پنج شنبه 01/می/2025

قیام امن کے نام پر صہیونیت نوازی

جمعہ 12-فروری-2010

”امریکا حالت جنگ میں ہے۔ میں غیر ممالک میں موجود امریکی فوج کا ذمہ دار ہوں ۔ دنیا میں قیام امن کیلئے امریکا کردار ادا کرتا رہے گا۔عالمی امن کیلئے کوششیں ختم نہیں بلکہ ابھی شروع ہوئی ہیں۔”

یہ وہ الفاظ ہیں جو امریکی صدر باراک اوباما  نے 10دسمبر2009ء کو ناروے کے شہر اوسلو میں قیام امن کا نوبل ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد اپنی تقریر کے دوران کہے۔ اوباما کے الفاظ کا کیا مطلب سمجھا جائے؟ انہیں وارننگ سمجھا جائے یا پیش گوئی سمجھا جائے آئندہ آنے والے عرصہ میں امریکی افواج کیا کیا کر ے گی۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عالم اسلام کی سالمیت اس وقت خطرے سے دوچا رہے۔عالم اسلام اس وقت مختلف قسم کے اندورنی و بیرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے اور یہ تمام خطرات مسائل امریکا اور اس کے اتحادیوں ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ اسلامی ممالک میں دہشت گردی پھیلی ہونے کی وجہ سے معیشت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ افراتفری ، لاقانونیت اور غیر یقینی حالات پیدا ہو رہے ہیں جو کہ مسلم ممالک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا رہے ہیں۔امریکا ،اسرائیل اور یورپی ممالک نے قیام امن کے نام پر دنیا کا سکون برباد کر دیا ہے اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔

مثلاً 1950ء میں امریکا نے کوریا میں امن قائم کرنے کے نام پرشمالی کوریا کا حملہ روکنے کیلئے کوریا میں اپنی فوجیںداخل کی تھیں۔ عالمی اعدادو شمار کیمطابق اس جنگ میں تقریباً 20 لاکھ کے قریب کوریائی اور ڈیڑھ لاکھ چینی باشندے اپنی زندگی گنوا بیٹھے تھے۔اس کے بعد ویت نام میں 1964ء میں امن کے نام پر فوجیں داخل کیں اور اس کا جواز یہ بتایا کہ ویت نامیوں نے جہازوں پر حملہ کیا اور وہ شمالی ویت نام میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں ۔ اس جنگ میں مرنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے بھی زیادہ تھی اور تقریباً بارہ لاکھ کے قریب فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد امریکا عراق کا حامی بنا اور اس کو اسلحہ اور فوجی طاقت کی حمایت کی اور اس کو ایران پر حملہ کرنے کیلئے اکسایا۔

اس طویل دس سالہ جنگ میں بھی ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔اس کے بعد 1990میں عراق کو کویت سے لڑایا اور پھر کویت میں امن قائم کرنے کے بہانے عراق پر چڑھائی کی اور امریکا نے اس کا پورا خرچا کویت اور سعودیہ سے حاصل کیا۔ 2001ء میں القاعدہ کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں کا امن تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔القاعدہ کا وہاں تو نام و نشان نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی ہیڈ کواٹر کی نشاندہی ہوئی اور نہ ہی القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن ہاتھ آیا۔دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے عراق پر کیمیائی ہتھیار رکھنے کا الزام لگایا اور اس پر دوبارہ چڑھائی کر دی۔ کیمیائی ہتھیار تو نہ ملے مگر امریکا کو اس کی مرضی کا پٹرول مل گیا۔ ان دونوں ملکوں میں جنگ بدستور جاری ہے۔اسی طرح امریکا کی نظر دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک سوڈان ، یمن اور ایران پر لگی ہوئی ہے۔ جہاں وہ قیام امن کے نام پر ان ممالک پر قبضہ کر کے بد امنی پھیلانا چاہتا ہے۔ امریکا کو ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی سے بڑا خطر ہ لگا ہوا ہے جو حقیقتاً پر امن مقاصد کے لئے ہے۔ایران کو اس سے روکنے کیلئے امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک آئے دن ایران پر پابندی لگانے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اور اس بابت اجلاس منعقد کر کے ایران کیخلاف قراردادیںپاس کرتے رہتے ہیں۔

جیسے اقوام متحدہ کے اجلاس میں امریکا ، فرانس اور برطانیہ نے ایران کو نئی پابندیوں کی دھمکی دے دی۔ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر مارک گرانٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تہران عالمی برادری کو اپنے جوہری پروگرام کی پر امن نوعیت کے بارے میں یقین دہانی ،میں ناکام رہا تو اس کیخلاف نئی سخت پابندیاں عائد کرنا یقینی ہے۔اقوام متحدہ میں فرانسیسی سفیر کیراڈ آراڈ نے کہا کہ ہم ایران سے آخری بار کہہ رہے ہیں کہ سلامتی کونسل کے مطالبات کے بارے میں اپنا ردعمل ظاہر کرے۔اگر ایران نے ایسا نہیں کیا تو فرانس سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی نئی قرار داد پیش کرے گا۔

امریکی سفیر سوسان رائس نے کہا کہ عالی برادری اس بات کا پختہ عزم کر ے کہ وہ ایران کو اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اپنی شرائط ماننے کیلئے مجبور کرے گی۔ دراصل یہ تمام بیانات ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا جواز تلاش کرنے کے لئے دئیے جار ہے ہیں۔ حال ہی میں امریکن سنٹرل کمانڈ کے سربرا ہ جنرل ڈیوڈ پیٹر یاس نے سی این این پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر سرجیکل اسٹرائیک یعنی بمباری اور حملے کیے جا سکتے ہیں۔

امریکی اخبار لکھتا ہے کہ مجوزہ حملے کی تیاریاں امریکا اور اسرائیل کے اشتراک سے جاری و ساری ہیں۔ ان حملوں سے امریکا کا ایک ہی مقصد (جو صہیونیت نوازی ہے)واضح ہوتا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ اسرائیل کے آس پاس کے تمام علاقوں پر اسرائیل کا کنٹرول رہے اور اسرائیل عالم عرب پر چودھری بن کر بیٹھا رہے۔اس لیے امریکا اس کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔ بلکہ امریکا کی کانگریس نے 2008ء میں یہ قانون پاس کیا ہے کہ اسرائیل کو امریکا ہر قسم کی ایٹمی و عسکری مدد دے گا۔ابھی حال ہی میں امریکا نے اسرائیل کو ایف 35 جہاز جو کہ ریڈار کی رینج میں نہیں آتے مہیا کیے تھے۔اس کے علاوہ جدید میزائل سسٹم اور دفاع کے متعلق حساس آلات بھی فراہم کیے جا رہے ہیں۔جس سے اسرائیل مزید سے مزیدطاقتور ہوتا جا رہا ہے  اور اس کی دہشت گردی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اسرائیل کی دہشت گردی گزشتہ 60 سالوں سے فلسطین پر جاری ہے جس سے لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیں ، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے ہیں۔فلسطینی اپنے ہی ملک میں خانہ بدوشوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مگر اسرائیل کے حملے کسی طور پر بھی بند نہیں ہو رہے ہیں بلکہ اسرائیل فلسطینیوں کے تنگ کرنے کے روز نئے سے نئے طریقے اختیار کر رہا ہے ۔ مثلاً

اسرائیل کی جانب سے غزہ پر واٹر بم حملہ

غزہ آئن لائن کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے غزہ پر واٹر بم جیسا حملہ کیا جس سے غزہ میں سیلاب آ گیا اور سیکڑوں مکانات تباہ وبرباد ہو گئے۔ بغیر اطلاع ڈیم کے گیٹ کھولنے سے کئی املاک تباہ ہو گئیں اور ہزاروں افراد نقل مکا نی پر مجبور ہو گئے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اچانک سیلاب کے باعث جو ہر ڈیک ولیج سمیت غزہ وادی کے مختلف علاقے پانی میں ڈوب گئے اور ہزاروں افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔ معاہدے کے مطابق اسرائیل ڈیم کا گیٹ کھولنے سے قبل فلسطینی اتھارٹی کو مطلع کر نے کا پابند تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔

زیر زمین فولادی دیوار کی تعمیر

اسرائیل کے ایک میگزین ہارٹز نے عالم اسلام پر یہ خبر دے کر ایک اوربم دے مارا کہ اسرائیل فلسطین کی حدود میں زیر زمین ایک فولادی دیوار تعمیر کر رہا ہے۔جس سے وہ تمام راستے مسدود ہو جائیں گے جس کے ذریعے فلسطینی آپس میں ایک دوسرے سے مل سکتے تھے۔مصر کے ایک رسالہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیوار وہاں بنائی جار ہی ہے جہاں پہلے ہی زمین پر دیوار قائم ہے۔اس کی مرمت او ر اس میں اضافہ کیا جار ہا ہے۔ایک امریکی مبصر کارین نے قاہرہ میں یہ بیان دیا کہ یہ فولادی زیر زمین دیوار امریکا میں تعمیر کی گئی ہے اوراسرائیل میں اس کی تعمیر بھی امریکی ہی کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ معاونت کیلئے فرانسیسی ماہرین کی ٹیم بھی موجود ہے۔

یہ فولادی دیوار اس فولادی دیوارسے زیادہ محفوظ ہے جو اسرائیل نے نہر سوئز میں تعمیر کی تھی۔اس دیوار کی تعمیر س اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطین تمام دنیا سے کٹ جائے اور چاروں طرف سے محصور ہو جائے۔ یعنی آبی راستے دو ہوائی راستے تین زمینی راستے اور چار زیر زمین راستے تمام اس پر بند ہو جائیں اور اسرائیل کا آسانی سے اس پر قبضہ ہو جائے۔عالم اسلام کو چاہیے کہ تمام ملکر متحد ہو کر امریکا کی صہیونی نواز پالیسی سمجھیں اور اسرائیل کے اس ظلم و ستم کیخلاف آواز اٹھائیں اور فلسطینیوں کو یہودیوں کے شکنجے سے نجات دلائیں۔

امریکی صدر باراک اوباما کو چاہیے کہ وہ اس نوبل انعام کی لاج رکھتے ہوئے صہیونیت نواز پالیسی چھوڑ کر دنیا میں حقیقی طور پر امن قائم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ امن اس وقت ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کی ضرورت مسلمانوں کیساتھ غیر مسلم بھی محسوس کر تے ہیں۔ اوسلو خبر رساں ذرائع کیمطابق امن کا نوبل انعام ملنے کے بعد اوسلو میں چھ ہزار سے زائد لوگوں نے مظاہرہ کیا اور امریکی صدر کے ہوٹل کے باہر ہونے والی مشعل بردارریلی کے شرکاء نے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤکی مذمت کی اور امن کی علامتوں والے بینرز اٹھا کر احتجاج کیا۔مظاہرے کے دوران افغان جنگ کے خاتمے اور اسرائیل آبادکاروں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ناروے کی امن تنظیم کے رکن نے کہا کہ اوباما امن نوبل انعام کی لاج رکھیں اور افغان جنگ اور اسرائیلی ظلم اور آباد کاری ختم کرائیں

لینک کوتاه:

کپی شد