فلسطینی عوام کی بڑی اکثریت جن کی سیاسی نمائندگی اس وقت اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) اور حزب اللہ کررہی ہے ، اسرائیل کے وجود کو ایک جائز ریاست کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور اصولی اور اخلاقی طور پر ان کا یہ موقف درست ہے ، لیکن دیگر فلسطینی سیاسی حلقے اور بعض عرب ممالک جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس مسئلہ کا حل چاہتے ہیں ، ان کاموقف بھی یہ ہے کہ اسرائیل کے لیے جو حدود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی طے کرچکی ہے ، وہ ان حدود میں واپس جائے اور اس نے 1967ء کے بعد جن عرب علاقوں پر قبضہ کیا ہے انہیں خالی کردے تاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں کی آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام عمل میں لایاجاسکے، لیکن اسرائیل اس کے لیے کسی صورت میں بھی تیار نظر نہیں آتا –
وہ اپنی اس ضد پر بدستور قائم ہے کہ وہ اب تک جو کچھ بھی کرچکاہے ، اس سب کچھ کو جائز قرار دیا جائے اور اس کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر اسی کی شرائط کے مطابق ایک ڈھیلی ڈھالی فلسطینی ریاست قائم کرکے دنیا کو بتا دیا جائے کہ فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے وعدے کے مطابق ایک آزاد یاست کی حیثیت دے دی گئی – ظاہر بات ہے کہ اس کھلی دھاندلی کو دنیا کا کوئی بھی باشعور شخص فلسطینیوں کے ساتھ انصاف قرار نہیں دے گا ، مگر امریکہ کی ہر ممکن کوشش یہ ہے کہ اسرائیل کی اس خواہش کو کسی نہ کسی طرح عملی جامہ پہنادیا جائے –
فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی اس کھلی دھاندلی کی راہ میں بڑی رکاوٹ حماس ہے ، جو ایک مضبوط عسکری قوت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طاقت بھی ہے اور 2006ء کے انتخابا ت میں فلسطینی عوام نے حماس کو اپنی سیاسی نمائندگی کا حق دے کر ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے حوالے سے اپنے موقف اور رجحانات کا واضح طور پر اظہار کردیا ہے –
اس پس منظر میں صدر بش کا دورہ مشرق وسطی کیافی الواقع فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے ہے یاوہ اس کے ذریعہ امریکہ کے اس سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں اپنی پارٹی کوسیاسی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جلد ہی سامنے آجائے گا- دانشور اور سفارتی حلقوں میں اس کے بارے میں کچھ سوچا جارہا ہے، اس حوالہ سے ایک رپورٹ عرب اخبار نے اپنی حالیہ اشاعت میں شائع کی ہے-
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ لبنان میں متعین برطانوی سفیر محترمہ فرانس گائی نے ایک سمینار میں ’’برطانوی اسلامی تعلقات تصادم سے اخوت پر مبنی‘‘ کے موضوع پر لکچر دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’فلسطین میں ہمارے پیش روؤں نے جو غلطیاں کی ہیں، ان کو سدھارنا ہمارے لئے ناممکن ہے، لیکن عدل وانصاف پر مبنی امن وسلامتی کے لئے کوشش کرنا ہمارے لئے یقینا ممکن ہے، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کو ایک موثر طاقت نہیں سمجھا جاتا‘‘-
اس سلسلہ میں محترمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیگر ممالک کے حکمرانوں کے چاہیے کہ وہ سرزمین فلسطین کا دورہ وہاں کے عوام کی ذلت و خواری کو دیکھنے اور سمجھنے کی نیت سے اور اس نیت سے کریں کہ ایسی پالیسی اختیار کی جاسکے جس سے اہل فلسطینی اس صورتحال سے باہر آجائیں‘‘-
اس موقع پر بیروت کے ایک سابق سفیر سمیر خوزی نے محترمہ فرانس گائی سے سوال کیا کہ وہ حکومت برطانیہ کو اس کے لئے کیسے برحق قرار دے سکتی ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ باہمی تعاون کے لئے کوشاں ہے، جبکہ اس نے نہ تو حماس سے گفتگو کی ہے اور نہ ہی حزب اللہ سے؟ اس کے جواب میں برطانوی سفیر نے کہا کہ’’میں آپ کی بات سے متفق ہوں، لیکن ہمارے ہاتھ بندے ہوئے ہیں-
برطانیہ کی ایک ذمہ دار سفارتکار خاتون نے جولبنان میں برطانیہ کی سفارت کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں، ان چندجملوں میں بہت کچھ کہہ دیا ہے اور سفارتی زبان میں مسئلہ فلسطین کی موجودہ معروضی صورتحال کو پوری طرح واضح کردیا ہے، اس کے باوجود اگر دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امریکہ فلسطین کے لئے ایک آزادریاست کے قیام کے لئے سنجیدہ ہے تواس فریب کاری پرافسوس کے اظہار کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے-
خداجانے اس موقع پر محترمہ فرانس گائی سے کسی نے سوال کیا یانہیں؟ البتہ اگران تک کسی طرح یہ سوال پہنچ سکے توہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ پیش روؤں کی غلطیوں کی اصلاح کئے بغیر ’’عدل وانصاف پر مبنی امن وسلامتی ‘‘ کا حصول آخر کس طرح ممکن ہوگا؟