جمعه 15/نوامبر/2024

مشرق وسطی میں قیام امن

اتوار 27-اپریل-2008

جمی کارٹر کا نام عربوں نے پہلی بار اس وقت سنا جب وہ نومبر 1976ء میں امریکہ کے صدر منتخب ہوئے- عربوں کو اندیشہ تھا کہ مشرق وسطی میں وہ بھی اس پالیسی پر اصرار کریں گے جس پر سابقہ وزیر خارجہ ہنری کسنجر کار بند تھے جن کی (یہودی ہونے کے ناطے) اسرائیل کے ساتھ ہمدردیاں ڈھکی چھپی نہ تھیں- اس پر مستزاد یہ کہ کارٹر نے انتخابات سے قبل ایک موقع پر انکشاف کیا تھا کہ ان کی آج تک کسی عرب سے ملاقات نہیں ہوئی تاہم دنیا امریکی صدر سابقہ حکمرانوں سے بہت مختلف ثابت ہوا- اس نے پہلے ہی دن یہ اعلان کردیا کہ وہ دنیا کو ’’سرد جنگ‘‘ کی تنگ نظری سے نہیں دیکھیں گے جس کے بارے میں امریکہ کا استدلال تھا کہ ’’یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں اور اگر نہیں تو پھر آپ روس کے حواری ہیں‘‘ (اسی قسم کا اعلان نائن الیون کے بعد جارج بش نے بھی کیا تھا یعنی یا تو آپ ہمارے ساتھ یا پھر دہشت گردوں کے ساتھی ہیں، غیر جانبداری کوئی بہانہ نہیں)-
جمی کارٹر نے صدارت سنبھالتے ہی سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ فہد، اسرائیلی وزیر اضحاک رابن، اردن کے شاہ حسین، شام کے حافظ الاسد اور مصر کے انور السادات کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی- حافظ الاسد کے سوا باقی سب نے فوری جواب دیا مگر اضحاک رابن جو قبل ازیں نو برس تک واشنگٹن انتظامیہ کا اہم رکن رہا تھا، صدر کارٹر کی طرف سے عربوں کو دعوت دینے پر سخت سیخ پا ہوا- کارٹر نے مشرق وسطی کے بارے میں نئی پالیسی اسرائیل سے منظور کرائے بغیر اختیار کرنے کی جسارت کی تھی اور اس سے بھی زیادہ ناقابل قبول بات یہ تھی کہ اس نے فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کے قیام کا وعدہ بھی کرلیا تھا نیز شام کے ساتھ امریکہ کی کشیدگی ختم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا- عربوں کے عام خیال کے برعکس کارٹر اسرائیل کے خلاف نہیں تھا تاہم وہ عربوں کو بھی جینے کا حق دینے کا حامی تھا اور اس نظریے سے اس کے وزیر خارجہ سائرس وانز اور قومی سلامتی کے مشیر زہگینو برزیزنسکی پوری طرح متفق تھے- اس سال برزیزنسکی نے (جو کہ اب ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بارک اوباما کے خارجہ پالیسی کے مشیر ہیں) شامی دارالحکومت دمشق کا دورہ کیا اور صدر بشار الاسد سے ملاقات کی اور ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں طلبہ سے خطاب بھی کیا جہاں اس سے بہت تلخ سوالات پوچھے گئے اور امریکی پالیسیوں میں تضاد کی نشاندہی کی گئی- تاہم واشنگٹن میں اس دورے پر ساری بش انتظامیہ دہشت زدہ ہوگئی-
لیکن یہ دہشت زدگی اس دھچکے کے مقابلے میں بہت معمولی تھی جو سابق صدر جمی کارٹر نے اٹھارہ اپریل کو دمشق کا دورہ کر کے اور بشار الاسد اور حماس کے خالد مشعل کے ساتھ ملاقات کر کے بش انتظامیہ کو لگایا کیونکہ امریکہ نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کررکھی ہے- تاہم کارٹر کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل کو اپنے عرب ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنا ہے تو پھر فلسطینیوں کو بھی اس عمل میں شامل کرنا ناگزیر ہے-
کارٹر کے مشرق وسطی کے دورے کے تین بڑے مقاصد ہیں اول حماس اور اسرائیل میں تشدد ختم کرانا، دوئم اس اسرائیلی فوجی (کارپورل گیلاد شالیت) کو رہا کرانا جو 2006ء سے حماس کی تحویل میں ہے اور سوئم اسرائیلی جیلوں میں قید (لاتعداد) فلسطینیوں کو آزاد کرانا- علاوہ ازیں شام کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر بنانا بھی ان کے ایجنڈے پر ہے-
اپنی کتاب ’’پیس ناٹ اپارتھائیڈ‘‘ میں کارٹر نے لکھا ہے‘‘ جب میں صدر بنا تو میرا ایک بڑا مقصد صدر حافظ الاسد کو خطے میں قیام امن کے لیے قائل کرنا تھا- سابقہ وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے حافظ الاسد کی ذہانت کی تعریف کی تھی میں نے اسے واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی تو اس نے بڑی نرمی سے یہ دعوت مسترد کردی‘‘ تاہم حافظ الاسد اور کارٹر کی ملاقات اردن کے شاہ حسین کی تدفین کے موقع پر ہوگئی-
شام کے لوگ آج بھی کارٹر کو ایک دیانتدار امریکی صدر کے طور پر جانتے ہیں جبکہ 1978ء میں کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ بھی کارٹر کا کارنامہ تھا- کارٹر نے 2005ء میں بھی شام کا دورہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر بش انتظامیہ نے انہیں نہایت سختی سے روک دیا- تاہم کارٹر کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں حقیقی طور پر قیام امن کے سلسلے میں شام کا کردار بے حد اہم ہے- وہ فلسطین میں قیام امن کے لیے حماس کے تعاون کو ضروری خیال کرتے ہیں-
اب سوال یہ ہے کہ آخر کارٹر نے واشنگٹن کی سخت مخالفت کے باوجود شام کا دورہ کیوں کیا؟ تو اس کا جواب ہے کہ کارٹر شام کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے بعد امریکی تھنک ٹینک کو اصل صورتحال سے مطلع کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ سب محض اپنے طور پر کررہے تاکہ جارج بش کے بعد جو بھی وہائٹ ہائوس میں آئے خواہ اوباما، ہیلری یا میک کین وہ اس مسئلہ کے ٹھوس حل کے لیے پیش قدمی کرسکے-
ساق صدر جمی کارٹر کو خدشہ ہے کہ اگر اس موقع پر درست اقدامات نہ کیے گئے تو مشرق وسطی میں پھر ایک جنگ چھڑ سکتی ہے- واشنگٹن کا اصرار ہے کہ شام پر بمباری کے سوا مسئلہ کے حل کا اور کوئی راستہ نہیں جبکہ سب سے قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے اسرائیل اس بمباری کے حق میں نہیں- امریکہ کے مختلف صدور کی طرف سے نئے نئے نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں جن کو صدارتی ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا- پہلا ڈاکٹرائن جاپان پر ایٹم بم گرانے والے صدر ٹرومین نے پیش کیا پھر آئزن ہاور ڈاکٹرائن آیا اور اس کے بعد نکسن ڈاکٹرائن جس میں ایران اور سعودی عرب کو فوجی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا- کارٹر چونکہ اب امریکہ صدر نہیں ہیں لہذا ان کی مساعی کو ڈاکٹرائن کا نام تو نہیں دیا گیا تاہم شام کے لوگ جمی کارٹر کے حالیہ اقدامات کو تازہ ہوا کے جھونکے سے تشبیہ دے رہے ہیں-
کارٹر نے جب امریکہ کے 39 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا تو ان کو ایک دوراندیش اور اچھے کردار کے حامل حکمران کا درجہ دیا گیا اور ان کے بارے میں یہ تاثر اندرون ملک ہی نہیں بلکہ عرب دنیا میں بھی پایا جاتا تھا جس کو ان کے اقدامات نے درست بھی ثابت کیا لیکن اب واشنگٹن میں انہیں ’’ناپسندیدہ شخصیت‘‘ (پرسونا نان گراٹا)تصور کیا جارہا ہے کیونکہ وہ جارج بش کی جنگجویانہ پالیسی کے برعکس امن کی راہ پر گامزن ہیں

لینک کوتاه:

کپی شد