’’جب میں پچاس برس کا ہواتو میں نے یہ محسوس کیا کہ میں احساسات پر قابو پا سکتاہوں- میں حیفا کسی قسم کی امید لئے بغیر جار ہاہوں- ممکن ہے کہ جب میں حاضرین محفل سے مخاطب ہوں تو میرا دل رورہا ہو- میں ایک محب وطن، ہیرو یا کسی علامت کے طور پر لوگوں کا سامنا کرنا چاہتا ہوں بلکہ صرف ایک شاعر کی حیثیت سے اپنا وجود منوانا چاہتاہوں-‘‘
عدالت نے کہا’’ہوسکتاہے کہ تم اس جنگ کا حصہ نہ بنے ہو لیکن اپنی شاعری کے ذریعے تم نے اپنی فوج کا حوصلہ بڑھایا ہے اور اس جرم کی کوئی معافی نہیں -‘‘
محمود درویش کا ’’جرم ‘‘ بھی ناقابل معافی تھا—اس نے اسرائیلی سامراج کے خلاف اپنی شاعری کے ذریعے جدوجہد کی ہے- آج سے تقریباً نصف صدی قبل فلسطین کی دیہاتی آبادی نے اسرائیلی فوج کے ظلم وجبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیاتھا- نتیجتاً لہلہاتے ہوئے کھیت اجڑ گئے- اب وہاں مٹیاروں کی گیت سنائی نہیں دیتے تھے- فصل کی کٹائی کے موقع پر ہونے والے جشن ماند پڑ گئے—
چہار اطراف خاموشی نے ڈیرے ڈال لئے تھے- محمود درویش کو اس ماحول نے لکھنے کی طرف راغب کیا—–اور پھر وہ لکھتاہی چلا گیا—-یہ ماحول کا سحر تھا یا پھر اپنے لوگوں پر بیتنے والی بپتا نے اس کی حساسیت کو عیاں کیا تھا— اس نے اپنے لوگوں کے لئے شاعری کی- اس نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنے گروہ کے مؤقف کو بیان کیا اور اسے عوام میں مقبول عام بنانے میں اہم کردار ادا کیا — اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ ‘‘ نے محمود درویش کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ ایک ایسا شاعر تھا جس نے دہشت گردی کو جواز فراہم کیا‘‘-
محمود درویش 15مارچ 1941ء کو فلسطینی ضلع ایکڑ کے گائوں البروہ میں پیدا ہوا- یہ گائوں اب اسرائیل کا حصہ ہے- اس کے والد سلیم زمیندار تھے جبکہ والدہ ہوریہ ناخواندہ تھیں-
محمود درویش کو اس کے دادا نے لکھنا پڑھنا سکھایا- اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد محمود درویش کے خاندان نے لبنان میں سکونت اختیار کی- چند برس بعد اس کا خاندان اسرائیل واپس آگیا- صرف 19برس کی عمر میں محمود درویش کی شاعری کا پہلا مجموعہ اشاعت پذیر ہوا-ستر کی دہائی میں محموددرویش نے سوویت یونین کی راہ لی- اس نے ایک برس تک ’’یونیورسٹی آف ماسکو‘‘سے تعلیم حاصل کی- جس کے بعد اس نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کرلی- اسی دوران اس کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی- اسے تقریباً ربع صدی تک غریب الوطنی کا درد سہنا پڑا –
1995ء میں اسے اپنی دوست ایملی جیبی کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے اسرائیلی حکام کی طرف سے چار روز کا پرمٹ جاری ہوا- گزشتہ برس اسے آخری مرتبہ اسرائیل آنے کا موقع ملا- اس حوالے سے محمود درویش نے اپنے ایک انٹرویو میں کہاتھا ’’جب میں پچاس برس کا ہوا تو میں نے یہ محسوس کیا کہ میں احساسات پر قابو پاسکتاہوں- میں حیفا کسی قسم کی امید لئے بغیر جار ہا ہوں-
ممکن ہے کہ جب میں حاضرین محفل سے مخاطب ہوں تو میرا دل رو رہاہو- میں ایک محب وطن یا ہیرو یا کسی علامت کے طور پر لوگوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتابلکہ میں صرف ایک شاعر کی حیثیت سے اپنا وجود منوانا چاہتاہوں ‘‘- ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محمود درویش نے کہاتھا ’’علامتوں کی میرے شعور یا تحت الشعور میں کوئی جگہ نہیں ہے – حیفا میں موجودگی کے دوران میرا خالص پن لوٹ تاہے ‘‘- حاضرین محفل نے جب اس سے دریافت کیا کہ وہ اپنی ابتدائی نظموں کو مشاعرے میں کیوں نہیں پڑھنا چاہتا تو اس نے کہا’’جب کوئی ادیب یہ کہتاہے کہ اس کی اولین کتاب بہترین تھی تو یہ غلط رویہ ہوتاہے- میں سمجھتاہوں کہ میں نے بہتری کی طرف اپنا سفر جاری رکھناہے -‘‘
محموددرویش کی پر آزمائش زندگی میں راحتوں کا کوئی سامان نہ تھا- اپنی طویل جدوجہد کے دوران وہ کئی مرتبہ مایوس ہوا- وہ سمجھتا تھاکہ پرامن اور آزاد فلسطین کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا- اس حوالے سے محمود درویش نے ایک انٹرویو میں کہاتھا ’’ہمیں لوگوں کے درمیان امید کی لو جلا نی ہے کہ اس کے بغیر ہم راستہ کھودیں گے- ہم روز مرہ کی چیزوں سے اپنے لئے تقویت کا سامان کرسکتے ہیں- قدرت کی رعنائیوں اور زندگی کی خوبصورتی سے زندہ رہنے کی امنگ حاصل کی جاسکتی ہے- اگر ذہن صحت مند ہو تو انسان اکثر و بیشتر ناگزیر چیزیں بھی بھول جاتاہے-
اس وقت ’’امید ‘‘کے بارے میں باتیں کرنا مشکل ہے- یہ اسی طرح ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور حال کو نظر انداز کردیں – ہم اپنے مستقبل کو حال میں ہونے والے واقعات سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے لیکن زندہ رہنے کے لئے ہمیں بہرطور امید کی شمع روشن کرنا ہوگی -‘‘
محموددرویش نے اپنی شاعری میں اسرائیلی ریاست کے لئے کھل کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا- ان کی شاعری کی تیس اور نژکی آٹھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں- اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مختلف اخبارات اور جرائد کی ادارت بھی کی- ان کی شاعری کی اولین کتا ب “Leaves of Olives” میں شامل ایک نظم ’’ شناختی کارڈ ‘‘کو عالمی شہرت حاصل ہوئی تھی- یہ نظم کچھ یوں ہے –
یاد رکھو !میں ایک عرب ہوں-
اور پچاس ہزار میرے شناختی کا رڈ کا نمبرہے-
میرے آٹھ بچے ہیں-
اور موسم گرماکے بعد نویں کی آمد ہوگی –
کیا تم غصہ تو نہیں کروگے ؟
یاد رکھو !
میں ایک عرب ہوں –
میرا نام بغیر کسی لقب کے ہے-
ملک میں کشمکش ہے-
لوگ غصے میں ہیں——
میں لوگوں سے نفرت نہیں کرتا نہ ہی حد سے آگے بڑھتاہوں لیکن بھوک نے مجھے اگر اپنے نرغے میں لیا تو قابضین کا گوشت میری خوراک ہوگا-
میرے غصے اور بھوک سے خبردار رہو !
محمود درویش کی انقلابی شاعری انہیں اپنے ہم عصر شعراء سے ممتاز بناتی ہے- ان کی شاعری کے اردو
میت دنیا کی بیس سے زائد زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں- اگرچہ محمود درویش نے عربی میں شاعری کی ہے لیکن وہ انگریزی ‘ فرانسیسی اور عبرانی بھی روانی سے بول سکتے تھے- وہ عربی زبان کے ممتاز شاعر عبدالوہاب البیان اور بدرشاکر السعیات سے متاثر تھے- محمود درویش عبرانی زبان کے شاعر یہود ا امیچائی کی تخلیقات کو پسند کرتے تھے- اس بارے میں وہ کہتے تھے کہ ’’یہودا امیچائی کی شاعری میرے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ ہم دونوں نے ایک ہی فضا کے بارے میں لکھاہے- اس نے اپنے ذاتی فائد ے کے لئے تاریخ اور لینڈ سکیپ کو موضوع بنایا ہے جس کی بنیاد میری تباہ حال پہچان رکھی گئی ہے- لہذا ہمارے درمیان مقابلہ ہے کہ کون اس خطے میں بولی جانے والی زبان کا وارث ہے ؟ کون اس زبان سے زیادہ محبت کرتاہے ؟کون اسے بہتر لکھتاہے ؟
کچھ برس پیشتر اسرائیل میں محمود درویش کی کچھ نظموں کو نصاب تعلیم میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم اس وقت کے وزیراعظم ایہود باراک نے یہ کہہ کر ایسا کرنے سے انکار کردیاتھا کہ فی الوقت اسرائیل اس کے لئے تیار نہیں ہے- اب محموددرویش کی وفات کے بعد اسرائیل میں ایک بار پھر اس بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ آیا محمود درویش کی شاعری کو نصاب تعلیم میں شامل کرنا چاہیے یا نہیں —-
محمود درویش کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں رہی- انہوں نے پہلی شادی رانا کبانی سے کی جو خود بھی ایک ادیبہ تھیں- بعد ازاں انہوں نے مصر کی ایک مترجمہ حیات ہینی سے شادی کی – البتہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی- محمود درویش امراض قلب کا شکار تھے – انہیں دوبار ہارٹ اٹیک ہوا- گزشتہ دنوں 9اگست کو وہ اوپن ہارٹ سرجری کے صرف تین بعد امریکی شہر ہیوسٹن کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے- اس موقع پر فلسطین میں سرکاری سطح پر تین روزہ سوگ منایا گیا-
محمود درویش کی شاعری آنے والے برسوں میں ان کے ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے- بقول وجاہت مسعود ’’سلطان بہت خوش ہے- جدید عربی شاعری میں سلطان کے باجبروت لفظ کو جبر ‘ ظلم ‘ استحصال اور نا انصافی کے استعارے کا درجہ دینے والا محموددرویش جاچکا ہے- پینتیس برس قبل چلی کے شاعر پابلو نرودا کی وفات کے بعد 9اگست 2008ء کی صبح امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں محمود درویش کی موت دنیا بھر کے ان سب ادیبوں کے لئے بہت بڑا صدمہ جو قلم کی نوک کو غیر آدم کی آواز سمجھتے ہیں‘ جو لکھے ہوئے الفاظ کو بھوکے ‘کمزور ‘بے گھر اور بے روز گار افتادگان کی حالت بدلنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں-‘‘