اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن ناتھن یاہواور صدر باراک اوبامہ کی پہلی ملاقات نے یہ ثابت کر دیا ہے اسرائیل اپنے ــ’’نئے ‘‘موقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہے-اسرائیل کی موجودہ حکومت اپنی پرانی حکومتوں کے معاہدوں کے باوجود اور امریکی تعاون کے باوجودفلسطینی ریاست کے قیام کے لئے تیار نہیں ہے – آج وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور باراک اوباما جو بولنے کے فن میں ماہر ہیں ان کی زبان میں لکنت نے ثابت کر دیا ہے کہ ایک بھی غلط لفظ ان کے اوپر آفت نازل کر سکتا ہے اور بخدا اگر آپ غور سے امریکہ کے چار اور صدور کی ملاقاتیں اسرائیلی سربراہوں ـ سے دیکھیں تو ہر صدر ہکلاتا نظر آتا ہے-
یہ دہشت گردی ہے اسرائیل کی زبان کی ذرا سی غلطی ان کو امریکی ذرائع ابلاغ میں کتا بنا سکتی ہے- ذکر امریکی ذرائع ابلاغ کا آیا ہے تویہ بات باعث تعجب نہیں ہونی چاہئے کہ امریکی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی کا ذکر کرنے کی بجائے ایران پر صدر اوباما کی تنقید کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے تاکہ اسرائیل کے اس موقف کو تقویت ملے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اسرائیل کے لیے خطرہ ہے اور اس طرح اسرائیل کا ایران پر حملہ کرنا اور ایٹمی پلانٹ تباہ کیا جاسکے –
اب آیئے بنجمن نیتن یاہو کی طرف جو کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں اور فلسطینی kosherابتدائی تیاری کومقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری کے حامی ہیں -اسرائیلی اور فلسطینی حکومتیں ان دو نکات پر معاہدہ کر چکی ہیں اور یہ نکات peace road mapامریکن امن معاہدے کے نکات ہیں جو خود امریکہ نے اپنے امن معاہدے میں بنائے تھے اور ان ہی معاہدوں کی پامالی پر امریکہ بھی چپ ہے اور امریکی ذرائع ابلاغ بھی چپ ہے-بدقسمتی یہ ہے کہ امریکن مسلمانوں کو اور ان کی تنظیموں کو اتنا خوفزدہ کر دیا گیاہے کہ وہ فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف نہ متحد ہو سکتی ہے اور نہ ہی انصاف اور امن کے حصول کی تحریک چلائی جا سکتی ہے –
جب دلوں میں خوف پل رہا ہو اور زبانوں پر پابندی ہو تو وہ خوف بغاوت پیدا کرتا ہے اور زبان ہاتھ بن کر تلوار کا روپ دھار لیتی ہے- یہی آجکل مشرق وسطی میں ہو رہا ہے یہی آجکل فلسطین میں ہو رہا ہے-آج دنیا نے صدر باراک اوبامہ کی زبان میں جو لکنت دیکھی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرق وسطی میں جب تک نیتن یاہو ہے کچھ نہیں ہونے والاہے اور جب کچھ نہیں ہونے والا ہے تو پھر دنیا کے دوسرے عوام دوسرے مسلمان کیونکر امریکی قیادت پر بھروسہ کریں گے کہ صدر اوباما ’’تبدیلی‘‘لانے کے اہل ہیں -ہاں وہ امریکہ میں اقتصادی تبدیلی لاسکتے ہیں مگر مشرق وسطی میں سیاسی تبدیلی نہیں لا سکتے ہیں -آج یہ دنیا نے جو کچھ اس ملاقات میں دیکھا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ اور امریکی قیادت اسرائیلی لابی سے کتنی خوفزدہ ہے اور کتنی مجبور ہے-