جمعه 15/نوامبر/2024

مزاحمت کاروں کا غلیل سے راکٹ تک کا سفر

ہفتہ 9-فروری-2008

بریگیڈئیر جنرل عیزر چکیدی اسرائیلی بری افواج کے سربراہ ہیں- انہیں فوج میں خدمات انجام دیتے تقریبا بیس سال سے زائد عرصہ بیت چلا ہے- وہ اب تک اسرائیل کے لبنان، شام، فلسطین اور عراق کے خلاف کئی جنگی معرکوں میں داد شجاعت دے چکے ہیں-
 بری فوج کی کمان سنبھالنے سے قبل انہوں نے لبنان اور فلسطین میں مجاہدین کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں- انہیں جدید ترین اسرائیلی اسلحہ کے استعمال کا’’ ماسٹر‘‘ بھی کہاجاتا ہے-حال ہی میں انہوں نے اسرائیلی شہر ناصرہ میں بری افواج کے ا یک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ’’ اسرائیل فلسطینی مجاہدین کے تیار کردہ راکٹوں سے نجات نہیں پا سکتا ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کی عسکری قوت میں مزید تیزی آرہی ہے اور اسرائیل کے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے- اسرائیلی فوج ان تھک کوششوں کے باوجود فلسطینی مزاحمت کاروں کے تیار کردہ راکٹوں کااب تک صرف تین فیصد توڑ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل بزرو قوت اس کا خاتمہ نہیں کر سکتا- اسرائیل اس وقت صحیح پیمانے پر کام نہ کر سکا جب مجاہدین یہ راکٹ تیار کر رہے تھے- اگر بر وقت کوئی قدم اٹھالیا ہوتا تو آج ہمیں راکٹوں کا نشانہ نہ بننا پڑتا- فلسطینیوں نے غلیل سے راکٹ تک کا سفر طے کر لیا ہے جو اسرائیل کے لیے نہایت تشویشناک ہے- ایک دور تھاکہ مزاحمت کار اسرائیلی فوج پر غلیلوں سے کنکریوں اورٹوٹے شیشوں کے پارچہ جات سے حملے کرتے تھے اور اب مزاحمت کار راکٹ اور میزائل تک استعمال کرنے لگے ہیں‘‘-
 اسرائیلی بری فوج کے سربراہ کا یہ اعترافی بیان محض ایک خدشہ ہی نہیں بلکہ اپنی حد تک اپنے اندر حقیقت رکھتا ہے-آج سے بیس سال قبل فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس زیادہ سے زیادہ ایک فرسودہ بندوق ہی تھی جس سے اسرائیلی فوج کی گولوں اوربموں کا مقابلہ کیاجاتا تھا ،یاپتھر سے تھا جو جوابی حملے کے کام آتا – نوے کی دہائی میں اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) نے پہلی مرتبہ اپنا عسکری ونگ الگ کیا اور اس کانام ’’القسام بریگیڈ ‘‘رکھاگیا- عزالدین القسام 1930 ء میں ایک عظیم مجاہدآزادی کے نام سے ابھرے جو فلسطین میں آزادی کے ہیرو کے لقب سے جانے جاتے ہیں1935 ء میں انہیں برطانوی فوج نے ان کے چارساتھیوں سمیت شہید کردیا تھا- عزالدین القسام کو فلسطین میں مسلح جدجہد آزادی کا بانی بھی کہاجاتا ہے-چنانچہ حماس نے اپنا ملٹری ونگ ان کے نام سے منسوب کیا -القسام  بریگیڈنے اسرائیل کے خلاف اپنی جنگی حکمت عملی میں جدت لانے کے لیے جدید اسلحہ سازی کی طرف توجہ دی-
جنگ عظیم دوم کے دوران استعمال ہونے والے اسلحہ کی باقیات کو جمع کر کیا اور نوے کی دہائی کے آخر میں مزاحمت کارایک ایسا راکٹ تیا رکرنے میں کامیاب ہو گئے جو آٹھ سے بارہ کلو میٹر تک مار کرنے اورایک سے تین کلو گرام دھماکہ خیز مواد لے جانے کی صلاحیت کے حامل تھا- راکٹ کا نام ’’القسام1 ‘‘ رکھا گیا جو کمانڈر عز الدین القسام کے نام سے منسو ب تھا- اس کی لمبائی چھ فٹ سات اینچ، موٹائی چھ اینچ ، وزن ساڑھے پانچ کلو گرام اور ایک کلو گرام دھماکہ خیز مواد لے جانے کی صلاحیت تھی –
اس کا باقاعدہ طور پر پہلا تجربہ 1999 ء کے آخر میں کیا گیا، اس کا نشانہ غزہ کے قریب ہی واقع یہودی کولونی’’سدیروٹ‘‘ تھی- سدیروٹ غزہ کی پٹی سے چند ہی کلو میٹر کے فاصلے پر ہے- اس کے بعد القسام میزائلوں کی مزید سیریزکی تیاری کا سلسلہ شروع ہو گیا- 2001 ء میں ’’القسام 2 ‘‘ میزائل کا تجربہ کیا گیا، جس کی رینج پندرہ کلو میٹر تک تھی اور اب اس کا نشانہ سدیروٹ کے بجائے 1948 ء کے اسرائیلی زیر قبضہ علاقوں خصوصاً عسقلان شہر تھا- ’’القسام 2 ‘‘ کی لمبائی 15 فٹ ، موٹائی 15 انچ  اور وزن 32 کلو گرام اور تین کلو گرام دھماکہ خیز مواد لے جانے کی صلاحیت کا حامل تھا – تب تک کے میزائلوں کی رینج 10 سے13 کلو میٹر تک محدود تھی- اس کے بعد ’’القسام 3‘‘ اور’’القسام4 ‘‘کے تجربات بھی کیے گئے -’’قسام 4 ‘‘ بیس فٹ جبکہ اس کی قوت کار پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے- اس میزائل کی ریج 25 کلو میٹر تک ہے جو10 کلوگرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ مار کرنے کی صلاحیت رکھتاہے- اس کے علاوہ القسام بریگیڈ نے’’ہاون‘‘ میزائل بھی تیار کیے ہیں- ہاون میزائل ٹینک شکن طرز پر بنائے گئے ہیں-اگرچہ یہ پوری طرح ٹینک تباہ تو نہیں کر سکتے تاہم ٹینک کی چین میں الجھ کر اس کی کارکردگی متاثر کر دیتے ہیں اور بسا اوقات اسے الٹ بھی دیتے ہیں- اسرائیل کے پاس سب سے زیادہ مضبوط ٹینک’’میرکافا‘‘ کے نام سے تیار کیاگیا ہے، جو دنیا کا محفوظ اور مضبوط ترین ٹینک خیال کیاجاتا ہے-
مجاہدین کے ہاں تیار کردہ ہاون میزائلوں سے یہ ٹینک اب محفوظ نہیں رہا-ان میزائلوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ اسرائیلی ریڈار پر بھی دکھائی نہیں دیتے – یہی امراسرائیلی فوج کے لیے ہمیشہ باعث تشویش  رہاہے جس کی وجہ سے اسرائیل اب تک ان کے خاتمے میں کامیاب نہیں ہوسکا-حماس کی میزائل سازی کے بعد فلسطین میں دیگر مزاحمتی گروپوں نے بھی اس طرف توجہ دی- چنانچہ القدس بریگیڈ نے’’القدس میزائل‘‘ کے نام سے کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کرنے شروع کیے ہیں-صلاح الدین ناصر بریگیڈ نے بھی حماس کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے’’ناصر1  ناصر2  اورناصر3 ‘‘ تیا ر کیے- اس کے علاوہ لبنانی حزب اللہ کا تیار کردہ ’’آر پی جی ‘‘ ٹینک شکن اور طیارہ شکن میزائل تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں-مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے دعوی کیا ہے کہ حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کے پاس حزب اللہ کے ’’آرپی جی‘‘ میزائل کے طرز کے ہزاروں طیارہ شکن اور ٹینک شکن میزائل موجود ہیں- فلسطین میں اسرائیل مخالف جماعت حماس کے بر سر اقتدار آنے کے بعدمجاہدین نے مصری اور اردنی سرحد سے بڑی مقدار میں اسلحہ اور سامان حرب وضرب اسمگل کیا- تل ابیب ہمیشہ فلسطینیوں کو اسلحہ فراہم کرنے میں شام ،حزب اللہ اور ایران کو بھی مورد الزام ٹھہراتا رہا ہے-
حال ہی میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان فلسطینی مزاحمت کاروں کے تیار کردہ میزائلوں کی توڑ کے لیے37 ملین ڈالر کی لاگت کا ایک معاہدہ طے پایا ہے، تاہم اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کے لیے مجاہدین کے تیار کردہ راکٹوں کے توڑ تک پہنچنے کے لیے اب بہت کم وقت رہ گیا ہے اور یہ خدشہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ مجاہدین راکٹوں کو اپ گریڈ کرتے ہوئے اسرائیل کے لیے مزید مشکلات پیدا کریں گے-دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت( حماس) کے ہاں مقامی سطح پر تیار کردہ میزائلوں کی بڑھتی ہوئی رینج پر اسرائیلی خفیہ اداروں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے -خفیہ ادارے’’ موساد‘‘ اور ’’ شاباک ‘‘کی جانب سے جاری حالیہ رپورٹوں کے مطابق حالیہ دنوں میں مجاہدین کی طرف سے داغے گئے میزائلوں سے اسرائیل کی ایسی حساس تنصیبات کو نقصان پہنچاہے جو ا س سے قبل محفوظ سمجھی جاتی تھیں- خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ حماس ایسے ہزاروں کی تعداد میں میزائل تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میزائلوں کی رینج میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا-مجاہدین کی طرف سے فائر کردہ’’ ہاون‘‘ میزائلوں کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باعث اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے کہا کہ راکٹ حملے اسرائیلی عوام اور بچوں کے لیے تباہ کن ثابت ہورہے ہیں- یورپی یونین کے ایک اعلی سطحی وفد سے بات چیت کرتے ہوئے پیریز نے اعتراف کیا کہ فلسطینی راکٹوں سے اڑھائی لاکھ اسرائیلی عوام کی زندگیاں خطرے میں پڑ چکی ہیں، راکٹ حملے ہمارے صبر کا کڑا امتحان ہیں، ان سے نجات کے لیے اسرائیل کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے-غزہ اور اس کے گردو نوا ح میں فلسطینی راکٹ حملوں سے یہودی آبادیاں بری طرح  متاثر ہوئی ہیں-’’سدیروٹ‘‘ اور عسقلان شہر اس کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والے شہر ہیں- ان دونوں شہروں سے اب تک یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں میں پناہ گزین ہو چکی ہے-
فلسطینی راکٹوں سے اسرائیلی تنصیبات کوخاطر خواہ نقصانات کا سامنا ہے-حالیہ دنوں میں مجاہدین نے اسرائیلی فوجی چھائونی’’ایریز ‘‘ پر  پچاس راکٹ فائر کیے، جس سے چھائو نی میں آگ بھڑک اٹھی اور اسلحہ کے کئی اسٹور جل کر خاکستر ہو گئے- اس کے علاوہ اسرائیلی زیر کنٹرول’’المنطار‘‘ راہداری پر القسام میزائلوں سے حملہ کیا گیا-حملے میں آپریشن میں مصروف اسرائیلی فوجی اسلحہ چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے-فلسطینی راکٹوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد اسرائیل نے فلسطین کو واجب الاداء ٹیکسوں کی رقوم روک کر راکٹ متاثرین کو دینے کافیصلہ کیا ہے – اسرائیلی وزارت داخلہ کے حالیہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ راکٹوں سے یہودی آباد کاروں کا جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے، لہذا اسرائیل وہی رقم جو فلسطینی اتھارٹی کو ادا کی جانی ہے روک کر ان یہودیوں کو دے گاجو راکٹوں کی زد میں آکر مالی نقصان اٹھاچکے ہیں- یہ رقوم نقصانات کے ازالے کے علاوہ متاثرین کے علاج معالجے اور نفسیاتی مسائل کے حل پر خرچ کی جائے گی- حکومت نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ اور فلسطینی صدر محمود عباس کو بھی اس فیصلے سے مطلع کر دیا ہے-
اسرائیل غزہ کی پٹی پر ایک بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاہم اس حملے میں دیگر اسباب کے علاوہ ایک رکاوٹ فلسطینی راکٹ بھی ہیں-اسرائیلی خفیہ ادارے’’شاباک‘‘ کے ایک اعلی عہدیدار کارونی ڈانیل نے اسرائیلی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ اسرائیل بہت پہلے سے غزہ پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے تاہم اس میں ایک بڑی رکاوٹ فلسطین میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی قوت خصوصاً راکٹ ہیں- اسرائیل کو خدشہ ہے کہ فوجی کارروائی کے جواب میں مقامی سطح پر تیار کردہ راکٹوں سے اسرائیل کے قلب کو نشانہ بنایا جائے گا- اگر ایسا کیاگیا تو یہودی آباد کاروں اور اہم اسرائیلی تنصیبات کو نقصان پہنچ سکتا ہے – کا رونی نے مزید کہا کہ مجاہدین کے پاس ہلکے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے حیاتیاتی ہتھیار بھی موجود ہیں- انہوں نے کہا غزہ اور تل ابیب کے درمیان برپا ہونے والا کوئی بھی معرکہ اپنی نوعیت کا اب تک کا شدید ترین معرکہ ہو گا ، کیونکہ مزاحمت کار پہلے سے کہیں زیادہ موثرکارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں-
فلسطینی راکٹوں نے اسرائیلی فوج میں محض خوف کی فضاء ہی پیدا نہیں کر رکھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے-اسرائیلی اخبار’’معاریف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مزاحمت کاروں کی بڑھتی ہوئی قوت نے اسرائیلی فوج خصوصا نئے بھرتی ہونے والے نوجوانوں میں بد دلی پیدا کر دی ہے-
مرد سپاہی ہی نہیں بلکہ خواتین اہلکار وں میں بھی فوجی ملازمت چھوڑنے کا رحجان بڑ ھ رہا ہے – رپورٹ کے مطابق 2007 ء کے دوران70 خواتین فوجی ملازمت ترک کر کے دوسرے شعبوں میں کام کرنے لگیں- اس سے قبل2006ء میں80 خواتین اور 55 مرد سپاہیوں نے فوج سے راہ فرار اختیار کی- 2004ء میں1288 خواتین اور مرد فوجیوں نے بھاگنے کی کوشش کی جو ناکام بنا دی گئی، جبکہ 2005ء میں1450، 2006ء میں1386 اور 2007 ء میں1006 فوجیوں نے فرار کی منصوبہ بندی کی جو ناکام بنا دی گئی -ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں 1873 مرد و خواتین فوج سے فرار میں کامیاب ہو چکی ہیں، جن میں سے 800  بیرون ملک فرار ہوئے- مذکورہ اعدادو شمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ فلسطین میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوا ہے،اور اسرائیلی حکام کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ ایک ایسی قوم جو صرف غلیل استعمال کرنا جانتی تھی وہ راکٹ اور میزائل کی تیاری اور استعمال پر کیسے قادر ہوئی جواسرائیلی ارباب اختیار کے لیے ایک اہم سوالیہ نشان ہے- فرار کے علاوہ میزائلوں کی وجہ سے یہودی فوجیوں کی ہلاکتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے- 2000 ء میں12  فوجی ہلاک ہوئے اس کے بعدسے اب تک آٹھ برسوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ فوجی میزائلوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو اور پانچ سو کے قریب زخمی چکے ہیں-
اگرچہ اسرائیل نے راکٹ حملوں کی روک تھام کے لیے غزہ پر مسلسل حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، تاہم اسرائیلی وزیر دفاع ایہودباراک کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے میزائلوں کے خاتمے کے لیے غزہ پر بھاری ہتھیاروں سے بھی حملہ کر سکتے ہیں- تل ابیب میں ایک اخبار کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی راکٹ روکنے کا ہر حربہ استعمال کیاجائے گا اور آسانی سے یہ مسئلہ حل نہ ہو سکاتو اسرائیل بھاری اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کر سکتا ہے-
 باراک نے کہا کہ مجاہدین نے مصر کے راستے اسلحہ اسمگل کر کے زیر زمین سرنگوں میں جمع کر رکھا ہے، ان سرنگوں کی صفائی اور ان میں موجود ہتھیاروں کے خاتمے میں بھاری ہتھیار ہی کارآمد ہو سکتے ہیں، کیونکہ اب تک کی اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں فوج کو نہ توراکٹوں کے صحیح ٹھکانوں کا علم ہوسکا ہے اور نہ ہی بیرون ملک سے برآمد کردہ اسلحہ تباہ کیا جا سکا ہے-اسرائیلی وزیر دفاع کا یہ بیان اپنی نوعیت کا انتہائی سنگین نوعیت کا فیصلہ ہو گا- غزہ نہ صرف فلسطین کا بلکہ دنیا کا گنجان آباد ترین شہر ہے- اس میں کئی سو افراد فی مربع کلو میٹر آباد ہیں- اگر اسرائیل نے بھاری اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کیے تو بہت زیادہ بے گناہ جانو کے ضیاع کا باعث بن سکتی ہے- ایہود باراک کے اس بیان پر عرب ممالک خصوصا عرب لیگ نے شدیدنکتہ چینی کی اور باراک سے اپنا بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا- تاہم اسرائیل کی جانب سے تاحال اس بیان پر کوئی نظر ثانی یا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا-
اسرائیل اگر فلسطینی راکٹوں کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہے تو مجاہدین میزائلوں کی قوت کار بڑھانے اور ان کی رینج میں اضافہ کرنے پر مسلسل کام میں مگن ہیں- حماس کے عسکری ونگ کے رکن انجینئر احمد سعد نے گزشتہ دنوں ایک بیا ن میں کہا کہ مجاہدین اب القسام بریگیڈ کی ایک نئی سیریز پر کام کررہے ہیں، جلد وہ ایک نیا میزائل تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے-خطے میں میزائلوں کی دوڑ کے بارے میں اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگار خاصے پریشان نظر آتے ہیں- اسرائیلی عسکری تجزیہ کار ڈان فیلکس مین نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ شام، حزب اللہ اور ایران کے بعد اسرائیل کو  ایک چوتھی مسلح قوت سے نبرد آزماہونا پڑ رہا ہے‘‘- صہیونی تھینک ٹینک کا یہ تجزیہ اسرائیلی ارباب اختیار کے لیے ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں-
بشکریہ ایکسپریس میگزین

لینک کوتاه:

کپی شد