چهارشنبه 30/آوریل/2025

قیام اسرائیل میں نازی جرمنی کا خفیہ تعاون

جمعرات 4-اگست-2016

عالمی صہیونی تحریک نے پروپیگنڈے سے یہ بات دنیا کے ذہنوں میں بٹھا رکھی ہے کہ جرمنی میں نازیوں کے برسراقتدار آتے ہی یہودیوں پر ظلم وتشدد کا آغاز ہو گیا تھا اور انہیں کنسنٹریشن کیمپوں میں بند کرکے 60لاکھ یہودی ہلاک کر دیے گئے مگر شاطر صہیونیوں نے اس حقیقت پر پردہ ڈالے رکھا کہ صہیونی تحریک اور نازیوں کے مابین درپردہ مفاہمت اور تعاون کا رشتہ استوار تھا اور اس دور کی عدالتی دستاویزات اور سفارتی خط کتابت کے منظر عام پر آنے سے اس شیطانی تعاون کا بھید کھل گیا ہے۔ اس دوران میں شائع ہونے والی بعض رپورٹوں اور تصانیف میں نازی صہیونی تعلقات پر کھل کر بحث کی گئی ہے اور حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں۔

اینا آرینٹ کی کتاب ”ایخمین یروشلم میں” بھی انکشاف انگیز ہے ۔ ایخمین نازی لیڈر تھا جسے ارجنٹینا سے اسرائیل لاکر سزائے موت دی گئی۔

صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرٹزل نے جب مملکت یہود کے قیام کے لئے سرزمین مخصوص کرانے کی کوششوں کا آغاز کیا تو اس نے اس سلسلے میں برطانیہ، روس، جرمنی، اٹلی اور سلطنت عثمانیہ سے رابطے کئے۔ صہیونی تحریک کا ہدف یہ تھا کہ جرمنی اور یورپ سے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت پر آمادہ کیا جائے۔ چنانچہ پہلی جنگ عظیم کے دوران (دسمبر 1917ء ) میں فلسطین پر برطانوی قبضے سے وہاں یہود کی آبادکاری کی راہ ہموار کر لی گئی۔ پھر جرمنی میں 1933ء میں نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر برسرقتدار آیا تو بظاہر نازی یہودیوں کے دشمن بنے ہوئے تھے مگر درون خانہ ان میں تعاون کا سلسلہ قائم تھا۔ صہیونیوں کا ہدف یہ تھا کہ جتنے ممکن ہوں یورپی یہودی خصوصاً اشراف یہود فلسطین بھیج دیے جائیں اور نازیوں کا ہدف سود خور اور سازشی یہود سے خلاصی پانا تھا۔ نازیوں کا یہودیوں پر تشدد صہیونیوں کے لئے کار آمد تھا تا کہ زیادہ سے زیادہ یہودی ترک وطن پر مجبور ہوں، چنانچہ نازی کیمپوں میں پڑے یہودیوں کی رہائی کی صہیونی تحریک کو کوئی پروانہ تھی، نیز صہیونی لیڈروں نے بعض یورپی ممالک کے تعاون سے یہودیوں کو نازیوں کے ”ظلم وتشدد” سے نکال کر کسی اور ملک بھیجنا قبول نہ کیا، سوائے فلسطین کے۔

 صہیونی تحریک نے 1938ء میں فرانس میں ایوین کانفرنس ناکام بنا دی جس میں کثیر ممالک کے نمائندے موجود تھے، حالانکہ اس کا مقصد یہودیوں کو نازیوں کے پنجے سے چھڑا کر پرامن ممالک میں منتقل کرنا تھا۔ ڈومنیکن جموریہ (ویسٹ انڈیز)  نے ایک لاکھ یہودیوں کو پناہ دینے کی پیشکش کی جو مسترد کردی گئی۔ برطانیہ اور امریکا ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کو اپنے ہاں بسانے پر رضا مند تھے مگر صہیونی تحریک نے یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی۔ ناروے میں استقبال کرنے کی قرارداد منظور کی مگر صہیونی اس تجویز سے متفق نہ ہوئے۔ انکار کی اس پالیسی کا ایک ہی ہدف تھا کہ یورپی یہودیوں کو صرف اور صرف فلسطین میں آباد کرنا ہے، چنانچہ ڈیوڈ بن گورین (پہلے اسرائیلی وزیراعظم) نے 1938ء میں کہا تھا: اگر میں یہ جان لوں کہ جرمنی سے تمام یہودی بچے انگلستان منتقل کئے جاسکتے ہیں یا پھر ان کی صرف نصف تعداد کو ارض اسرائیل (فلسطین) پہنچانا ممکن ہے تو میں دوسری صورت کو پہلی پر ترجیح دوں گا۔” نازیوں کے برسراقتدار آنے کے بعد بڑی تعداد میں جرمن یہودی ان ملکوں کی طرف ترک وطن کرگئے جنہوں نے ان کے لئے اپنے دروازے کھول دیے تھے اور ان میں روس اور امریکا بھی شامل تھے، تاہم روس اور دیگر یورپی ممالک سے یہودیوں نے بالآخر فلسطین ہی کا رخ کیا۔ اس دوران میں ستمبر 1939ء میں دوسری جنگ عظیم چھڑ چکی تھی۔ دریں اثنا نومبر 1940ء میں فلسطین کی بندرگاہ حیفا کے سامنے ایک پراسرار واقعہ پیش آیا۔ برطانوی حکومت کے زیر اہتمام ایک بحری جہاز 252 یہودیوں کو جرمنی سے نکال کرلایا تھا۔ انہیں بحرہند کے برطانوی مقبوضہ جزیرہ ماریش میں لے جابسانا مقصود تھا۔ جہاز اثنائے سفر میں حیفا کی بندر گاہ میں رکا تو وہاں اسے بم دھماکے سے تباہ کر دیا گیا اور اس پہ سوار تمام یہودی غرق ہو گئے۔ اس وقت یہ کہا گیا کہ ان یہودیوں نے فلسطین میں اترنے کی اجازت نہ ملنے پر اجتماعی خودکشی کا فیصلہ کر لیا تھا، چنانچہ انہوں نے خود ہی بحری جہاز تباہ کردیا۔ چنانچہ بحری جہاز ڈوبنے کے اس ”حادثے” کو صہیونی تحریک نے عالمی رائے عامہ پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کیا تاکہ برطانیہ نے یہودیوں کی فلسطین آمد پر جو پابندی لگا دی تھی، اسے واپس لے اور اس سلسلے میں امریکا برطانیہ پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔۔۔۔۔ اور پھر برطانیہ نے پابندی ہٹالی۔

 لیکن 1950ء میں کہیں جا کر انکشاف ہوا کہ اس بحری جہاز کی بم دھماکے میں تباہی تو خود صہیونی تحریک کا کارنامہ تھا اور اس کا فیصلہ ”ہگانہ” نامی تنظیم نے کیا تھا جس کا سربراہ بن گورین تھا۔ اس ظالمانہ کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ یہودیوں کی فلسطین کو ہجرت کا دروازہ بلا روک ٹوک کھلا رہے۔ 1983ء میں جرمن سفارتخانہ (انقرہ) کی سفارتی خط کتابت سے انکشاف ہوا کہ صہیونی تنظیم ”شیٹرن” اور جرمن نازی حکام میں تعاون کے لئے رابطے استوار تھے اور ایک خط میں ”شیٹرن” کے ایک لیڈر اسحاق شامیر کی طرف سے تعاون کی پیشکش کی گئی تھی جس کا نام اس وقت اسحاق یرشنسکی تھا۔ اس میں جدید یورپی نظام کے قیام کے پیش نظر جرمنی کے مقاصد اور ”شیٹرن” کی آرزوؤں میں موافقت پر زور دیا گیا تھا۔ یاد رہے یہی خبیث یہودی اسحاق شامیر ہی تھا جس نے 1948ء میں دیر یاسین میں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا اور پھر 1980ء کی دہائی میں وہ اسرائیل کا وزیراعظم بنا۔ اور 1955ء میں جب اسرائیل میں نازی لیڈر ایخمین پر مقدمہ چلا تو اس خفیہ صہیونی نازی تعاون سے پردہ اٹھا۔ اسی برس اینا آرینٹ نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا۔ اس کے مطابق صہیونی تنظیم Zionist Organisationکے نائب صدر رڈولف کیستز نے دوسری جنگ عظیم میں 4لاکھ 76ہزرا یہودی مختلف نظر بندی کیمپوں سے آشوٹز کیمپ (پولینڈ) میں منتقل کرنے کا ذمہ لیا تھا۔ اور اس نے ایخمین سے مل کر جو معاملہ طے کیا تھا اس کے مطابق اشرافیہ یہود کے 1684 افراد فلسطین لے جائے گئے۔ آشوٹز کیمپ میں پولش باشندوں اور یہودیوں کو گیس چیمبروں میں ہلاک کیا جاتا رہا۔

اس طرح صیہونیوں نے چانکیہ اور میکیاولی کی سی چالبازیوں سے لاکھوں یہودیوں کی فلسطین منتقلی کی راہیں ہموار کیں اور جب ان کی فلسطین میں آبادی ایک تہائی (سوا چھ لاکھ) ہو گئی تو یہود ونصاریٰ کی لونڈی UNO نے تقسیم فلسطین کی ظالمانہ قرارداد منظور کر ڈالی (نومبر 1947ء)۔ اس کے بعد برطانوی چھتری تلے مئی 1948ء میں اسرائیل کی ابلیسی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ صہیونی یہودیوں کی خباثت دیکھئے کہ انہوں نے نازی کیمپوں میں 60لاکھ یہودیوں کی ہلاکت کا جھوٹا پراپیگنڈا کرکے یورپ وامریکا میں ”مظلوم” یہود کے حق میں غیر معمولی ہمدردی کے جذبات پیدا کئے جوقیام اسرائیل میں بہت ممدو معاون ثابت ہوئے۔

صہیونی یہودی جھوٹا پراپیگنڈا کرنے میں کس قدر دلیر ہیں موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ہفوات اس کی بین مثال ہیں۔ مفتی اعظم فلسطین محمد امین الحسینی 1941ء میں جرمنی گئے تھے اور انہوں نے ہٹلر سے مطالبہ کیا تھا کہ فلسطین کی آزادی میں مدد دی جائے اور وہاں یہودی ریاست کے قیام کا راستہ روکا جائے۔ لیکن نیتن یاہو نے بیت المقدس میں عالمی صہیونی کانفرنس میں جھوٹ بولا کہ ”یہودیوں کو زندہ جلانے کا منصوبہ امین الحسینی نے پیش کیا تھا۔ جب ہٹلر نے کہا کہ وہ تمام یورپی یہودیوں کو جلاوطن کرنا چاہتا ہے تو امین الحسینی بولے کہ وہ تو فلسطین منتقل ہو جائیں گے۔ ہٹلر نے پوچھا: پھر میں کیا کروں؟ تو ان کا جواب تھا: ”انہیں زندہ جلا دیں” نیتن یاہو جیسے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔
بشکریہ روزنامہ ‘جہان پاکستان’

لینک کوتاه:

کپی شد