جمعه 15/نوامبر/2024

مشرق وسطی کا آتش فشاں

منگل 11-مئی-2010

مصر میں بظاہر امن اور خاموشی کی تہہ میں لاوا دہک رہا ہے جس کے پھٹنے سے پورا مشرق وسطی متاثر ہوگا اور اس خطے میں امریکا کی بالادستی اور اہم مفادات بھی خطرے میں پڑ جائیں گے، یہ خطرہ عین اس وقت سامنے آ رہا ہے، جب مشرق وسطی میں پہلے ہی سے کھچاؤ کی زبردست کیفیت ہے، جس میں امریکا، اسرائیل، شام، لبنان، ایران حالت جنگ میں گھرے معلوم ہوتے ہیں-

مصر کے صدر حسنی مبارک جو مصر پر تقریباً 30سال سے آہنی ہاتھوں سے حکومت کررہے ہیں آج بھی 81سال کی عمر میں اور نہایت ہی کمزور صحت کے ساتھ اپنے متبادل ’’ولی عہد‘‘ کا اعلان کیے بغیر حکمران ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ حسنی مبارک کے بغیر مصر کیسا ہوگا؟ کون مصر کا نیا حکمران ہو گا؟ جوانہی کی طرح سیاست، حالات اور انتظامیہ کو سنبھال لے گا، اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی، یعنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو کامیابی سے چلانے کا اہل ہوگا، انہی ترجیحات کی بنیاد پر ان مفادات کا تحفظ کرسکے گا، جن کا حسنی مبارک کرتے آرہے ہیں- وقت گزرنے اور عمر زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’آمروں‘‘ سے معاملات طے کرنا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتاہے- حسنی مبارک مصر کی ائر فورس میں اعلی عہدے پر فائز تھے بعد میں نائب صدر بنے وہ سادات کے بہت قریب تھے- سادات کے قتل کے بعد 1981ء میں اقتدار میں آئے-

سادات 1952ء سے ہی امریکا کے لئے ایک بیش قیمت اثاثہ تھے- 1950ء میں ایک بہت مشہور خاتون صحافی نے سادات کا انٹرویو کیا اور انہیں ایک مسخرے کے چہرے کے پیچھے چھپا ایک بہت شاطر انسان قرار دیا تھا جو بعد میں صحیح ثابت ہوا- قوم پرست فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والا سادات امریکا اور اسرائیل کے نزدیک ایک ہیرو تھا، لیکن مصر میں اس قتل پر جشن منائے گئے تھے- 82ملین آبادی کا ملک مصر عرب ممالک میں سب سے زیادہ آبادی والا ایک اہم ملک ہے- قاہرہ ایک زمانے سے عرب دنیا کی تہذیب کا عکاس اور مرکز ہے-
5لاکھ افراد کو شہری سہولتیں فراہم کرنے کا پروگرام ذہن میں رکھ کر نئے سرے سے تعمیر کیے جانے والے اس شہر میں اس وقت کے مضافات شامل کرلیں تو تقریباً12 ملین افراد رہائش پذیر ہیں- 1957ء سے اب تک قاہرہ کی آبادی میں 3گنا اضافہ ہوا ہے- تمام عرب ممالک کی آبادی کا تقریباً 28فیصد مصری ہیں- نیل کے ساحل کے ساتھ رہنے والے نسلاً عرب لسانی اور معاشرتی اعتبار سے باقی عربوں سے قدرے مختلف ہیں، لیکن زبان، مذہب اور اپنی بطور عرب شناخت پر فخر ان کا مشترکہ ورثہ ہے-

مصر کسی زمانے میں عرب اور مسلم دنیا کا ہیرو تھا- سادات کے پیش روجمال عبدالناصر قوم پرست عرب تھے- اپنی جرأت اور مؤقف کی وجہ سے مسلم دنیا میں بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، لیکن اس کے برعکس سادات ایک مغربی ’’چمچے‘‘ کی حیثیت میں مشہور تھے- انہیں ناصر کے بعد قوم نے حالات کے جبر ، ایک مجبوری اور بیزارہ کی کیفیت میں قبول کیا تھا- ایسی ہی صورت حال میں حسنی مبارک کو بھی موقع مل گیا-

حسنی مبارک کے 30سالہ دور اقتدار میں مصر سیاسی طور پر اور تہذیبی اعتبار سے بھی ایک جوہڑ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور خطے میں امریکی مفادات کے محافظ کی حیثیت رکھتا ہے- مصر کی سیاسی، تہذیبی، دانشورانہ اور مذہبی زندگی کی سیکورٹی پولیس کے ہاتھوں قیدی کی حیثیت ہے- حسنی مبارک کی عوام سے دوری اور خوف کا اظہار حال ہی میں بہت واضح ہوگیا، جب حسنی مبارک کو اپنے آپریشن کے لئے جو بہت معمولی تھا، جرمنی جانا پڑا- 82ارب ڈالر امریکی امداد وصول کرنے والے اس اہم ملک میں اسے کسی ہسپتال، کسی ڈاکٹر پر اعتماد نہیں تھا-

امریکا ہر سال مصر کو 3ارب ڈالر فوجی امداد دیتا ہے تاکہ مسلح افواج کی ’’ضروریات‘‘ پوری ہوتی رہیں- 700ملین ڈالرز کی امداد دیگر ضروریات اور معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے لئے سی آئی اے کی طرف سے ملتی ہے- ’’غیبی‘‘ اور بے شمار سہولتیں ایسی ہیں جوکسی لکھائی پڑھائی میں نہیں آتی- اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں جنرل ، بڑے بڑے انتظامی اہل کار، خفیہ ایجنسیوں کے سرابراہ، میڈیا سے وابستہ اہم لوگ اور مذہبی رہنما شامل ہیں  اس کی وجہ سے حسنی مبارک کے قریبی لوگ تو امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور عام مصری غربت ک دلدل میں دھنستا گیا-
 
مصر میں قابل کاشت اراضی اتنی نہیں کہ وہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرسکے، اس کے لئے 50فیصد سے زائد ضرورت امریکی گندم سے پوری ہوتی ہے- اس امداد کے لئے ہر سال امریکی کانگریس سے تجدید ضروری ہے- مضبوط یہودی لابی جو امریکی پالیسیوں کو عملاً کنٹرول کرتی ہے، جب چاہے اس امداد کو روک کر مصرکے لئے زبردست مشکلات پیدا کرسکتی ہے- سادات اور حسنی مبارک نے اس غذائی امداد اور اربوں ڈالرز کی امداد کے عوض اپنی پالیسیوں کو اسرائیل کے پاس رہن رکھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے قوم پرست اور مذہبی قائدین کی بھاری اکثریت حسنی مبارک سے نفرت کرتی ہے-

حسنی مبارک کا مصر اس خطے میں ’’امریکی راج‘‘ کے لئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے-   469000فوجی، 397000سول آرمڈ فورس اور خونخوار قسم کی سیکرٹ پولیس حکومت کو محفوظ اور اختلافات رکھنے والوں کو کچل کر رکھتے ہیں- اتنی بڑی تعداد کی باوجود یہ فوج اسرائیل کے خلاف جنگ کے تصور سے ہی خائف ہے، کیونکہ اس کے پاس جدید ہتھیار نہیں ہیں جو امریکا نے عمداً مہیا نہیں کیے لہذا یہ ادارے صرف امریکاکی پشت پناہی سے قائم حکومت کو برقرار رکھنے کا ’’قومی‘‘ فریضہ انجام دیتے ہیں- حسنی مبارک اسلامی عسکریت پسند تنظیموں اور قوم پرست جماعتوں کو کچلنے کے لئے اسرائیل کو ہر قسم کی حمایت اور مدد مہیا کرتا ہے-

فلسطین کی حماس، مصر کی مذہبی تنظیم اخوان المسلمون Muslim Brotherhood کی ذیلی شاخ سمجھی جاتی ہے، اس لئے مصر اور اسرائیل اسے مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں اور قاہرہ اسی لئے مصر میں مصروف کار مذہبی تنظیم سے خوف زدہ ہے، کیونکہ ان کے پروگرام میں عام مصری کے لئے بڑی کشش ہے کہ برسراقتدار آنے پر رشوت کوجڑ سے اکھاڑ دیں گئے- وسائل کی منصفانہ تقسیم ، انصاف کی فراہمی اور امریکا کی تابعداری کا خاتمہ کریں گے- اسی خوف کی وجہ سے مصرامریکی امداد سے غزہ کی پٹی کے سرحدی علاقے میں سٹیل اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کررہا ہے جو گہرائی میں 40فٹ تک ہوگئی تاکہ مصر سے فلسطین کو ملانے والی سرنگوں کو بند کیا جائے جن کے ذریعے فلسطین کے لوگ اپنی روزمرہ کی ضروری اشیاء بشمول غذا اور ادویات مصر سے لاسکتے ہیں- لیکن مصر اور اسرائیل دونوں کا دعوی ہے کہ ان سرنگوں سے فلسطین میں اسلحہ لایا جاتا ہے-

مشرقی جرمنی نے بھی اسی طرح کے بہانے بنا کر دیوار برلن تعمیر کی تھی، جو بالآخر ڈھے گئی- امریکا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ایران، برما (میانمار) اور عوامی جمہویہ چین پر برہم رہتا ہے، مصر کے معاملے میں خاموش ہے، جبکہ وہاں انتخابات میں ہمیشہ دھاندلی کی جاتی ہے- حکومت کے مخالف سیاسی اور مذہبی رہنما تشدد کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں-

حقوق کا علمبردار اگر چاہے تو ایک اشارے سے مصر میں جمہوریت بحال کراسکتا ہے لیکن وہ ایسا چاہتا نہیں ہے، اسے وہی جمہوریت بھلی لگتی ہے جو اس کے مفادات کا تحفظ کرسکے، ورنہ ہمیشہ اس نے آمروں کی پرورش اور حفاظت کی ہے- 1991-92ء میں عرب دنیا کے پہلے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوئے- الجزائر میں ان انتخابات کے نتیجے میں اسلامی جماعتیں زبردست اکثریت سے کامیاب ہوئیں، لیکن فوج نے فرانس اور مریکا کی پشت پناہی سے ان جماعتوں کی پوری قیادت کو گرفتار کر لیا- دوسرے آزادانہ انتخابات فلسطین میں ہوئے، حماس نے زبردست اکثریت حاصل کی، لیکن انتقال اقتدار کی بجائے امریکا، اسرائیل اور مصر نے غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کیا ہوا ہے-

ایمان نور کو، جنہوں نے آج فرعون حسنی مبارک کے خلاف انتخابات لڑا تھا، گرفتار کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا- انسانی، سیاسی اور جمہوری حق کی اس خلاف ورزی پر امریکا نے ہونٹ ہلانے کا تکلف کیا، نہ مذمت اور احتجاج! اب جبکہ حسنی مبارک کی تیزی سے بگڑتی صحت نے امریکا اور اسرائیل کو پریشان کیا ہوا ہے کہ ان کا متبادل کون ہو گا، جس جبر اور تشدد نے حبس، غصے اور نفرت کے آتش فشاں کو روکا ہوا ہے، پھٹ پڑا تو پورے خطے پر اس کے اثرات مرتب ہوں گئے- جو یقینا ان کے حق میں ہر گز نہیں ہوں گئے- حسنی مبارک نے اپنے بیٹے کو متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے قبولیت حاصل نہیں ہوسکی، نہ عوام میں اور نہ ہی مضبوط اور موثر اداروں کی طرف ہے- 72سالہ انٹیلی جنس چیف عمر سلیمان ایک متبادل ہوسکتے ہیں، جنہیں امریکا اور اسرائیل کی آشیر باد بھی حاصل ہے، لیکن یہ دونوں کسی اور جنرل کو بھی تیار کررہے ہوں گے، کیونکہ آپشنز تو بہر حال کھلی رکھنی ضروری ہیں-

مصر میں سیکولر اور آزاد خیال حزب اختلاف کا وجود ہی نہیں ہے- صرف Muslim Brotherhood ہے، لیکن اس کی قیادت بھی عمر رسید اور بزرگ حضرات پر مشتمل ہے- نوجوان اور پرجوش تعلیم یافتہ افراد یاتو جیلوں میں ہیں یا سہولیات کے مزے لے رہے ہیں- یاد رہے کہ مصر کی آدھی سے زیادہ آبادی 20سال تک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے- اس عمر میں نوجوان کچھ بھی کر گزرنے کی ہمت رکھتے ہیں- ہنگامے شروع ہونے پر فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں، اسی لئے حکومت ایسی فضا بننے ہی نہیں دے رہی، چاہے تشدد کی آخری حد تک جانا پڑے- محمد البرادی جو عالمی ایٹمی ایجنسی  کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں، مصری ہیں اور اپنے وطن میں جمہوریت کی بحالی اور مضبوط جمہوری اداروں کی بات بھی کرتے ہیں، مصر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، ہر لحاظ سے ایک بہترین متبادل ہوسکتے ہیں، لیکن حکومت نے ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں، ان کی اہلیت کا اعتراف کرنے والوں کے خلاف مہم شروع کی ہوئی ہے- امریکا کے لئے بھی درست فیصلہ یہی ہو گا کہ ایک پاپولر شخصیت کو لانے کی کوشش کرے نہ کہ پھر ایک سخت گیر اور جابر جنرل کو لے آئے-
 
ایران سے سبق سیکھنا چاہیے ، لیکن اندازہ یہی ہے کہ امریکا اپنی ہدایات کے مطابق کسی جنرل کو لائے اور وہ اپنی وفادار فوج اور خفیہ اداروں کی مدد سے حکومت کرتا رہے- انہیں ڈر ہے کہ 30سال خوف وہراس کی فضا، ظلم اور جبر کے اقدامات، حقوق سے محرومی کا احساس، بہتر تبدیلی کی شدید خواہش، غربت، بیروزگاری نیل کے ساحل پر آتش فشاں نہ بن جائے، کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں اردن، مراکش، تیونس  پھر امارات اور سعودی عرب بھی اسی قسم کے حالات کا شکار ہو سکتے ہیں-   

بشکریہ روزنامہ پاکستان

لینک کوتاه:

کپی شد