جمعه 02/می/2025

مسئلہ فلسطین کے حل کیلیے مذاکرات

منگل 30-نومبر-2010

امریکی صدر باراک حسین اوباما نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں عرب اور فلسطینیوں کے جذبات کو یہ کہتے ہوئے گدگدایا کہ اگر فلسطینی ، اسرائیلی مذاکرات جاری رہے تو ان کو امید ہے کہ سال بھر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی ایک نئی مملکت شامل ہو گی۔عرب خاص طور پر پڑوسی ممالک مصر ،اردن اور عرب لیگ کی عرب کمیٹی کے باقی ممبران پر امریکا نے اپنا پورا دباؤ ڈالا کہ (غیر نمائندہ صدر)محمود عباس کی غیر مفید بالواسطہ مذاکرات سے بلاواسطہ راست مذاکرات کی طرف منتقلی کی تائید کریں جن کے امریکا ،شرم الشیخ اور قدس شریف میں تین دورے ہو چکے ہیں لیکن آج تک امید کی کوئی کرن ظاہر نہیں ہوئی ہے۔

لڑکھڑاتی ہوئی یہ ملاقاتیں آخرناجائز یہودی آباد کاری کی چٹان سے ٹکرا کر چور چور ہو گئیں اور اب یہ بے یارو مددگار مذاکرات کاروں کی اصل مسئلے سے ہٹ کر سب سے بڑی آزرو یہ رہ گئی ہے کہ یہ نہ جائز آبادکاری مکمل طور پر موقف اور غصب شدہ زمین کی واپسی نہیں بلکہ دکھاوے کے لیے صرف تین چار ماہ کیلئے منجمد ہو جائے،جب مجبوری اس حد تک پہنچ جائے تو فلسطینی حقوق کی واپسی کی بات کا کیا سوال؟

محمود عباس کے قول وقرار میں بھی استقلال نہیں رہ گیا ہے چنانچہ کبھی وہ کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات جاری رکھیں گے خواہ ناجائز تعمیرات منجمد ہوں یا نہ ہوں۔پھر چند گھنٹے بعد اعلان کرتے ہیں کہ جب تک آبادکاری کو موقوف کرنے کی مدت نہیں بڑھائی جا ئے گی وہ مذاکرات جاری نہیں رکھیں گے۔ حالانکہ ان کو اور ان کے رفقا کو خوب معلوم ہے کہ یہ ناجائز آبادکاری کی موقوفی کی مدت میں بھی مطلقانہیں رکی تھی اور تعمیراتی توسیع مغربی کنارے کے ایک چوتھائی حصے سے زیادہ کو ہڑپ کر کے قدس کو گھیرے میںلے چکی ہے جس کے بارے میں صہیونی دشمنی کا اعلان ہے کہ وہ آبادکاری کی کسی بھی قرارداد بلکہ مذاکرات سے بھی خارج ہے۔اسکے بعد دشمن کا وزیر خارجہ لیبر مان انتہائی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ مملکت کی یہودی نوعیت کو تسلیم کئے بغیر بھی چارہ نہیں ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ 1948 کی مقبوضہ فلسطینی زمین سے جو عرب اب تک چمٹے ہوئے ہیں ان میں سے  20فیصد کو وہاں سے ہجرت کیلیے مجبور کیا جائے گا۔

اصل میں تمام تفصیلات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا اور اس کے ساتھ صہیونیوں کا خیال ہے کہ مسئلہ فلسطین کے صفائی اور فائنل دستبرداری کے چیک پر دستخط کی باقی امید تنظیم آزادی فلسطین کے کمزور ترین حلقہ کے آخری نمائندوں سے نجات حاصل کرنے سے قبل ان سے مذاکرات ہی میں ہے، پھر سلام فیاض چھوٹی سے کمزور ترین مملکت کی تعمیرکا مشن مکمل کریں گے، جس میں مملکت کے قیام کے عناصر میں سے کوئی امکان نہیں ہو گا ، نہ زمین پر اقتدار نہ آبی وسائل پر کنٹرول نہ مالی مصادر ،نہ حقیقی اقتصادیات ، نہ جغرافیائی اتصال، نہ باقی فلسطین سے مواصلاتی رابط، اس مملکت کا فرض منصبی یہودی مملکت کے امن و امان کی حفاظت ہو گا، اس کے بدلے اس کو یورپ ، امریکا اور ورلڈ بینک سے جو امداداور عطیے ملیں گے اس کے ذمہ ان کی پناہ گزین قوم میں تقسیم کا کام ہو گاتاکہ اس کو کوئی زندگی کی اد نیٰ حد تک ضمانت حاصل رہے تو وہ مشتعل نہ ہوں، غیظ و غضب میں مبتلا نہ ہوں اور صہیونی دشمن کے خلاف اپنا غصہ نہ اتارے۔وہ اپنی تدبیریںکرتے ہیں اور اللہ ان کو ان کے پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے۔ان کا خیال ہے کہ موجودہ تاریخی لمحہ مسئلہ فلسطین کے صفائے کے آخری مرحلے کی تنفیذ کیلے بہترین اور قیمتی وقت ہے: عرب سرکاری نظام پسپائی کی حالت میں آخری سانسیں لے رہا ہے اور وہ قاہر ہ میں ا مریکی سفیرکی موجودگی میں بالواسطہ پھر بلاواسطہ اسرائیلی ۔ فلسطینی مذاکرات کو رسمیCoverدے رہا ہے۔

دگرگوں عرب حالت:عرب ممالک آپس کی تلخ لڑائی میں تھکے ہوئے ہیں ۔ وہ ٹکرے ٹکرے ہو کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بکھر رہے ہیں ۔ سوڈان جیسے استصواب کے دروازے پر ہے جس میں اس کی وہ مملکتوں میں تقسیم طے ہوئی ہے۔یمن ازسر نو جنوب کی علاحدگی کیلیے القاعدہ تنظیم کی آگ اور جنوبی تحریک کے مظاہرات کی تلخ کشمکش میں مبتلا ہے ، وہ گھڑی کی سوئیاں پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔صومال میں کشاکشیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں، یہاں تک کہ عارضی حکومت میں اتحادی فریقوں کے درمیان بھی دل صاف نہیں ہیں، افریقی افواج اس کی زمین پر امڈ رہی ہے اور خون کی نہریں جاری ہیں ۔موریطانیہ میں القاعدہ کے خلاف فوج جنگ چھیڑے ہوئے ہے۔عراق سیاسی طور پرمفلوج ہے اور مسلسل دھماکوں نے حالات کو تقریباًآخری نقطے تک پہنچا دیا ہے ۔ بڑے عرب ممالک اپنی اندرونی پریشانیوں میں مبتلا ہیں

مصر:اقتدار کی منتقلی کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے ۔ کرپشن ہر میدان زندگی کو کھوکھلا کر رہا ہے اور وہ سیاسی جمود اور بدافق تک پہنچ گیا ہے ۔ اردن اپنی فکروں میں مبتلا ہے وہ اپنے ملک کو متبادل فلسطینی وطن کے خطے سے بچانا چاہتا ہے ۔ لبنان میں جیسے ہی حالات سنبھلتے ہیں پھر ازسر نو بھڑک اٹھتے ہیں۔وہاں مذہبی فتنہ اور گروہی جنگ کا خطرہ منڈلارہا ہے اور عرب عموماً صہیونی خطرے سے زیادہ (جو کئی عشروں سے ان کے سینے پر سوار ہے)ایران کے امکانی خطرے سے فکر مند ہے۔

خطے کی فضائیں ایران کے خلاف قریبی جنگ کے شور سے گونج رہی ہیں جس کی تمہید مرحلہ وار پوری ہو رہی ہے۔خلیجی ممالک کی طرف سے امریکا یور پ پر اربوکھربوں کے اسلحے کے سودوں کی بارش ہو رہی ہے ، ان کے اسلحہ سے پٹے ہوئے ڈپوزسے امریکی و یورپی اسلحے کے صنعتی اداروں کی ہوس پورا ہونے کا نام نہیں لیتی کسی کو نہیں معلوم کہ کب تک یہ اسلحہ کے ڈھیر لگائے جاتے رہے گے ؟ اور ان کو کون کس کے خلاف اور کن جنگوں میں استعمال کیا جائے گا۔؟ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ شفاف اتنخابات کے جمہوری وعدوں اور انسانی حقوق کے دعوؤں سے پسپائی اختیار کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے مصرو اردن میں انتخابات کے بائیکاٹ کی آواز اٹھ رہی ہیں جو دوسرے ممالک تک بھی پہنچیں گی۔

ان تشویشناک حالات میں ایک سال کے اندر مسئلہ فلسطینی کے صفائے کے معاہدے کی تمہید بنائی جا رہی ہے ، اس سلسلے میں پہلے بھی انہوں نے کوشش کی تھی مگر ناکام ہوئے ، وہ پھر کوشش کریں گے اور ناکام ہوں گے،اس لیے کہ مسئلہ فلسطین مرنے والا نہیں ہے ، ہو سکتا ہے کہ عرب اور فلسطینی فی الوقت کمزور ہوں لیکن ان کے دلوں ، عقلوں اور بازوؤں میں اس کا باقی حساب ختم ہونے والا نہیں ہے ۔مزاحمتی نسلیں پتھر سے لیکر راکٹ تک ہر طریقے سے مزاحمت کا جھنڈا بلند کریں گی اور اپنے قانونی حق سے دستبردار نہیں ہوں گی۔ہر جگہ فلسطین قوم واپسی کے حق سے دستبرداری کے قانون کو ر د کرتی ہیں اور فلسطینی حقوق ومسلمات میں کوتاہی کو مستردکرتی ہیں۔انہوں نے ”فلسطین حقوق و مسلمات کے دفاع کی وطنی مجلس” تشکیل دی ہے اور مشورہ کے لیے دو سو عرب شخصیات جمع ہوئیں کہ شکست خوردہ مذاکراتی آباد کاری کے منصوبے کا ساقط کیاجائے ۔ قدس حرکت میں ہے، اہل قدس صہیونی آبادکاری کے منصوبوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔زیادہ سے زیادہ شہادتیں پیش کر رہے ہیں ۔نہتے باشندے صرف اپنے جسموں سے مسجد اقصیٰ کا دفاع کر رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کے صحیفوں کی بے حرمتی کرنے والے مجرم فوجیوں سے پوری بہادری سے ٹکر لے رہے ہیں ۔

مغربی کنارے نے بھی سپر نہیں ڈالا۔صہیونی دشمن کے سامنے شکست خوردہ عباس اتھارٹی کے خلاف بڑھتی ہوئی بیزاری ہے اور جنرل ڈائٹون کی پولیس فورس کے خلاف غصہ بھڑک رہا ہے جو ایک دن پھٹ کر رہے گا اور وہ دن آنا یقینی ہے۔ صہیونی دشمن کا غرور قہر زوروں پر ہے، وہ فلسطینی مذاکرات کار کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔

فلسطینی قوم پر اس کے معکوس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔اس نے ساٹھ برس سے مزاحمت جاری رکھی ہے ، اگر امن کی بات ہو تو وہ حقیقی امن چاہتی ہے جس سے اس کے حقوق واپس ملیں ، اور اگر مملکت کی بات ہو تو وہ حقیقی مملکت چاہتی ہیں ، صرف جھنڈے ۔ پروٹوکول اور نام کے عہدوں کی وہمی مملکت نہیں۔یہ عرب حالت زار دائمی نہیں ہے، اس کو ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہے اور اس صہیونی منصوبے کی ناکامی اور خاتمہ بھی یقینی ہے اس لیے وہ انسانی دار،جغرافیائی حقائق اور تاریخی مسلمات کے خلاف ہے۔

لینک کوتاه:

کپی شد