یہودی ہونے کے باوجود اس نے جس طریقے سے اسرائیلی حملوں کو یہودیوں کی نازیوں کے ہاتھوں ہونے والی بدترین نسل کشی سے موازنہ کیا ہے، وہ ہمارے جیسے لوگوں کیلئے ایک خوشگوار حیرت کا سبب بنا ہے ۔ اپنی تقریر میں جیرالڈ نے بڑے جذباتی انداز میں پورے ایوان کو بتایا کہ شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا کہ ہٹلر نے جب یہودیوں کا قتل عام شروع کیا تو ایک رات چند فوجی ان کے گھر آئے۔ اس کی بیمار دادی بستر پر پڑی تھی۔
ایک جرمن فوجی نے اسے دیکھا، اپنی گن اٹھائی اور اسے گولی مار دی۔ جیرالڈ بولتا رہا کہ کیا میری دادی جرمن فوجی کے ہاتھوں اس لیے مری تھی کہ اس کی نسلوں کے وارث ایک دن ہٹلر کے فوجیوں کی طرح فلسطینیوں کے نہتے اور بے بس عورتوں اور بچوں کو پوری دنیا کے سامنے قتل کرتے رہیں۔ جیرالڈ کے بقول جو کچھ یہودیوں کے ساتھ ہٹلر نے کیا تھا وہی آج یہودی فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر یہ فلسطینی جنہیں اسرائیلی فوجی قتل کر رہے ہیں وہ دہشتگرد ہیں تو پھر ہٹلر کے ہاتھوں مارے جانے والے تمام یہودی بھی بڑی آسانی سے دہشتگرد قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ جیرالڈ نے پوری برطانوی پارلیمنٹ سے یہ مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اسرائیل پر پابندیاں لگائی جائیں اور اسے اسلحے کی فراہمی روکی جائے۔
جب سے میں نے جیرالڈ کوفمین کی یہ تقریر پڑھی ہے مجھے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے کچھ سال قبل دنیا کے مایہ ناز یہودی اسکالر نوم چامسکی سے لیا گیا اپنا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے میں ان سے ملا تو میں نے پہلا سوال یہی کیا کہ کیا آپ کو علم ہے کہ اتنے سارے پاکستانی مسلمان ایک یہودی دانشور کو سننے کیلئے کیوں آئے ہیں۔
انہوں نے بڑی حیرانی سے مجھے دیکھا اور پوچھا کہ وہ کیوں آئے ہیں؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ دراصل ہمارے جیسے مسلمانوں کیلئے یہ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ آپ ایک یہودی ہوکر بھی اسرائیل کے خلاف گفتگو کرتے ہیں۔ اس لیے آپ کی یہ تمام باتیں اس مجمع کیلئے بڑی سحر انگیز ہیں کیونکہ ان بیچاروں کو سوچنے، سمجھنے اور آزادی سے بات کرنے کی وہ آزادی نہیں ہے جو آپ کو امریکہ میں میسر ہے۔
جیرالڈ کی تقریر پڑھتے ہوئے مجھے یہ خیال آ رہا ہے کہ کیا ہم مسلمانوں نے حضور پاک کی سنت سے کچھ نہیں سیکھا اور ہم جذباتیت کے نام پر اپنے بچوں اور عورتوں کو ایک طاقتور دشمن کے ہاتھوں بڑی بے دردی سے قتل کراتے جا رہے ہیں۔ حماس سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ نے ایسا موقع آنے ہی کیوں دیا کہ آج فلسطینی بچے اور عورتیں مارے جا رہے ہیں اور وہ اسی بات پر خوش ہیں کہ اس قتل عام کی تصویریں دنیا بھر میں ٹیلی ویژن چینلز پر دکھائی جا رہی ہیں۔ کسی کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ چاہے فلسطینیوں کی پوری نسل ماری جائے۔ حماس کے لیڈر اس بات پر بہت خوش ہیں کہ انہوں نے اسرائیل کو ایک دفعہ پھر ظالم ثابت کر دیا ہے۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت انسانی جان اور اس کی حفاظت کو قرار دیا گیا ہے حتیٰ کہ یہاں تک اجازت ہے کہ جان بچانے کیلئے اگر سور کا گوشت بھی کھانا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔
کیا حضور پاک کی سنت پر چلتے ہوئے یہ حماس کی ذمہ داری نہیں بنتی تھی کہ ان نہتے اور کمزور فلسطینیوں کو اتنے بڑے قتل عام سے بچایا جاتا۔ انہیں ایک ایسی جنگ سے ہر ممکن کوشش کرکے دور رکھا جاتا جس کے نتیجے کا انہیں علم تھا۔ کیا حماس کے لیڈر ان کے سب سے زیادہ ہمدرد ایرانی لیڈروں سے بھی یہ دانشمندی نہیں سیکھ سکتے تھے کہ کیسے تہران نے جارج بش کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں اپنے آپ کو ایک ایسی جنگ سے بچایا جو انہیں ایک تباہی سے دوچار کر سکتی تھی۔ ایرانیوں نے یہ ثابت کیا کہ ماڈرن ورلڈ میں ان سے بہتر کوئی ڈپلومیسی نہیں کر سکتا کیونکہ لیڈروں کا کام اپنی قوم کے بچوں اور عورتوں کو جنگ کی تباہیوں سے بچانا ہوتا ہے نہ کہ فلسطینی لیڈروں کی طرح بغیر سوچے سمجھے اسرائیل پر برسائے جانے والے ناکارہ راکٹ حملوں کے سہارے اپنی ہی عورتیں اور بچے مروانا۔
مسلم اُمہ کی بے حسی پر ماتم کرنے والوں کو پہلے اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ آخر مغربی کنارے پر رہنے والے فلسطینیوں نے غزہ پر ہونے والے حملے کے جواب میں اپنی طرف سے اسرائیل کے اندر راکٹ کیوں نہیں برسائے اور محض چند مظاہروں کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔ دنیا اور مسلمان ملکوں سے گلہ تو بعد میں بنتا ہے پہلے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آج حماس کو تو ویسٹ بنک کے کنارے رہنے والے فلسطینیوں کی بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔
آج پوری دنیا میں حماس اکیلی ہوکر رہ گئی ہے کہ کوئی ایک ملک بھی حماس کیلئے یہ گارنٹی دینے کو تیار نہیں ہے کہ اگر اسرائیل اور حماس میں سیز فائر ہوتا ہے تو اس کا احترام کیا جائے گا۔ حماس نے پچھلے دس سالوں میں ہزاروں راکٹ اسرائیل پر برسا کر صرف بیس اسرائیلیوں کو مارا ہے جبکہ اسرائیلیوں نے ایک ہی ہلے میں ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی مرد، عورتیں اور بچے قتل کر دیئے ہیں اور ہم بڑی بے بسی سے اپنی ٹیلی ویژن اسکرین پر ان معصوم بچوں کا قتل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ مجھ سمیت سب مسلمان حماس پر تنقید کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ ہمارے ہاں خود احتسابی کا رواج مسلمانوں کی تاریخ میں تو کم از کم نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی جذبات کی رو میں آ کر وہی کہتا ہے جس سے سب یہی سمجھیں کہ یہ اچھا مسلمان ہے اور اسے فلسطینی بھائیوں کا بہت درد ہے۔ کیا یہ پوچھنے کی جرأت کی جا سکتی ہے کہ حماس کو فلسطینیوں نے اس لیے ووٹ دیئے تھے کہ وہ ایک دن ان پر ایک ایسی جنگ مسلط کرائیں جسے وہ کبھی نہیں جیت سکتے تھے۔
کیا حماس کو یہ نہیں چاہیے تھا کہ وہ اپنی نسلوں کو ایک ایسا مستقبل دیتی کہ اگلے پچاس برسوں بعد بھی فسلطینی بچے ڈاکٹر، انجینئر، خلاباز، نیوکلیئر سائنٹسٹ، پائلٹ اور ماہر معاشیات بن کر نہ صرف فلسطینی ریاست کو سپر پاور بناتے بلکہ ہمارے جیسے پسماندہ مسلمان ملکوں کو بھی ایسی ٹیکنالوجی فراہم کرتے کہ امریکہ کی بجائے ہم سپر پاور ہوتے۔ یہ کا م ناممکن نہیں تھا کیونکہ یہ یہودیوں نے کر دکھایا کہ نازیوں کے ہاتھوں قتل عام کے پچاس سال بعد انہوں نے وہ ترقی کی اور آج ہمیں قتل کر رہے ہیں لیکن حماس کے خیال میں اسرائیل کو ایک ظالم درندہ ثابت کرنا اپنے بچوں کے مستقبل سے زیادہ اہم تھا۔ حماس کے کسی لیڈر نے حضور پاک کی دانش، سمجھداری، بردباری اور معاملہ فہمی سے کچھ نہیں سیکھا کہ کیسے انہوں نے ایک کمزور پوزیشن سے برسوں کی ریاضت کے بعد اپنے آپ کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا کہ اس دور کی سپر پاور کفار مکہ نے ان کے آگے ہتھیار ڈالے اور اسلام کا بول بالا ہوا۔
جیسے ایک یہودی کو یہ احساس ہوا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ ظلم کر رہا تھا ،کیا مسلمانوں میں سے بھی کوئی ایسی آواز اٹھ سکتی ہے جو حماس کے لیڈروں سے پوچھ سکے کہ کیا فلسطینی ماؤں نے اپنے معصوم بچے اس لیے جنے تھے کہ وہ ایک ایسی جنگ میں مارے جائیں جس کے نتیجے کا انہیں پہلے سے علم تھا۔ شاید ہم میں سے ہر ایک اچھا مسلمان بننے کی خواہش یا تنقید کے ڈر سے خوفزدہ ہو کر یہ سوال پوچھنے کی جرأت کبھی نہ کر سکے جو جرأت جیرالڈ نے ہاؤس آف کامنز میں کھڑے ہوکر اسرائیل کے یہودیوں سے یہ پوچھ کر کی ہے کہ کیا میری دادی ہٹلر کے فوجیوں کے ہاتھوں پچاس قبل ایک اداس رات میں اس لیے ماری گئی تھی کہ ایک دن تمام یہودی نازی بن کر اس کا انتقام معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں سے لیں گے