرینہ اولاد نہ تھی اس نے وعدہ کیا جو اس کے دشمن ’’جالوت‘‘ کو قتل کرے گا وہ اپنی بیٹی اس سے بیاہ دے گا- چنانچہ یہ سعادت حضرت داؤد علیہ السلام کے حصے میں آئی- طالوت کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام حکمران بنے اور اپنے زمانے کے بڑے ہی شاندار حکمران بنے، لوہے کی ٹیکنالوجی کا آغاز آپ کے زمانے میں ہی ہوا- آپ کا اقتدار، فوج، خزانہ اور رعب دات کا قرآن نے بھی ذکر کیا ہے- کم و بیش تین براعظموں پر آپ کی حکومت تھی اور آپ پر آسمانی کتاب ’’زبور‘‘ بھی نازل ہوئی-
 
آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بھی بنی اسرائیل میں سے تھے جنہیں اللہ تعالی نے دیگر مخلوقات پر بھی اقتدار عطا کیا تھا- حضرت سلیمان علیہ السلام کا بیٹا ’’رجعام‘‘ جب تخت نشین ہوا تو سلطنت اس کے قابو میں نہ آسکی اور ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی- اس زمانے میں ایک حصے کا نام اسرائیل اور دوسرے کا نام یہودیہ تھا، ان کے درمیان اگرچہ لڑائیاں بھی رہیں لیکن جلد ہی صلح صفائی ہوگئی-

یہودی آج تک یہ دعوی کرتے ہیں کہ مشرق وسطی پر انکا حق ہے اور اس کی وجہ ان کے نزدیک کچھ یوں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مشرق وسطی کا علاقہ دیا تھا، ان کے ایک بیٹے سے یہودی ہیں اور دوسرے سے عرب اقوام – یہودی یہ کہتے ہیں کہ اس بنیاد پر آدھے مشرق وسطی پر عربوں کا حق ہے اور بقیہ آدھے پر یہود کا- لیکن یہ مؤقف اس لیے غلط ہے کہ اللہ تعالی نے خلاف ارضی کسی نسلی تفوق کی بنیاد پر عطا نہیں کی تھی، یہ خالصتاً تقوی پر بنیاد کرتی ہے، اگر یہود اتنے ہی عزیز ہوتے تو ختم نبوت آل اسماعیل میں کیوں واقع ہوتی اور قرآن مجید جیسی شاندار کتاب مکہ اور مدینہ کی بجائے فلسطین و یروشلم میں کیوں نہ نازل ہوتی؟ یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ اللہ تعالی کو نسلوں اور علاقوں سے زیادہ متقی و پرہیزگار لوگوں سے پیار ہے اور یہی لوگ ہی اللہ تعالی کے برگزیدہ ہیں خواہ کسی نسل، رنگ اور علاقے سے تعلق رکھتے ہیں-

یہود آج تک اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے سچے نبی ہیں، قرآن نے ان کی اس بات پر یوں تبصرہ کیا ہے کہ ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ (اہل کتاب) آپ کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے سگے بیٹوں کو‘‘ لیکن محض نسلی تفرق کی بنیاد پر جانتے ہوئے بھی ماننے سے گریزاں ہیں-یہودیوں کے تین قبائل محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں ہی یثرب کے مقام پر آکر آباد ہوئے تھے کیونکہ گزشتہ کتب میں یہی لکھا تھا کہ یثرب کے مقام پر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ریاست بنائیں گے- لیکن جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آن پہنچے تو یہود محض اس وجہ سے ان پر ایمان نہ لائے کہ اللہ تعالی نے ان کی بعثت بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسمائیل میں کیوں کردی، حالانکہ یہ خالصتاً خدائی فیصلہ تھا-

اگرچہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو حجاز میں رہنے کی اجازت دے دی تھی لیکن اس بدعہد قوم کی مسلسل ریشہ دوانیوں کے باعث اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے نکال باہر کیا لیکن وہاں بھی ان کی سازشیں کم نہ ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وصیت فرما گئے کہ ان یہود کو جزیرة العرب سے نکال دیا جائے- چنانچہ حضرت عمر نے انہیں وہاں سے نکال دیا تھا- اس سے قبل بھی کم و بیش ایک صدی قبل مسیح سے یہ لوگ اپنے وطن سے دور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے چلے آرہے ہیں اور یوں گزشتہ صدی کے نصف اول تک یہ لوگ دو ہزار سال سے غریب الدیار تھے- گزشتہ صدی ہی میں یورپ کے حکمرانوں نے ان کا بے دریغ قتل عام کیا جس کے باعث ان کی نسل ختم ہوتی نظر آرہی تھی لیکن اللہ تعالی نے عربت کے اس نشان کو شاید قیامت تک باقی رکھنا ہے، چنانچہ نہ جانے کن کن مصالح کے تحت قدرت نے انہیں عارضی طور پر اسرائیل کی پناہ گاہ عطا کی تاکہ ان کی نسل ختم ہونے سے بچ جائے-

اسرائیل کا قیام صریحاً ایک ناجائز اور زیادتی پر مبنی عالمی پردھان منتریوں کا مکروہ فعل ہے- یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی ہمارے مکان کے ایک حصے پر زبردستی قبضہ جمالے اور پھر کہے کہ مجھے اپنا پڑوسی مان لو اور میرے حقوق ادا کرو- گزشتہ صدی کے اوائل میں جب سلطنت عثمانیہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی تو یہودیوں نے سلطان کو اس کا سارا قرضہ اتارنے اور اس سے مزید تر رقم دینے کی پیشکش کی صرف اس شرط پر کہ انہیں فلسطین میں رہنے کی جگہ دے دی جائے- سلطان کا عثمانی خون جوش مار گیا، اس نے اپنا زوال قبول کرلیا لیکن یہ ذلت آمیز رقم لینے سے انکار کردیا-

یورپ نے ہمیشہ کی طرح بڑی آسانی سے مسلمانوں کے اندر سے ہی ایسے غدار تلاش کرلیے جو ان کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار تھے اور دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد فلسطین کا ایک علاقہ یہودیوں کو دے دیا گیا- یہ قوم نہ صرف امت مسلمہ کے لیے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سلگتا ہوا مسلمہ اور رستہ ہوا زخم ہے- اسرائیل نے مشرق وسطی سمیت پوری دنیا میں اپنے جاسوسی اور دہشت گردی کے مراکز قائم کررکھے ہیں، پوری دنیا کی معیشت اس سختی کے ساتھ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی معجزہ یا کوئی خونریز انقلاب ہی اس عالمی معیشت کو پنچۂ یہود سے آزاد کراسکتا ہے-
 
کم و بیش پوری دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ان کا مقروض اور پوری دنیا کے باسی کسی نہ کسی طرح اس سود خور برادری کے ہاتھوں مقروض ہیں- عالمی میڈیا بھی کسی طرح بھی ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں اور ایک سوچے سمجھے طریقے سے فرضی خبریں اور جھوٹی افواہیں اس سرعت کے ساتھ پوری دنیا میں چند گھنٹوں کے اندر اندر پھیلا دی جاتی ہیں کہ حقیقت ان میں دور دور تک نظر ہی نہیں آتی-

فلسطینیوں کو اللہ تعالی ہمت دے کہ وہ آج تک ان کا مقابلہ کررہے ہیں، ان کی چوتھی نسل ہے کہ یہود کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہیں، آئے روز یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ فلسطینی نوجوان پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں، اسرائیلی طیارے جب چاہیں فلسطینیوں کی بستیوں پر اندھا دھند بمباری کرتے ہیں، اسرائیلی فوج آئے دن فلسطینیوں پر سیدھی گولیاں چلاتی ہے لیکن گزشتہ پون صدی کی قربانیاں فلسطینیوں کی ہمت و استقلال اور استقامت میں کوئی لرزش پیدا نہیں کرسکی- اگرچہ فلسطینیوں کے ایک گروہ نے مغرب کے رنگ میں رنگ کر یہودیوں سے مذاکرات کے ذریعے امن کی بھیک مانگنا شروع کررکھی ہے، امید ہے کہ جلد ہی ان کو احساس ہو جائے گا کہ یہود کو برابری کی سطح پر لانا کتنا نقصان دہ ہے کیونکہ اللہ تعالی نے واضح طور پر فیصلہ دے دیا ہے کہ یہود و نصاری تمہارے دوست نہیں ہوسکتے، اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف قتال کیا ہے اور قرآن نے حکم دیا کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ یہ چھوٹے ہو کر رہیں-

فلسطینیوں کا پوری انسانیت پر عامل طور اور امت مسلمہ پر خاص طور احسان ہے کہ وہ عالمی امن کے دشمنوں کے ساتھ ایک طویل اور تاریخ ساز جنگ لڑ رہے ہیں- پوری دنیا بھی ان فلسطینیوں کے ہاتھ مضبوط کرسکتی ہے اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعے بھی لیکن یہ شاید مشکل ہو تب یہود کی مصنوعات کے استعمال کو ختم کر کے یہود کا قلع قمع آسانی سے کیا جاسکتا ہے- اللہ کرے کہ وہ دن آئے کہ امت مسلمہ کے حکمران امت کے دوست اور دشمن کی پہچان کریں اور اپنے اقتدار کی بجائے امت کے وسیع تر مفاد میں سخت سے سخت فیصلے کر جائیں اگرچہ انہیں کیسی ہی قربانی دینی پڑے تاکہ عالم انسانیت ان استحصالی کرداروں سے نجات پا سکے-

بشکریہ اوصاف

 

لینک کوتاه:

کپی شد