جمعه 15/نوامبر/2024

مکتوب از الخلیل

جمعہ 2-جون-2017

ہمیں اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں رہنے والے اپنے دوست رمضان کا ایک خط موصول ہوا ہے ۔ وہ اپنے والد سے ملنے ان دنوں الخلیل میں ہے ۔ یہ شہر حضرت ابراہیم کے نام سے موسوم ہے ۔ اس شہر کا عبرانی نام حبرون ہے اور عبرانی میں حبرون کے معنی وہی ہیں جو عربی میں الخلیل کے ہیں، یعنی دوست۔ حضرت ابراہیم  کو یہودی اور مسلمان سب خلیل اللہ مانتے ہیں ۔ یہیں پر مسجد ابراہیمی بھی ہے حضرت ابراہیم  ، ان کی بی بی سارا ، بیٹے حضرت اسحاق اور بہور فیقہ کے مقبرے بھی موجود ہیں ۔ غزہ کے بعد الخلیل فلسطینی علاقے کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ یہ دو سیکٹروں پر منقسم ہے ۔ اسی فیصد علاقہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام جبکہ بیس فیصد حصے پہ اسرائیل قابض ہے ۔ تاہم پچھلے دو سالوں سے الخلیل اسرائیلی فوج کے زیر کنٹرول ہے اور عذر اس کیلیے وہ یہ پیش کرتے ہیں انہیں پرانے علاقے میں رہنے والے یہودیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے ۔

دو برس قبل جب ہم اسرائیلی مقبوضہ یروشلم اور فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام مغربی کنارے گئے تو مسجد ابراہیمی کی سیر کے دوران رمضان بھی ہمارے ساتھ تھا ۔ وہ ایک یادگار سفر تھا اور ہر سال رمضان کے خطوط اس سفر کی یادوں کو مزید سنوار دیتے ہیں۔ جب وہاں سے ہم اردن کے دارالحکومت عمان جانے کیلیے رخصت ہو رہے تھے تو رمضان نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ہر سال ماہ صیام کے آغاز پہ وہ ہمیں اس علاقے کے حالات و واقعات سے باخبر رکھے گا ۔ وہ اپنا وعدہ باقاعدگی کے ساتھ پورا کر رہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ مسجد ابراہیمی جو خدا تعالی کے ایک محبوب نبی کی نام پہ بنی ہے ، یعنی وہ نبی جس کا نام مسلمان دن میں پانچ بار نماز پڑھتے ہوئے بھی لیتے ہیں، وہاں آخر مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے الگ الگ داخلی دروازے کیوں بنے ہوئے ہیں؟ یروشلم سے الخلیل کی جانب سفر کے دوران رمضان ہمیں مسلسل اسرائیل و فلسطین تنازعے کے بارے میں بتائے جا رہا تھا ۔ 1967میں اسرائیل نے ارد گرد کی ریاستوں کے ساتھ ایک چھ روزہ جنگ میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا ۔ مشرقی یروشلم پہ اس کا قبضہ ایک ایسا اقدام ہے جسے عالمی برادری بے کبھی باجواز تسلیم نہیں کیا ۔ مغربی کنارے پہ قبضے کے بعد اسرائیل نے وہاں انتہا پسند یہودیوں کی آبادکاری کیلیے مکانات کی تعمیر شروع کر دی تھی ۔ رمضان کہتا ہے کہ عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود اسرائیل ان آبادکاروں کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتا جا رہا ہے ۔ ان لوگوں کے پاس بھاری اسلحہ موجود ہے اور اس سے فلسطینی دیہات میں رہنے والوں کو ایک بڑا خطرہ درپیش ہے ۔

رمضان کہتا ہے کہ مسئلہ اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی پولیس کا ہے ، اسرائیلی مقبوضہ علاقے میں رہنے والے قطعی کوئی مسئلہ نہیں بناتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ اس نے ایک لفظ یعنی زمین میں ہی سارے مسئلے کا خلاصہ بتا دیا تھا ۔ پہاڑیوں میں ترچھی چھتوں والے سرخ ٹائلوں سے بنے مکانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ میں بتا رہیا تھا کہ اس ساری پہاڑی علاقے کے اردگرد ہموار سطح کی زمین آپ کو شاذ ہی دکھائی دے گی ۔ اقوام متحدہ ، عالمی عدالت انصاف ، یورپی یونین ، امریکہ ، فرانس اور انگلستان سبھی بار بار کہہ چکے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے آبادکاری کی توسیع ایک غیر قانونی اور ناجائز اقدام ہے ۔ مغربی کنارے میں کوئی چار لاکھ کے قریب اسرائیلی آباد ہیں جن کی رہائش عالمی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے اور یہی مشرق وسطی میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت اسرائیلی تاریخ کی دائیں بازو کی انتہا پسند انتظامیہ سمجھی جاتی ہے اور عالمی برادری کی تمام تر تشویش کے باوجود یہ اسرائیلی آباد کاری کی توسیع پہ مصر ہے ۔ اسرائیلی حکومت کے بعض اہلکاروں نے کھلم کھللا مغربی کنارے پہ قبضے کی بات کی ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے اپنے حالیہ دورے میں اپنے بہترین دوست نتین یاہو کو اگرچہ یہ نہیں کہا کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت کرتا ہے لیکن اسرائیل میں عام لوگوں کا تاثر اس کے برعکس ہے ۔ پچھلے ہفتے ہزاروں اسرائیلی باشندے فلسطینی علاقے پہ اسرائیلی قبضے کے پچاس سال پورے ہونے پہ فلسطین کی حمایت میں تل ابیب میں سڑکوں پہ نکلے تھے ۔ انہوں نے جو بینرز اٹھا رکھے تھے ان پہ لکھا تھا Two states One Hope ۔ یہ مظاہرہ فلسطینی ریاست کے حامی اسرائیلیوں کے زیر انتظام منعقد کیا گیا تھا جن میںNOWنامی اسرائیلی این جی او بھی شامل تھی ۔ NOWکے سربراہ ایوی بسکلا کہتے ہیں کہ یہ مظاہرہ اسرائیلی حکومت کے ان اقدامات کیخلاف تھا غیر قانونی قبضے ، تشدد اور نسل پرستی کو طول دیکر امید کی معدومی کا سبب بن رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور پوری دنیا کو یہ ثابت کر کے دکھا دیا جائے گا کہ اسرائیلی آبادکاری کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو اس کے قبضے کے خلاف ہے اور دو ریاستوں کے قیام جیسے حل کی حمایت کرتا ہے ۔ اس ریلی میں فلسطینی صدر محمد عباس کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ یگانگت ، امن اور استحکام کے ساتھ رہنے کا وقت ہے ۔ آنے والی نسلوں کی طرف ہماری یہ ذمہ داری ٹھہرتی ہے کہ ہم ان کی خاطر ایک بہادرانہ امن معاہدے پہ راضی ہوں۔ اس ریلی میں اسرائیلی حزب اختلاف کے لیڈر آئزک ایزراگ نے بھی شرکت کی تھی ، وہ بھی اسرائیل و فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کے حامی ہیں۔ رمضان کے مہینے میں وہاں قتل و غارت گری بڑھ جاتی ہے ۔ پچھلے سال الخلیل کے ایک گاوں سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں نے تل ابیب کے ایک کیفے پر حملہ کیا تھا جس میں چار اسرائیلی ہلاک ہوئے ۔ اسرائیلی وزارت دفاع نے فوری طور پر اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دو فوجی بٹالین سرحدیں سیل کرنے کی غرض سے مغربی کنارے بھجوا دیں تھیں۔ ماہ رمضان کے دوران اسرائیل میں داخلے کے جو اجازت نامے فلسطینیوں کو جاری کیے گئے تھے وہ فی الفور منجمد کر دیئے گئے اور راتوں رات تریاسی ہزار کے قریب ایسے اجازت نامے منسوخ بھی کر دیئے گئے جو مغربی کنارے کے رہنے والے ان فلسطینیوں کو جاری کئے گئے تھے جو اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں رہنے والے اپنے اہل خانہ سے ملنے کے خواہاں تھے ۔ غزہ کی پٹی میں رہنے والے ایسے پانچ سو فلسطینیوں کے اجازت نامے بھی منسوخ کر دیے گئے جو جمعہ کی نماز کے لیے یروشلم میں واقع مسجد اقصی جانا چاہ رہے تھے ۔ ان سب کے علاوہ مزید تایبی نوعیت کے اقدامات بھی متوقع ہیں۔

اس حملے کے بعد تل ابیب کے میئر نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک اور قوم پہ قبضہ کر کے اسے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ہمارے قبضے کو 49 برس ہو رہے ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ ہم انہیں قابض رکھ کر یہ امید رکھیں کہ وہ اس نتیجے پہ پہنچیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور اسی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ رمضان نے لکھا کہ اس نے ان یہودی لیڈروں پہ کڑی تنقید بھی کی جو سالوں سے ہمارے ساتھ ہماری ایک الگ ریاست کے قیام کا وعدہ تو کر رہے ہیں لیکن پھر ہمارے ہی علاقوں میں وہ نئی نئی اسرائیلی آبادیاں بھی قائم کر دیتے ہیں۔ رمضان نے ہمیں یاد دلایا کہ جب وہ ہمیں یروشلم سے مغربی کنارے لے جا رہا تھا تو اس نے ہمیں فلسطینی علاقے میں قائم اسرائیلی آبادیاں بھی دکھائی تھیں۔ مغربی کنارے کی جانب جاتے ہوئے ہم نے اپنی آنکھوں سے خار دار تاروں کی وہ باڑیں دیکھیں تھیں جو اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کو ایک مختصر سے علاقے میں محدود رکھنے کے لیے لگائی ہوئی ہیں۔ رمضان نے اپنے خط کے آخر میں لکھا ہے کہ ہم منتظر ہیں کہ مسلمان امت ہماری آزادی کے حق کی حمایت کرے گی
رمضان مبارک!!!

بشکریہ روزنامہ 92

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از انجم نیاز