چهارشنبه 30/آوریل/2025

نئی سرد جنگ اور نیا اسرائیل

جمعرات 28-نومبر-2013

ایک زمانے میں سرد جنگ کا بہت غلغلہ تھا۔ اس جنگ کے متحارب فریق یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک آف رشیا اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ بتائے جاتے رہے۔ بظاہر یہ دونوں متحارب فریق تھے لیکن اندر خانہ ایک تھے۔ ان کے عزائم، مقاصد، ترجیحات اور اہداف عشروں تک یکساں رہے۔ دونوں میں سے ہر ایک’’اکلوتا عالمی استعمار‘‘ اور ’’بلاشرکت غیرے سامراج‘‘ بننے کا متمنی رہا، دونوں جنم جنم کے بھوکے بھیڑیوں کی طرح کمزور اور غریب ممالک کو تر نوالہ سمجھ کر ان پر پل پڑتے، دونوں جوع المال اور جوع الارض کے کہنہ و دیرینہ عارضوں کے مریض تھے، دونوں غریب مار مہم میں ہمیشہ پیش پیش رہے، دونوں صیہونی مفادات کی پاسبانی اور محافظت کے لئے شیر وشکر نظر آتے، دونوں کو جب بھی موقع ملا، عالمِ اسلام کی پشت میں خنجر گھونپنے سے دریغ نہ کیا، دونوں کا بڑا مقصد عالم اسلام کے ہر اس ملک کی جغرافیائی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اورقومی اتحاد کو سبوتاژ کرنا رہا، جس کے بارے انہیں ذرا سا بھی شبہ پڑتا کہ ان کے ہاں اسلام کی روح عسکریت ابھی زندہ ہے۔

 رازہائے دورنِ مے خانہ سے آگاہ رندانِ حقیقت شناس جانتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی شہ رگ پر اسرائیل سرطان کے پھوڑے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پھوڑے کی تولید و تخلیق امریکہ و روس دونوں کا ’’جائنٹ ونچر‘‘تھا۔ 1948ء میں ارضِ فلسطین پر ان دونوں سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی اور مغربی ممالک کی کالعدم استعماری قوتوں کی پشتیبانی نے اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو جنم دیا۔’’ عالمی انصاف ‘‘کے یہ دونوں علمبردار اس موقع پر اِس نا انصافی کے سب سے بڑے موید تھے۔نا انصافی کی کوکھ سے جنم لینے والی اس ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے دونوں ایک دوسرے سے گوئے سبقت لیجانے کیلئے بے تاب و بے قرار دکھائی دیئے۔ یہودیوں کا ہزاروں سالہ پرانا پیاسا خواب جب تعبیر کے دریا سے ہم آغوش ہوا تو سوویت روس نے اسرائیل کو افرادی قوت،انفراسٹرکچر اوراسلحی و عسکری امداد فراہم جبکہ امریکہ نے اس کی شہری ترقی، زرعی آبادکاری، معاشی استحکام ،دفاعی مضبوطی ، ریاستی سلامتی اور جغرافیائی توسیع کیلئے ہمہ جہتی امداد کے در وا رکھے۔ مشرقِ وسطیٰ کے سادہ لوح عرب ممالک کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے سوویت روس اور امریکہ ایک دوسرے کو للکارتے رہے۔ 60ء کے عشرے کے آخری سالوں میں اسرائیل ان دونوں سامراجی قوتوں کی شہ پر عرب ممالک پر چڑھ دوڑا ۔ اس جنگ کے دوران اگرعرب ممالک کی شہری آبادیوں اور عسکری تنصیبات پر فضائی حملے کرنے والے طیارے’’ میڈان یو ایس اے‘‘ تھے تو ان پر کارپٹ بمبنگ کرنیوالے پائلٹ روسی۔ بظاہر سوویت روس مصر، شام، عراق اور لیبیا کو حلیف ہونے کا تاثر دیتا رہا لیکن بباطن اسرائیل کا مربی و محسن رہا۔

20ویں صدی کے پانچویں عشرے سے ساتویں عشرے کے آخری سالوں تک مشرق وسطیٰ کے عوام سوویت روس کے فریب اور جھانسے کا شکار رہے ۔ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کی ہمنوائی کی آڑ میں سوویت روس ان ممالک میں اسلامی قوتوں اور اسلامی تحریکوں کیخلاف وہاں کے گماشتہ حکمرانوں کو بطور ایک کاری ہتھیار استعمال کرتا رہا۔ مصر، شام اور عراق میں سوویت روس کے گماشتہ حکمران الاخوان المسلمون اور حزب التحریر ایسی احیائے اسلام کی اسلامی تحریکوں کا قلع قمع کر کے اپنے تئیں یہ سمجھتے رہے کہ وہ اپنی حکومتوں کے قلعے مضبوط کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں مصر کے فوجی آمر جمال عبدالناصر اور شام کے خوں آشام ڈکٹیٹرحافظ الاسد کا کردار انتہائی ظالمانہ اور وحشیانہ رہا۔ ان رسوائے زمانہ ڈکٹیٹروں کی جانب سے جب الاخوان کے خلاف کامیاب کارروائی انجام کو پہنچی تو جہاں ایک طرف کریملن میں مسرت کی شہنائیاں بجائی گئیں وہاں دوسری طرف وائٹ ہاؤس میں بھی شادمانی کے گٹار پر خوشی کے نغمے الاپے گئے۔ جمال عبدالناصر اور حافظ الاسد کے اس گھناؤنے اور بھیانک جرم نے عالم اسلام کے حقائق شناس شہریوں کی نگاہ میں ان کی شخصیت کے گوارا اور زیبا خدوخال کو بھی مسخ کر کے رکھ دیا ۔۔۔وہ اسلامی اقدار و شعائر کی ترویج،شہری آزادیوں کی بحالی،بنیادی انسانی حقوق کی سرافرازی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی بالادستی کی جنگ لڑنے والی نظریاتی اسلامی تنظیموں کے خلاف فسطائیانہ اور نازیانہ مظالم کی نئی تاریخ بیگناہوں کے خون سے رقم کرتے رہے۔۔۔ڈکٹیٹر اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے سامراجی طاقتوں کے ایماء پر اپنے ممالک کی جغرافیائی و نظریاتی بنیادوں کے انہدام سے بھی گریز نہیں کیا کرتے۔

 دوسری عالمگیر جنگ کے بعد امریکی و مغربی میڈیا نے سرد جنگ کا ڈرامہ رچایا۔ دنیا بھر کے بھولے بھالے شہریوں کو گمراہ اور بدراہ کرنے کیلئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کیخلاف پراپیگنڈہ کے سیلاب کی یلغار کی گئی۔ احوال و ظروف اور آثار و قرائن نے اب اس امر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ یہ سب نوراکشتی ، کیمرا ٹرِک، آئی واش ، سموک بمبنگ اور شوٹنگ تھی۔ اگر سوویت روس امریکی عزائم اور ترجیحات کا حقیقتاً مخالف ہوتا تو قیام اسرائیل کے منصوبے کی کبھی حمایت نہ کرتا؟

 امریکہ اور سوویت روس دونوں پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتے تھے، دونوں پہلے دن ہی سے قیام پاکستان کے مخالف تھے لیکن اپنے مخصوص مصالح، معروضی حالات اورتنائجیت پسندی کے پیش نظر وہ بیسویں صدی کے چوتھے عشرے کے آخری سالوں میں اس کا کھل کر اظہار نہ کر سکے۔ مسئلہ کشمیر کو دونوں نے ہر دور میں سردخانے میں ڈالنے کیلئے مذموم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے فوری بعد پاکستان کی پہلی کابینہ کا وزیر خارجہ چودھری سرظفراللہ نامی ایک ایسے شخص کو بنایا گیا جو برطانیہ کے ایک خودکاشتہ زہریلے پودے کا اقراری ثمرہ تھا۔ پاکستانی خارجہ پالیسی کی عمارت کا سنگ بنیاد ہی اس شخص نے ٹیڑھا رکھا۔ آنجہانی نے اوائل ہی میں پاکستان کو امریکہ کا تابع مہمل بنا دیا۔ پاکستان کے برعکس بھارت کی خارجہ پالیسی متوازن رہی، وہاں کے قوم پرست حکمرانوں نے سرد جنگ کی اس نوراکشتی میں سوویت روس کا ساتھ دینے کی پالیسی اپنائی۔ پاکستان امریکہ کی کٹھ پتلی بنا تو بھارت سوویت روس کا بغل بچہ۔ پاکستانی وزارت خارجہ میں موجود سر ظفراللہ کے مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والے عناصر نے66 برسوں تک پاکستان کو امریکی مفادات کی چراگاہ بنائے رکھا۔ وزارت خارجہ میں موجود قادیانی لابی کے ان چرواہوں کے آباؤ اجداد برطانوی سامراج کے غلبے کے دور میں ان کے مفاداتی سوروں کے ریوڑ ہانکا کرتے تھے اور آج یہ امریکی استعمار کے چاکر بن کر ان کے تزویراتی ’’گھوڑوں‘‘ اور ’’گدھوں‘‘ کی مالش اور مساج کر رہے ہیں۔
 پاکستان کے امریکہ نواز حکمران مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہر دور میں عوام کے ساتھ ’’ہاتھ ‘‘کرتے رہے۔

5ء میں اعلان تاشقند کے موقع پر ان حکمرانوں نے اس مسئلے کو نہلا دھلا کر تغافل کے ڈیڈ ہاؤس میں رکھ دیا۔ 73ء میں شملہ معاہدہ کے موقع پر اس ’’یخ بستہ مردے‘‘ کو احترام سے فریزر سے نکالا اور اٹھا کر تابوت میں محفوظ کر دیا۔ 99ء میں اعلان لاہور کے موقع پر اس تابوت کے ڈھکن بند کر دیئے گئے، 2002ء کی الماتی کانفرنس کے موقع پر الماتے ایکٹ پر دستخط کر کے مسئلہ کشمیر کے تابوت پر آخری میخیں ٹھونک دی گئیں۔ روس اور امریکہ کی ’’مہربانی‘‘ سے اب اس ’’ممی‘‘ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تاریخ کے ’’الاہرام‘‘ کی رونق بنا دیا گیا ہے۔۔۔سرد جنگ اب ایک نیا موڑ لے چکی ہے۔ امریکہ کا فطری حریف سوویت روس تو کب کا مر کھپ چکا:
لگا کے آگ اسے کارواں روانہ ہوا

 اب امریکہ کو ایک نئے حریف کا سامنا ہے۔ یہ نوزائیدہ حریف یورپی یونین ہے۔ یورپی یونین نے اپنے نمائندے اور استعارے کے طور پر برطانیہ کو آگے کر رکھا ہے۔ اب اس خطے میں برطانوی اور امریکی مفادات کا ٹکراؤ ناگزیر ہو چکا ہے۔ ماضی کے امریکی حریف سوویت روس کی طرح اس کا نومولود حریف یورپی یونین بھی اسلام دشمنی اور مسلم کشی کے حوالے سے یکساں ایجنڈا اور عزائم رکھتے ہیں۔ ماضی کے امریکی حریف سوویت روس نے مشرق وسطیٰ میں ’’عربی اسرائیل‘‘ کے قیام میں مدد دی تھی، اب اس کا نیا تازہ دم حریف یورپی یونین اسے ’’عجمی اسرائیل‘‘ کے قیام میں مدد دینے کیلئے جملہ توانائیوں کو بروئے کار لا رہا ہے۔ سوویت روس کی طرح یورپی یونین بھی اس ضمن میں اپنا وزن امریکی پلڑے میں ڈال رہی ہے۔ عجمی اسرائیل کے قیام کیلئے فی الحال افغانستان، ازبکستان اور خود مختار کشمیر کے نام زیر غور ہیں۔ دیکھئے! ’’قرعۂ فال‘‘ کس کے نام نکلتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا ’’عربی اسرائیل‘‘ صیہونی اسرائیل ہے تو اس خطے کا عجمی اسرائیل ’’صلیبی اسرائیل‘‘ ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ "نئی بات”

لینک کوتاه:

کپی شد