ایریاسی کا لفظ منحوس سا لگتا ہے- پتھروں سے اٹی پہاڑیوں اور ہری بھری وادیوں کی یہ سرزمین اسی طرح خستہ حال ہے جس طرح اوسلو معاہدہ جس کے تحت اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کا 60 فیصد حصہ اس کے فلسطینی باشندوں کو ملنا تھا-
لیکن جب آپ اعداد وشمار پر نظر ڈالتے ہیں اور جفتلک کی ویلج کونسل کے سربراہ اور عابد قصاب کے سامنے میز پر لگے انہدام کے احکامات کے پلندے کی ورق گردانی کرتے ہیں تو سب کچھ دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ یہاں بیوروکریسی کے ذریعے نسل کشی کی جار ہی ہے- اس کاغذی کارروائی کے لیے تحریف سے موزوں لفظ کیا ہو گا- اور جو نتائج سامنے آئیں گے دو وہ یقیناً خلاف تہذیب ہی ہوں گے-
فلسطینی گھروں کو کھڑا رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، چھتوں کو گرنا ہوگا کنوؤں کو بند ہونا ہوگا ، سیوریج سسٹم ختم کرنا ہوگا – ایک گاؤں میں تو میں نے دو ر قدیم کا بجلی کا نظام بھی دیکھا جہاں فلسطینیوں کے لئے لازم قرار دیاگیاہے کہ وہ اپنے بجلی کے کھمبے کنکریٹ کے بلاکوں میں پیوست کرائیں اور انہیں ایک کچی سڑک پر رکھ دیں – ظاہرہے یہ انہیں مسمار کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ کسی فلسطینی کو 40سینٹی میٹر سے زیادہ کھدائی کرنے کی اجازت نہیں ہے –
لیکن ہم بیوروکریسی کی طرف واپس آتے ہیں – روئی (Roi)جو شاید اسرائیل کا سرکاری نام ہے کیونکہ اسے عام زبان میں سمجھنا کافی مشکل ہے، نے گزشتہ دسمبر میں جفتلک کے لئے انہدام کی دستاویز ات پر دستخط کئے ، جو سب کی سب عربی اور عبرانی زبانوں میں عابد قصاب کو پہنچا دی گئیں- میں نے ان میں سے 21کاغذدیکھے جو کسی ترتیب کے بغیر تھے اور یہ سب کے سب ’’جو دیا اور سماریا کے علاقے کی سول انتظامیہ ہائی پلاننگ کونسل مانیٹرنگ سب کمیٹی ‘‘ کیطرف سے جاری کئے گئے تھے عام قارئین کے لئے بتاتاچلوں کہ جودیا اورسماریا،مغربی کنارہ ہی ہے – پہلی دستاویزات پر 8دسمبر 2009ء اور آخر ی پر 17دسمبر کی تاریخیں درج تھیں-
اور بقول عابد قصاب یہ تو سب سے چھوٹا مسئلہ ہے – مکانات کی تعمیر سے متعلق فلسطینیوں کی درخواستیں یا تو سالہا سال تک التوا ء کا شکار رہتی ہیں یا مسترد کردی جاتی ہیں- بغیر اجازت تعمیر کئے گئے مکان بے دردی سے مسمار کردیئے جاتے ہیں ، چھتوں پر لوہے کی تہہ کو چھپانے یک لئے پلاسٹک کی شیٹیں اس امید پر ڈال دی جاتی ہیں کہ ’’سول انتظامیہ ‘‘انہیں اضافی منزل نہیں سمجھے گی کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو ’’روئی ‘‘ والے اس مکان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے –
ایریا سی میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینی اور تین لاکھ اسرائیلی آباد کار بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی طور پر 120منظور شدہ آبادیوں اور 100غیر منظورشدہ آبادیوں میں مقیم ہیں – ’’غیر منظور شدہ ‘‘ تو وہ ہیں جو اسرائیلی اور بین الاقوامی دونوں قوانین کے تحت غیر قانونی ہیں اس کے برعکس 120بین الاقوامی طورپر غیر قانونی آبادیاں ہیں وہ جو اسرائیلی قانون کے تحت قانونی ہیں- یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہودی آبادکاروں کو پلاننگ کی اجازت جیسا کوئی مسئلہ دوچار نہیں-
موسم سرماکا سورج عابد قصاب کے دفتر کے دروازوں سے باہر چمک رہاہے اور کمرہ سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہواہے جبکہ دفتر کے باہر جفتلک کے شہری اپنی شکایات کے پلندے ہاتھ میں لئے چیخ وپکار کررہے ہیں – عابد قصاب کا کہنا ہے کہ ’’مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ آپ میرا نام چھاپ دیں میں نتائج بھگت لوں گا- صرف سانس لینا ہی رہ گیا ہے جس کے لئے ہمیں اجازت کی ضرورت نہیں ‘‘- لفظ تھکے تھکے سے لیکن غصہ حقیقی ہے- اسکا مزید کہنا ہے کہ ’’عمارتیں ،نئی سڑکیں ،ریزرو ائر ، ہم تین سال سے اجازتیں حاصل کرنے کا انتظارکررہے ہیں – ہمیں کوئی نیا ہیلتھ کلینک لگانے کی اجازت بھی نہیں ملتی – ہمارے ہاں انسانی اور زرعی دونوں طرح کے استعمال کے لئے پانی کی قلت ہے- نظام آبپاشی کی اصلاح کی اجازت پر ستر ہزار اسرائیلی شیکل (تقریباً چودہ ہزار ڈالر )خرچ یتے ہیں یعنی نظام کی اصلاح کے خرچ سے بھی زیادہ -‘‘
ایریاسی ،یعنی یروشلم کے مضافات سے وادی اردن کے طاس تک کی الٹی سیدھی سڑکوں پر چل پڑیں تو کہیں سیاہی مائل اور برہنہ پہاڑیاں آجاتی ہیں تو کہیں پرانی غاروں کے ساتھ ساتھ پتھریلی وادیاں مزید آگے جائیں تو فلسطینیوں کے کھیت اورپھر یہودی آبادکاورں کے کھجورکے باغ جن کے گرد باڑھیں لگی ہیں جن میں کرنٹ دوڑ رہاہے اور پھر فلسطینی چرواہوں کے مٹی یا پتھر سے بنے جھونپڑے – یہ ایک دہرے فریب والی جنت ہے – یہاں کے باشندوں کے ایک گروہ یعنی اسرائیلیوں کواپنی تاریخ یاد ہوگی اور وہ اس جنت میں رھتے ہیں- دوسرا گروہ جو چھوٹا ہے اور فلسطینی عربوں پر مشتمل ہے صرف اس جنت کے نظاروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ سکتاہے لیکن فی الحقیقت وہ اس جنت سے پہلے ہی باہر ہے اور بیچ میں ان کا ہے کہ کدھر کو جائے –
یہاں تک کہ ’’ایریا سی ‘‘ میں جو مغربی این جی اوز فلسطینیوں کے لئے کام کررہی ہیں ،اسرائیلی ان کے کام میں بھی رکاوٹ ڈالتے ہیں- یہ محض ’’امن عمل ‘‘ کی الجھی ہوئی گتھی ہی نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی سیکنڈل ہے – مثال کے طور پر آکسٹیم نے جفتلک کے اردگرد رہنے والے ہزاروں فلسطینیوں کے لئے 300m2کے پانی کے ذخیرے کی تعمیر کے لئے اسرائیلیوں سے اجازت طلب کی – یہ درخواست مسترد کردی گئی – پھر انہوں نے نوٹس دیاکہ ہم سطح زمین پر دوگلاس فائبر ٹینک اور پائپ اور بوسٹر پمپ لگانا چاہتے ہیں- اس پرانہیں بتایا گیا کہ بھلے سطح زمین پر ہوں اجازت پھر بھی لینا پڑے گی اور انہیں اجازت نہیں ملی – آخری تدبیر کے طور پر آکسٹیم اب چھتوں پر نصب ہونے والے واٹرٹینک تقسیم کررہی ہے –
’’اجازت ‘‘کے نام پر نسلی امتیاز کی ایک اور بھونڈی مثال مجھے زبیدات میں دیکھنے کو ملی جہاں یورپی یونین کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے ڈویژن نے 18واٹرویسٹ نصب کئے تاکہ اس وادی کے باغات اور کھیتوں سے گزرنے والی سیوریج کی گندی بوکا کوئی تدارک ہوسکے – اسی ہزار پاؤنڈ کی لاگت سے یہ سسٹم جس میں 40فٹ کے شافٹ لگائے گئے جن کی صفائی ٹرکوں کے ذریعے ہوتی ہے، اس لئے نصب ہوگیا کہ یہ جگہ ’’ایریا بی ‘‘ کے علاقے میں آتا ہے جہاں پلاننگ کی اجازت ضروری نہیں-
اب امدادی کارکنوں کو اسرائیلیوں کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ وہ اٹھارہ میں سے چھ شافٹ پر کام ’’لازماً واک ‘‘ دیں یعنی اس طرح ان کے انہدام کا عذر پیدا کیا جارہاہے کیونکہ جس سڑک پرتعمیر کئے گئے ہیں وہ ایریا سی میں آتی ہے – فلسطینی ہوں یا اسرائیلی کسی کو معلوم نہیں کہ ایریابی اور سی کی سرحد کہاں واقع ہے- یوں یورپ والوں کے تقریباً بیس ہزار پاؤنڈ اسرائیلی ’’سول انتظامیہ ‘‘نے مٹی میں ملادیئے-
لیکن اجازتیں دینے اور نہ دینے والے ان پلندوں کا اصل مقصد ایریا سی کی ہولناک
حقیقت کی پردہ پوشی کرناہے- متعدد اسرائیلی کارکنوں اور مغربی این جی اوز کو شبہ ہے کہ اسرائیل یہاں پر موجود فلسطینیوں کو اپنے گھر بار اور زمینوں سے نکال کر ایریا اے اور بی کے بیابانوں میں دھکیلنا چاہتاہے- ایریا بی پر اسرائیلی فوج اور سول حکام اور فلسطینی پولیس کا مشترکہ کنٹرول ہے اور ایریا اے پر محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی کا- اس طرح کیا فلسطینیوں کے ہاتھ مقبوضہ مغربی کنارے کا صرف چالیس فیصد آئے گا جو بذات خود اس تسلیم شدہ فلسطین کابائیس فیصدبنتاہے جس پر مرحوم یاسرعرفات حکمرانی کی امید رکھتے تھے – اس میں ایریا سی کا وہ اٹھارہ فیصد شامل کرلیں جسے اسرائیلی ’’بند فوجی علاقے‘‘قرار دتے ہیں اور مزید تین فیصد وہ جسے ’’فطری ذخائر ‘‘قرار دیا جاتاہے – تو ایک سادہ سا نتیجہ سامنے آتاہے کہ انہدام کے احکامات کے بغیر بھی فلسطینی ستر فیصد ایریا سی میں کوئی چیز تعمیر نہیں کرسکتے –
ایک سیک پر چلتے ہوئے مجھے بڑے بڑے کنکریٹ بلاکوں کی ایک سیریز نظرآئی جو یہاں اسرائیلی فوج نے فلسطینی جھونپڑوں کے سامنے رکھے ہوئے تھے -ہر بلاک پر عبرانی ، عربی اور انگریزی میں ’’Danger Firing Area‘‘لکھا ہوا تھا اورداخلہ ممنوع تھا- سوال یہ ہے کہ یہاں رہنے والے فلسطینی پھر کیا کرتے ہوں گے؟ – یہاں بتاتا چلوں کہ ایریا سی امیر ترین مقبوضہ فلسطینی علاقہ ہے جہاں پنیر کی پیدا وار ہوتی ہے اور جانوروں کے فارم واقع ہیں- جفتلک کے پانچ ہزار سے زائد لوگ پہلے ہی پناہ گزین بن چکے ہیں ، ان کے اہلخانہ 1947ء اور 1948ء میں اپنی زمینیں چھوڑ کر مغربی یروشلم یعنی آج کے کہلائے جانے والے علاقے اسرائیل کی طرف چلے گئے – ظاہر ہے ان کا المیہ ابھی تک ختم نہیں ہوا – پتہ نہیں اس فلسطین کی خاطر کس کس کو کیا کیا قیمت چکانا پڑے گی؟