چهارشنبه 30/آوریل/2025

قبلہ اول پھر صلاح الدین ایوبی کا منتظر

جمعرات 12-مارچ-2009

تاریخ عالم نے اس حقیقت کو اپنے اوراق کی زینت بنا کر ایک فکر انگیز پیغام دیا کہ سیدہ سکینہ پابند سلاسل ہونے کے باوجود جھکی نہیں کیونکہ ان کی رگوں میں خون حسین دوڑ رہا تھا اور وراثت میں فیضان مصطفی عطا ہوا تھا اس وقت کی معصوم آواز نے یزیدیت کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کردیا تھا اور یہ صدا لگائی تھی کہ حق ظلم وجارحیت سے نہیں دبایا جاسکتا اور نہ ہی کوئی لاؤ لشکر یا آہنی دیوار اس کا راستہ روک سکتی ہے بلکہ خون سے لکھی گئی تاریخ نہ صرف تاریخ کے سینے پر سجی رہتی ہے بلکہ ان مٹ نقوش چھوڑ دیتی ہے

کیونکہ:-
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹا جاتا ہے
خون پھر خون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے

کربلا میں خون سے رقم کیے جانے والے بے مثال افکار آج بھی ایک سکینہ کی صدا کی صورت میں عالم اسلام کے بے حس حکمرانوں کو آواز دے رہے کہ کہاں گئی تمہاری وحدت، کہاں گئی تمہاری غیرت ملی، کہاں گیا تمہارا علمی خزانہ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر صاحب شعور اور صاحب فراست شخص کے ضمیر کو پکار کر ان سے مسلمانوں کی بے حسی کی حالت زار کے بارے میں دریافت کررہے ہیں کہ:

جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا

فلسطین سینٹر فار ہیومن رائٹس کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2003ء سے اکتوبر 2006ء تک تین برسوں کے دوران اسرائیلی فوج اور پولیس کے مظالم کے نتیجے میں 2258 فلسطینی مسلمان شہید ہوئے جس میں 440 بچے اور 130 خواتین بھی شامل ہیں، 344 فلسطینی مسلمانوں کو ارادتاً شہید کیا گیا جس میں 38 بچے بھی شامل ہیں، 18میڈیکل آفیسرز اور 8 دیگر ممالک کے شہری بھی شہید ہوئے جبکہ صحافیوں پر ہونے والے 373 حملوں میں سب سے زیادہ 211 حملے سال 2002ء کے دوران ہوئے، غزہ کے علاقے میں گزشتہ 3 سالوں کے دوران 6200 افراد زخمی ہوئے-
 
رپورٹ کے مطابق جو اعداد و شمار حاصل کیے گئے ان کے مطابق کل شہید ہونے والے فلسطینی شہریوں میں سے 58 فیصد کا تعلق مغربی کنارے سے ہے جبکہ 42 فیصد کا تعلق غزہ کے علاقے سے ہے شہید ہونے والوں میں سے 691 پہلے سال، 945 دوسرے سال 622 تیسرے سال شہید ہوئے ان تین برسوں میں فلسطینیوں کے 1242 مکانات مکمل طور پر منہدم کردیئے گئے جس کے نتیجے میں 1049 فلسطینی باشندے بے گھرم ہوئے- (719) نامی اسرائیل کے منصوبے کے تحت اکھنڈاسرائیل پر عملدرآمد کیلئے اسرائیل اپنی جدوجہد مزید تیز کررہا ہے اور ایران اور شام کو اپنا تر نوالہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہے سوال صرف اتنا ہے کہ کیا 57 اسلامی ممالک کے حکمران بے بس ہیں یا صہیونی و یہودی طاقتوں کے آلہ کار بن کر ان کے مفادات کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں- یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت مغربی طاقتیں پاکستان کو اپنا ہدف بنا کر چین اور روس کو مستقبل کی ’’سپر پاور‘‘ بننے سے روکنے پر سوچ رہیں ہیں- ہمیں بحیثیت مسلمان سوچنا ہوگا کہ ہمارے تھنک ٹینکس حالات کا بخوبی ادراک کیوں نہیں کرپاتے؟ ممبئی بم حملے ہوں یا سی آئی اے، را اور موساد کی شازشیں ان سب کا مقصد ایٹمی پاکستان اور آئی ایس آئی کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے- ملک پاکستان کے ہر فرد کو اس وقت افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر تمام بحرانوں کا مقابلہ کرنا ہوگا-

’’او آئی سی‘‘ اور ’’عرب لیگ‘‘ کے ان لیڈروں کو ہوش میں آنا چاہیے کہ عالم اسلام کے حکمران امریکی آلہ کار نہ بنیں اور اپنے مسلمان عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کریں صرف سوچنے کا مقام ہے کہ اب عالم اسلام کا جو بچہ بھی شعور ادراک کی شاہراہ پر گامزن ہو چکا ہے- فیصلہ ہر صاحب دانش اور صاحب اقتدار نے کرنا ہے کیونکہ اسرائیل کا آخری اور مرکزی ہدف پاکستان ہے اور پاکستان کی سلامتی میں ہی عالم اسلام کی بقاء مضمر ہے-
 
اس وقت دنیا کے امن کیلئے ایک سنگین خطرہ صہیونی ریاست اسرائیل کی صورت میں پھیلتا جارہا ہے، یہ ریاست اگرچہ رقبے کے اعتبار سے تو بہت محدود پیمانے پر مشتمل ہے لیکن اس کی حرکات و سکنات، عادات و اطوار اور منصوبہ سازی نے پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگا رکھا ہے، ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا اور ہر جگہ اپنے مفادات کو تحفظ اور دوام بخشنا اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے- اگر طبعی عمر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اسرائیل 60 سال کا ہو چکا ہے لیکن سمجھ بوجھ اور عقل سے پیدل دکھائی دیتا ہے، جارحانہ روش اور(ZeroTelerance) کی پالیسی نے اسے اور خطرناک بنادیا ہے- گزشتہ 60 سالوں میں امریکہ کے زیر سایہ پرورش پانے والی یہ ’’ناجائز ریاست‘‘ نہ صرف مشرق وسطی کے لیے ایک زہریلا ناگ ہے بلکہ پورے عالم اسلام کیلئے ایک عفریت بن چکا ہے-

عرب ممالک کے ساتھ لڑی جانے والی مختلف جنگوں کے علاوہ چھوٹی چھوٹی عرب ریاستوں کے مختلف جنگوں کے علاوہ چھوٹی چھوٹی عرب ریاستوں کے مختلف حصوں پر ناجائز تسلط جمانا اسرائیل کا وطیرہ رہا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ کی نکیل بھی اسرائیل کے ہاتھ میں ہے تو بے جا نہ ہوگا، عرب ٹی وی کے ممتاز محقق شیخ ابراہیم طہ علی نے اپنی کتاب ’’المقدس تنتظر‘‘ میں لکھا ہے کہ  یہودی تھنک ٹینکس، امریکی اداروں کو مسلمانوں پر اپنا پنجہ کسنے کے حوالے سے زور دے رہے ہیں-‘‘

اسرائیل کا قیام دنیا کو ایک یہودی لابی کے تابع کرنے اور مسلمانوں کا معاشی و اقتصادی استحصال کرنے کیلئے عمل میں لایا گیا، فلسطین کے مسلمان گزشتہ 60 سال سے آزاد فلسطینی ریاست کے عملی اقدام کے منتظر دکھائی دے رہے ہیں- ایک طرف اسرائیلی افواج ٹینکوں، توپوں اور جدید اسلحے سے لیس ہوکر فلسطینی مسلمانوں کے علاقے میں داخل ہوتی ہیں تو دوسری طرف نہتے فلسطینی عوام صرف پتھر ہاتھ میں اٹھا کر اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہیں، اس کے باوجود آج کی مہذب اور نام نہاد اقوام مغرب پتھر اٹھانے والے فلسطینی نوجوانوں کو دہشت گردی کا خطاب دیتی ہیں-
 
امریکہ، انڈونیشیا میں جب عیسائیوں کی بات ہو تو مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کی آواز تو اٹھاتا ہے لیکن جہاں 60 سال سے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، جہاں ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہو اور وہ آزادی اور حریت کے بنیادی انسانی حق کی آواز اٹھاتے ہوں وہاں اقوام متحدہ کی قراردادیں، سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس اور امریکہ کا وائٹ ہائوس کیوں خاموش ہوجاتا ہے؟ جب کوئی ایک اسرائیلی راکٹ حملے میں مارا جائے تو پورا مغرب اور امریکہ کھڑا ہو جاتا ہے اور ہر طرف واویلا مچ جاتا ہے لیکن جب اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں بے گناہ فلسطینی شہید ہو جائیں تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ’’بان کی مون‘‘ بھی سن ہو جاتے ہیں اور ان کی زبان بھی مقفل ہو جاتی ہے-

یو این کو اسرائیل کی یہ کارروائی دہشت گردی نہیں لگتی، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو- یہی وہ دوہرے معیارات ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی جنم لیتی ہے، یہی وہ استحصالی رویہ ہے جس نے مسلمانوں کو احساس محرومی میں مبتلا کیا ہے، جس شخص کا کوئی گناہ نہ ہو اور اس کے تمام گھر والوں کو شہید کردیا جائے تو کیا وہ جواب میں پتھر اٹھا کر کسی اسرائیلی فوجی کے سر میں دے مارے اور اس کے اقدام کو دہشت گردی اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو کچھ نہیں کہا جائے گا؟ اصل میں امریکی پالیسی ساز ادارے اسرائیل کے مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھ کر خود ایک بڑی دلدل میں پھنس چکے ہیں-
 
ممتاز امریکی تجزیہ نگار برجسکی نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’’امریکہ کو بخوبی علم تھا کہ نائن الیون کے واقعات میں طالبان ملوث نہیں اور امریکہ یہ بھی جانتا تھا کہ عراق کے پاس مہلک ہتھیار موجود نہیں، اس کے باوجود امریکہ نے ان دونوں کے خلاف کارروائی کر کے خود کو ایک گہری دلدل میں دھکیل دیا ہے-‘‘ امریکہ کو اس وقت اسرائیل کے خفیہ اداروں اور تھنک ٹینکس کی حمایت حاصل ہے، لیکن یہ حمایت اس کے لیے مستقبل کا ایک خوفناک نقشہ بھی تیار کررہی ہے،  اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پر تقریباً 30 میزائل داغے اور درجنوں سیکیورٹی تنصیبات کو نشانہ بنایا، ان وحشیانہ حملوں میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 300 فلسطینی شہید، 800 سے زائد زخمی ہوئے، اسرائیل کی یہ کارروائی گزشتہ عرصے میں ایک غیر معمولی جارحیت کی حال ہے-

خلیج ٹائمز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2005ء سے 2008ء تک صرف پانچ اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے- اسرائیل اس سے قبل غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی بھی کرچکا ہے، اس وقت غزہ کی پٹی میں آئل ریفائنریز اور دیگر فیکٹریاں مکمل بند پڑی ہیں- فلسطینی عوام بے بسی اور غم و الم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں- حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنے بڑے سانحہ اور ظلم و بربریت کے واقعے پر کسی ایک بھی مغربی ملک بشمول امریکہ نے اسرائیل کی نہ تو مذمت کی اور نہ ہی کوئی کلمہ صبر فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کہا-

ویسے ہم کسے گلہ کریں ہمارے اپنے مسلمان ممالک کے حکمران اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ سوائے شام، پاکستان اور ایران کے کسی اور اسلامی ملک نے کھل کر اسرائیل کے حملوں کی مذمت نہیں کی، ویسے بھی 57اسلامی ممالک میں سے پاکستان وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے اسرائیلی کے ناجائز وجود کو آج تک تسلیم نہیں کیا، اب کافی دیر گزرنے کے بعد عرب لیگ کو جاگ  آئی اور شاہ عبداللہ نے بھی صدر بش سے رابطہ کرکے حملے بند کرانے کا مطالبہ کیا،سوال یہ ہے کہ عرب لیگ اگر عرب ممالک کی خود مختاری ، سالمیت اور ان کے عوام جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم ہے تو اس کے دائرہ کار ،پالیسی اور اقدامات پر نظرثانی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے- ا یسے حالات میں او آئی سی کا کردار بھی محض ’’O.I.See‘‘کی حد تک مقید ہوچکاہے-

او آئی سی کے حوالے سے بھی مسلمان ممالک میں تحفظات پائے جاتے ہیں ، اگر اوآئی سی اور عرب لیگ جیسی تنظیمیں بھرپور طاقت سے دنیا پر دباؤ نہیں ڈال سکتیں تو پھر ان کی افادیت کہاں ہے؟یہ کیوں بنائی گئی تھیں ،اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو اسرائیل روزانہ فلسطینی عوام کے خون سے ہولی کھیلتا رہے گا اور یہ بھی عراق اور افغانستان کی طرح معمول کی کارروائی بن جائے گی- اس وقت پاکستانی قیادت کو بھی چاہیے کہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے حق میں اسرائیل کی وحشت و جارحیت کی مذمت میں قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں پیش کی جائیں اور واضح موقف اختیار کیا جائے تاکہ دنیا کو بھی اندازہ ہو کہ مظلوم فلسطینی تنہا نہیں بلکہ پاکستان کی حکومت اور عوام ان کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی سطح پر بھرپور حمایت کرتے ہیں-

یہی نہیں بلکہ عرب ممالک کو چاہیے کہ عرب لیگ کو مؤثر بنا کر ایسی حکمت عملی اپنائیں کہ اسرائیل آئندہ ایسی جرأت نہ کرسکے، اگر غیر جانبدارانہ نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو دنیا کا امن مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین سے مشروط ہے، ان دونوں کی آزادی سے دنیا کے امن کیلئے نئی راہ متعین ہوگی، اگر امریکہ و اسرائیل مزید تنگ و تاریک دلدل سے بچنا چاہتے ہیں تو ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی کو اپنا کر بندوق کی بجائے مذاکرات کی راہ اپنائیں- شدت پسندی استحصال سے جنم لیتی اور استحصالی نظام کا مرکز اسرائیل اور دارالحکومت امریکہ ہے- اسرائیل اس سے قبل فلسطین کی اعلی قیادت کو بھی شہید کرچکا ہے جن میں شیخ، یاسین، عبد العزیز رنتیسی شامل ہیں- آج ضروری اس امر کی ہے کہ اسرائیل کی ان وحشیانہ کارروائیوں کو روک کر اس کے جارحانہ اقدامات کو لگام دی جائے کیونکہ مشرق وسطی کا امن روڈ میپ صرف امن کی زبان میں بات کرنے سے ہی ممکن ہوسکتا ہے-
 
اب فلسطینی مسلمان کسی اور ایریل شیرون کی سفاکی کے متحمل نہیں ہوسکتے- اگر اسرائیل اس انداز سے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کرتا رہا تو دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف جاسکتی ہے جس کا مرکز مشرق وسطی ہوگا- اب ان لمحات میں فتح اور حماس کو باہمی اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر اپنے مشترکہ دشمن اسرائیل سے نمٹنا ہوگا، اسی میں فلسطینی ریاست کی بقاء ہے- یہاں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ یہودیوں کی مقدس کتاب تلمود کے مطابق فلسطین کی سرزمین بنی اسرائیل کا حق ہے اور اسی وجہ سے ہیکل سلیمانی کی نسبت کو یہودی اپنے لیے زندگی اور موت سمجھتے ہیں- اسی کتاب تلمود میں یہ بات بھی درج ہے کہ یروشلم کا علاقہ صرف یہودی عقیدے کے ماننے والوں کا حصہ ہے اور کسی دوسرے عقیدے کے ماننے والوں کو اس پر قدم رکھنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا-

تلمود نامی کتاب یہودی عقائد و نظریات کے زہر اور بغض و عناد سے بھری پڑی ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف سخت رویہ اپنانے کی تلقین ملتی ہے- آج دنیا کے نام نہاد انسانی حقوق کے دعویدار مغربی ممالک یہودی نظریات کے اس زہریلے انسائیکلو پیڈیا تلمود کی عبارات پر گرفت کیوں نہیں کرتے جس کی وجہ سے معصوم فلسطینی مسلمان اسرائیل کے ظلم و بربریت کا شکار ہیں؟ اس کے برعکس جب ایران کی طرف سے ہولوکاسٹ کے ایشو پر بات کی جائے تو پورا مغرب اپنے میڈیا کی زہر آلود توپوں کا رخ عالم اسلام کی طرف پھیر دیتا ہے- یہودی اپنی تاریخ درست کرلیں کہ بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، بلکہ سرزمین فلسطین کے ساتھ مسلمانوں کی زیادہ نسبتیں موجود ہیں-

حضور نبی اکرم نے سفر معراج کی ابتداء بھی بیت المقدس سے کی اور وہاں تمام انبیائے کرام نے آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی- لہذا مسلمان اس بات کے تاریخی، اعتقادی اور تہذیبی اعتبار سے زیادہ مستحق ہیں کہ انہیں کم از کم فلسطین کی صورت میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی تشکیل کی اجازت دی جائے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو- اس کے بغیر طاقت کے اندھا دھند استعمال سے مشرق وسطی ایک ابلتی ہوئی کڑاھی تو بن سکتا ہے مگر امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا- امن بندوق کی نوک پر نہیں بلکہ محبت کے لہجے سے قائم ہوتا ہے- اسرائیل پر واضح ہونا چاہیے کہ امریکہ نے آج تک کوئی جن نہیں جیتی، ویت نام، افغانستان، عراق اس کی واضح مثالیں ہیں- اب امریکہ کے جھوٹ ساری دنیا پر منکشف ہو رہے ہیں اور وہ بری دلدل میں دھنس چکا ہے لہذا اسرائیل امریکہ سے سبق سیکھ کر مزید غلطیوں سے باز رہے وگرنہ-

دبے گی کب تلک آواز مسلم ہم بھی دیکھیں گے
رکیں گے کب تلک جذبات پر ہم ہم بھی دیکھیں گے
درزنداں سے دیکھیں یا عروج دار سے دیکھیں گے
تمہیں رسوا سر بازار عالم ہم بھی دیکھیں گے
یہ ہنگام وداع شب ہے اے ظلم کے فرزندو
سحر کے دوش پر گلنار پرچم ہم بھی دیکھیں گے

ویسے بھی حال ہی میں ایک امریکی مصنف کارل ونسے کی شائع ہونے والی کتاب medıa war میں ونسے سے یہ بات کھل کر کہی ہے کہ:

west should think deeply that why muslims are guilty every where muslıms are playing vital role in western economy and system.

مغرب کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہر طرف مسلمانوں کو ہی مؤرد الزام کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ حالانکہ مسلمان تو مغربی ممالک کی معیشت اور نظام میں ممد و معاون ثابت ہو رہے ہیں-

گویا اب دنیا کا ہر صاحب ادراک ذہن امن اور محبت کی بات کے ذریعے دنیا کو عدل و انصاف اور مساوات کا گہوارہ دیکھنا چاہتا ہے اور اسی میں عالم انسانیت کی بقاء کا راز مضمر ہے-قادیانی اس وقت تحریک آزادئ فلسطین کے خلاف اسرائیل میں متحرک ہیں اور پاکستان کے خلاف بھی زہریلا جال بن رہے ہیں- اسرائیل کی فوج میں صرف یہودی عقیدے کا شخص ہی بھرتی ہوسکتا ہے لیکن وہاں بھی قادیانی اسرائیلی فوج میں موجود ہیں- اس وقت اسرائیل اپنے زہر آلود ہتھیاروں اور خفیہ ایجنسی موساد کی وساطت سے مسلم کش ایجنڈے پر بڑی تیزی سے عمل پیرا ہے- اس میں میں ہندوستان، اسرائیل کا اہم اور خفیہ اتحادی ہے-

ہمیں اس وقت عالم اسلام کے مسائل کے حل کیلئے ایک بڑا اسٹینڈ لے کر مزید ہلاکتوں سے بچنے کیلئے الگ اسلامک یو این او تشکیل دے دینی چاہیے تاکہ اقوام متحدہ کو بھی احساس ہو کہ وہ محض سپر پاور کے اقدامات کو ہی شیلٹر دینے میں مصروف ہے- محض قراردادوں کے ذریعے اسرائیل کو حملے بند کرنے کا کہنا ہی کافی نہیں بلکہ معصوم فلسطینی مسلمانوں کے قتل میں ملوث اسرائیلی عسکری و سیاسی قیادت کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لاکر فلسطینی مسلمانوں کے لہو کے ساتھ انصاف کیا جائے تب دنیا اقوام متحدہ کو حقیقی اقوام متحدہ تسلیم کرے گی- اس وقت گیند بان کی مون کے کورٹ میں ہے کہ وہ اسرائیل کی بربریت کو کس طرح لگام دیتے ہیں اور مظلوم فلسطینی عوام کی محرومیوں کا کس حد تک ازالہ کر کے مشرق وسطی کو آگ اور خون کے کھیل سے نجات دلاتے ہیں-
 
آنے والے چند دن نہایت اہم اور فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں- شاید دنیا ایک تیسری جنگ کے فیصلہ کن معرکے میں داخل ہونے والی ہے جس میں تنہا پاکستان راہ کربلا کا مسافر اور را، موساد اور سی آئی اے یزیدی لشکر کے شمر، ابن زیاد اور سنان ہوں گے- لیکن پاکستان نہ صرف عالم اسلام کا قلعہ ہے بلکہ فلسطین و کشمیر کے مسلمانوں کا پاسبان بھی ہے- پاکستان ہی عالم اسلام کا نیوکلیئس ہے اور یہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اسرائیل، ہندوستان اور امریکہ کیلئے موت کی ایک خطرناک وادی بھی ہے- اس وقت فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے میں پہل کر کے پاکستانی عوام نے دشمنان اسلام کو واضح پیغام دیا ہے کہ:

اخوت اس کو کہتے ہیں چھبے کانٹا جو غزہ میں
تو پاکستان کا ہر مرد و زن بے تاب ہو جائے

لینک کوتاه:

کپی شد