جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطین ۔ پتھر سے مزاحمت نے دُنیا کو بدل دیا

ہفتہ 10-جولائی-2010

ریاست اسرائیل کا وجود جرمنی کے ظلم جس کو یہودی ہولوکاسٹ کہتے ہیں، جس کا وہ ضرورت سے زیادہ پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں، کی بنیاد پر برطانوی وزیراعظم لوئیڈ جارج اور برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور کی ظالمانہ فیاضی اور بہیمانہ سخاوت کے سبب پر قائم ہوا تھا پھر اس کے قائم رکھنے میں ایک طرف امریکہ کی ہر طرح کی مدد شامل حال رہی جس میں اسلحہ سے لے کر سلامتی کونسل میں ویٹو تک اور عربوں کو دبانے سے لے کر اپنی طاقت کا سکہ جمانے تک، مالی امداد سے لیکر اُس کی مارکیٹ کو مستحکم کرنے تک۔ دوسرے آنکھ بند کرکے دُنیا بھر کے یہودیوں کی مدد کرنے کی وجہ سے اور تیسری مخیر اور ہمدرد دل رکھنے والوں کی طرفداری نے اس کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔

غزہ کے مظلومین کے لئے امداد لے کر جانے والے جہاز فلوٹیا پر اسرائیلی حملے اور انتفادہ کے مسلسل جاری رہنے اور مسلح اسرائیلی فوج پر پتھر پھینکنے والوں کو گولی مار کر ہلاک کرنے اور ٹینک پر کنکری پھینکنے پر توپ کا گولہ چلا کر پورے پورے گھر اور محلہ کو تباہ کرنے کے مسلسل عمل نے یہودیوں کو مظلوم سے ظالم کے روپ میں بدل دیا ہے۔ پھر فلسطینی کس سج وھج کے ساتھ اور کس بے خوفی اور بہادری کے ساتھ پتھر پھینکتے ہیں، اُن کی مائیں کس دل کے ساتھ اُن کو پتھر مارنے کی اجازت دیتی ہیں، وہ دل گردہ کی بات ہے جس سے بہادری کی نئی تاریخ رقم ہوتی ہے اور دنیا بھر کے اخبارات کے کالم اور سرخیاں اسرائیلی ظلم کی کارروائیوں سے بھرے پڑے ہیں جس نے یہودی کے ہولوکاسٹ کے سب سے بڑے ہتھیار کے اثر کو ہوا میں تحلیل کر دیا ہے اور اب ہمدرد اور انسان دوست عناصر چاہے وہ کسی ملک کے شہری اور چاہے وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں، اسرائیل میں رضاکارانہ طور پر جا کر کام کرنے کی بجائے فلوٹیا کے ذریعہ غزہ کے محصور اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں جانا پسند کرتے ہیں جس پر اسرائیل بربریت اور ضرورت سے زیادہ اسلحہ کا استعمال کرکے اپنے آپ کو ایک عفریت کے روپ میں پیش کررہا ہے اور اپنے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔
 
ترکی اس کی سب سے روشن مثال ہے۔ ترکی جو نیٹو کا ممبر بھی ہے اور G-20 کا بھی وہ، ایران اور شام کے ساتھ مل کر ایک طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ حماس اور الفتح اور حزب اللہ اُن کے بازو ہیں۔ اس کے علاوہ آئرلینڈ، اسپین، جرمنی، برطانیہ اور دیگر ممالک نے بھی اسرائیل کے اِن ظالمانہ اقدامات کی حمایت سے کترانا شروع کردیا ہے۔ امریکہ اب اسرائیل کو بوجھ سمجھنا شروع کردیا ہے۔ راقم نے 14 جولائی 2006ء کو اپنے ایک مضمون میں اس پر تفصیل سے بحث کی تھی کہ اسرائیل امریکہ کے لئے اسٹرٹیجک بوجھ بن چکا ہے پھر میں نے اپنی کتاب ”چھٹی عرب اسرائیل جنگ“ جو نومبر 2006ء میں چھپی اس پر تفصیل سے بحث کی تھی۔ اب سینٹرل کمانڈ کے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے اپنے ایک بیان میں صاف صاف یہ کہہ دیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین تنازعہ امریکی سپاہیوں کی جانوں کو افغانستان اور عراق کے خطرہ میں ڈال رہا ہے اور جب پیٹریاس کچھ لمحے کے لئے بے ہوش ہوئے تو اسرائیلوں نے ان پر قدرت کی طرف سے سزا سے تعبیر کیا۔ یعنی انہوں نے اپنی روش نہ بدلنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ بہرحال امریکہ کو جن الجھنوں میں صہیونیوں نے ڈال دیا ہے جس کے بعد امریکی عیسائیوں کا رخ یہودیوں کی طرف ہونا چاہئے۔
 
یہودیوں نے امریکی عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کردیا۔ امریکہ اپنے بازوؤں کی طاقت آزما کر اور اپنے اسلحہ کا جابے جا استعمال کرکے مسلمانوں کا خون ناحق بہا کر دیکھ لیا۔ اپنے بازو شل کرلئے اور اپنی خون کی پیاس بجھائی تاہم اپنی بربادی کے سامان کرلئے۔ اپنی شہنشاہیت کی قبر کھود لی۔ اپنی معیشت کو تباہ کرنے کے بعد بات اس کی سمجھ میں آتی جارہی ہے۔ 2006ء میں بھی امریکیوں اور مغربی ممالک کے دانشوروں کی سوچ میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی اور یہ مضامین لکھے جانے لگے کہ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو دُنیا زیادہ بہتر حالات میں ہوتی۔ اسی سال ایک امریکی صحافی جوناتھن پاور نے ایک مضمون لکھا تھا جب حزب اللہ اور اسرائیل میں جنگ جاری تھی کہ اب وقت آگیا ہے کہ بالفور اعلامیہ پر ازسرنو غور کیا جائے اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ یورپی یہودی یورپ لوٹ جائیں اور امریکی و روسی یہودی بھی اپنے اپنے ممالک کو چلے جائیں۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ڈھائی ہزار سال پہلے نکلنے والے یہودی فلسطین کی سرزمین پر نہیں بس سکے۔ انہوں نے ساری دنیا کا چین اور ساری دنیا کا امن خطرہ میں ڈال دیا ہے۔
 
انہوں نے بالفور اعلامیہ کے جواز کو چیلنج رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر سابق برطانوی وزیراعظم لوئیڈ جارج کی اس دلیل کو مان لیا جائے کہ یہودی ڈھائی ہزار سال پہلے فلسطین میں آباد تھے اور اُس دلیل کو ساری دنیا دنیا پر لاگو کیا جائے تو پھر ہم کہاں ہوں گے؟ ہماری سرزمین یعنی امریکی سرزمین انڈین کو دی جانا چاہئے، روس مغلوں کو جنوبی افریقہ ہوٹنوں کو، اسپین عربوں اور افریقیوں کو۔ یہاں پر مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آگیا

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودیوں کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟

اب جوناتھن پادر کی بات کی تصدیق ایک سروے سے بھی ہوتی ہے کہ 2020ء میں اسرائیل کا وجود نہیں رہے گا۔ اسرائیل یورپ و امریکہ میں جا بسیں گے اس لئے بھی کہ اُن کے وجود کی تمام بنیادیں ختم ہوچکی ہیں۔ ہولوکاسٹ اپنا اثر کھو چکا ہے۔ دُنیا کے لوگ اسرائیل کو ظالم سمجھتے ہیں، پتھر اور کنکر کے جواب میں جدید اسلحہ سے نہتے فلسطینیوں کو مارنا کہاں کا انصاف ہے اور کہاں کی بہادری ہے۔
 
برطانوی وزیراعظم کی اس سخاوت نے انسانیت کی تذلیل کی اور وہ ملک جو برطانوی سامراج کی وجہ سے بنا اور جو ملک یعنی تقسیم ہوا وہ اب پھر سے طاقتور ملک بن کر ابھر رہا ہے۔ اس پر امریکی یہودی صحافی یہ شوشہ چھوڑ رہے ہیں کہ ترکی نے اب مسلمانوں کی قیادت سنبھال لی ہے جو ترکی نے توجہ احترام حاصل کیا وہ ایران نے کھویا۔ یہ سب غلط ہے، سچ تو یہ ہے کہ ایران، ترکی و شام ایک لڑی میں پروئے جانے والے ہیں۔ پاکستان کیسے پیچھے رہ سکتا ہے؟

پاکستان کے قرارداد مقاصد میں فلسطین کی آزادی کا ذکر ہے۔ اسرائیل کے قیام کا اخلاقی، سیاسی اور معاشی جواز ختم ہوچکا ہے۔ اس کی حمایتی اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں سوائے دنیا بھر کے طاقتور اور مالدار یہودیوں کے۔ اُن کو بھی اس سلسلے میں اپنا ہاتھ کھینچنا پڑے گا کہ اسرائیل جیسے عفریت سے خود اُن کو خطرہ ہے، امریکہ کو ہے یورپ کو ہے اور پوری انسانیت کو ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اسرائیل ایک بڑی فوج رکھتا ہے، جدید اسلحہ سے آراستہ ہے، ایٹمی طاقت بھی ہے، مظلموں کو مار کر شیر بھی ہوگیا ہے مگر مسلمان بھی ایٹمی طاقت رکھتے ہیں۔ سرفروشی اُن کا مشغلہ ہے۔ عربوں کی ڈویژن فوج شکست کھا گئی مگر حزب اللہ کے سرفروشوں نے اُسے 2006ء میں شکست دے دی۔ ظلم کو فنا ہونا ہوتاہے، حق و سچ کو قائم رہنا ہے، قدرت کا یہ اصول کو سچ بھی ثابت ہونا ہے جس کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ اسرائیل اپنے اس اصول کو بھول کر کہ جب طاقت کا استعمال ناکام ہوجائے طاقت کی بجائے دماغ سے کام لیا جائے مگر اب تو عقل اور طاقت دونوں فیل ہورہے ہیں کہ ظلم حد سے بڑھ گیا ہے اور مٹنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

 
بشکریہ روزنامہ جنگ

لینک کوتاه:

کپی شد