انہوں نے بتایا کہ” اسرائیلیوں نے یہ وحشیانہ کارروائی کر کے انتہائی بے وقوفی کی کیونکہ نظروہ دوڑا کر دیکھیں کہ دنیا میں اسرائیل پر کبھی اتنی زیادہ تنقید نہیں ہوئی‘ جتنی آج ہو رہی ہے اور اگر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ غزہ پرلگائی گئی پابندیاں اگلے چھ ماہ کے دوران ختم ہو جائیں گی۔“ انہوں نے بتایا کہ ”اسرائیلی فوجیوں نے جہاز پر حملہ کر کے ہماری سب چیزیں قبضہ میں کر لیں اور پھر کہا کہ جہاز سے اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ حقیقت میں جو اسلحہ ہم سے برآمد ہوا تھا‘ اس میں شیو کرنے والے ریزر‘ کیمرے‘ سیل فون اور جرابوں جیسی چیزیں شامل تھیں۔ گرفتار کرنے والے فوجیوں میں سے ایک نے مجھے پہچان لیا۔ اس نے کہا کہ ”تم پر اسرائیل میں غیرقانونی داخلے کا الزام ہے“۔ میرا جواب تھا ”یہ کیا بے تکی بات ہے۔ تم مجھے یہاں لے کر آئے ہو۔“ اس نے بتایا کہ وہ مجھے جانتا ہے۔ میری تمام کتابیں اس نے پڑھ رکھی ہیں اور وہ اسے پسند ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ ”جب تم اگلی مرتبہ یورپ آؤ تم مجھے فون کرنا۔ ہم اس مسئلے پر دوبارہ بات کریں گے۔ میں نے اسے اپنا نمبر دے دیا۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ مجھے یقین ہے ڈائیلاگ ہی بہترین طریقہ ہے۔“ ایک ادیب اسی طرح سوچ سکتا ہے لیکن اسرائیل نے دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک بند معاشرے میں جمع کر کے خوف کی جوبلند و بالافصیلیں کھڑی کی ہیں‘ ان کے اندر کوئی نارمل انسان پروان ہی نہیں چڑھ سکتا۔ اسرائیلیوں کو ایک ایسی خوفزدہ قوم بنا دیا گیا ہے‘ جو اپنے تمام پڑوسی عربوں کو گنہگار اور اپنے قتل کے لئے تیار سمجھتی ہے۔ وہ نہتے اور مظلوم فلسطینی جن کے وطن پر قبضہ کر کے یہودیوں کو بسایا گیا ہے. ان کے بارے میں یہ تصور راسخ کر دیا گیا ہے کہ وہ یہودیوں کو تباہ و برباد کر دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کے بوڑھوں‘ بچوں اور عورتوں کو لاٹھیوں‘ گولیوں اور بموں کا نشانہ بناتے وقت بھی یہ نہیں سوچتے کہ وہ انسانیت کے مجرم بن رہے ہیں۔ ان کے ضمیر مفلوج کر دیئے گئے ہیں اور جس خوف کی حالت میں یہ قوم رہتی ہے‘ وہ خود کسی سزا سے کم نہیں۔ بے شک انہوں نے فلسطینیوں کا وطن ہتھیا لیا ہے لیکن اس کی قیمت ضمیر کی موت کی شکل میں ادا کی ہے اور کر رہے ہیں۔ ساری ترقی یافتہ دنیا اپنے بے پناہ وسائل اور اسلحہ کے ساتھ اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہے۔ جدید سائنسی علوم اور قوموں کو بے حوصلہ کرنے والے تمام حربے اسرائیل کے حق میں استعمال ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے حواریوں کی بے پناہ طاقت استعمال کرتے ہوئے پڑوسیوں کے مقابلے میں کئی جنگیں جیت چکا ہے۔ ان کے علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ ان کے خلاف ہونے والی ہر کارروائی امریکہ کی مدد سے بے اثر کر دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اسرائیلی قوم خوف کی حالت سے نہیں نکلتی۔ وہاں کے حکمران اپنے ملک کے اندر کسی کو اس بات کا پتہ نہیں چلنے دیتے کہ عالمی رائے عامہ اس کے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ وہ صرف یہودیوں کی دولت سے خریدے ہوئے تبصرے اور ویڈیو دیکھ سکتے ہیں مگر جو نفرت دنیا کے باضمیر لوگوں میں ان کے لئے پائی جاتی ہے. وہ اس سے واقف نہیں ہیں۔
عربوں کی بے حسی اور نام نہاد اسلامی امہ کے بے عملی کو دیکھ کر ترکی نے ایک امن مشن غزہ کے محصور شہریوں تک امدادی سامان پہنچانے کے لئے تیار کیا تھا۔ ترکی نے اسرائیل کو بہت پہلے سے تسلیم کر رکھا ہے۔ اس نے شرق اوسط کے معاملات میں ملوث ہونے سے گریز کیا تھا۔ لیکن اب وہ بھی میدان میں اتر آیا ہے۔ اسرائیلیوں نے فریڈم فلوٹیلا پر حملے میں جن 9 پرامن شہریوں کو شہید کیا. ان میں 8 کا تعلق ترکی سے ہے۔ اسرائیلیوں نے ترکوں کے ساتھ موت کا کھاتہ کھول لیا ہے۔ یہ انہیں مہنگا پڑے گا۔ ترکی کی حکومت نے اس سانحہ کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جو مشترکہ فوجی مشقیں ہونے والی تھیں‘ انہیں ختم کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل کے پائیلٹ ترکی کی فضاؤں میں تربیتی پروازیں کیا کرتے تھے۔ یہ پروازیں بند کر دی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ 20 ارب ڈالر کی ایک ڈیل ہونے والی تھی‘ اسے بھی ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ جن 700 نہتے لوگوں نے محصور فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لئے اپنی جانوں پر کھیل کر غزہ جانے کی کوشش کی‘ وہ اسرائیل کو ایک ایسی شکست کے راستے پر لگا چکے ہیں‘ جس سے انسان دوستوں کے دستے تب تک آتے رہیں گے‘ جب تک اسرائیل دنیا کی نظروں میں ذلیل و رسوا نہیں ہو جاتا۔ اسرائیل کی حمایت کرنے والے سارے طاقتور ملک اور وہاں کی حکومتیں عالمی رائے عامہ کی نفرتوں کے سامنے عاجز آ کر رہیں گی۔ ترکی میں اب یہ سوال بھی اٹھے گاکہ اسرائیل نے نیٹو کے ایک رکن کے پرامن شہریوں کو شہید کر کے اور اس کے جہازوں کو قبضے میں لے کر جو جارحیت کی ہے‘ اس پر نیٹو کیوں خاموش ہے؟ فریڈم فلوٹیلا کے بہادر مسافروں نے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کا جو نیا راستہ کھولا ہے‘ کبھی نہ کبھی اسی راستے سے اچھی خبریں مظلوم فلسطینیوں تک ضرور پہنچیں گی۔
موت کا نیا کھاتہ
پیر 7-جون-2010
نام نہاد جمہوری ملک اسرائیل‘ جسے مغربی میڈیا شرق اوسط میں آزادی اور جمہوریت کی علامت قرار دیتا ہے۔ اس کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا‘ جب اس نے غزہ کے محصور اور بے بس شہریوں کے لئے امدادی سامان لے کر جانے والے 700 نہتے انسانوں پر بین الاقوامی سمندر میں شب خون مار کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہیں اسرائیل کے جیل خانوں میں رکھا گیا۔ عالمی دباؤ کے نتیجے میں رہائی کا سلسلہ شروع ہوا‘ تو اسرائیل کے علاقے سے باہر آنے والے چند خوش نصیبوں نے دنیا کو جو کچھ بتایا‘ وہ اس لئے باعث حیرت ہے کہ پہلا قیدی جو حقائق لے کر سامنے آیا وہ تین دن تک دنیا میں کہیں بھی شائع نہیں ہو سکے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نام نہاد اسرائیلی جمہوریت اور وہاں آزادی اظہار کی کہانیوں کے پیچھے سچائی کیا ہے؟ اسرائیل میں عالمی میڈیا کے بے شمار نمائندے موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی اصل حالات کا مشاہدہ کرنے کے لئے کو قریب نہیں جانے دیا گیا۔ شروع میں جو ویڈیوز سامنے آئیں‘ وہ بھی سنسر شدہ معلوم ہو رہی تھیں۔ اگر انسان دوستوں کے سفینے میں شامل کوئی کیمرہ مین اپنی فٹیج بچانے میں کامیاب ہو گیا تو ہو سکتا ہے کہ مزید سچائی کا کچھ حصہ سامنے آ جائے لیکن ایسا ہونا انتہائی مشکل رہا ہو گا۔کیونکہ اسرائیلی میڈیا کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا۔ مظلوم فلسطینیوں پر جو وہاں مظالم ڈھائے جاتے ہیں‘ ان کی جھلک تک بیرونی دنیا تک نہیں پہنچنے دی جاتی۔ فلسطینی بچے اسرائیل کے کلاشنکوف برداروں پر پتھر پھینکیں تو اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے اور اسرائیل کے بمبار طیارے نہتے شہریوں کے گھروں پر میزائل اور بم پھینکیں تو اسے اسرائیل کی ”جوابی کارروائی“ کہہ کر جرم چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب 700 باضمیر عالمی شہریوں کو اسرائیل نے ہولناک تشدد کے بعد حراست میں لے لیا تو خیال تھا کہ اسرائیل نے جبر کی جو مشینری تیار کر رکھی ہے‘ اس کی کچھ جھلکیاں بیرونی دنیا کے سامنے ضرور آ جائیں گی۔ ابتدائی طور پر جو تفصیل سامنے آئی ہے‘ اس میں سویڈن کے مشہور ادیب بیننگ مینکل کے مشاہدات کچھ یوں تھے۔ ”اسرائیلی ہمیں قتل کرنے کے ارادے سے آئے۔ اگر وہ ہمیں روکنا چاہتے تو ہمارے جہاز کے پتوار یا چرخی پر حملہ کرتے لیکن انہوں نے ہم پر حملہ کرنے کے لئے نقاب پوش کمانڈوز کو ترجیح دی۔“ اس سے پتہ چلا کہ حملے کا وقت چنتے ہوئے آغاز سحر کے دھندلکے پر ہی انحصار نہیں کیا گیا کہ اس کی وجہ سے کیمرے کمانڈوز کے چہرے نہیں دکھا سکیں گے بلکہ مزید احتیاط کے لئے انہیں نقاب پہنائے گئے۔ بیننگ مینکل فریڈم فلوٹیلامیں شامل صوفیہ نامی ایک جہاز میں سوار تھے جو سویڈن کا تھا۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ
لینک کوتاه: