لیکن ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے بعض منفرد نوعیت کے آثار دکھائی دینے لگے اور اسرائیلی بدنیتی نے جب عملی پیش قدمی کا مظاہرہ کیا تو فوراً بعد یہ حقیقت آشکار ہو کر سامنے آگئی کہ اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس کے گرد و نواح کے ملحقہ علاقوں پر قبضہ جما لیا اور اس ضمن میں اسرائیلی مذاکرات کاروں نے بڑا غلط کردار ادا کیا اور ان بنیادی حقائق سے روگردانی کر کے اصل بنیادی مسئلے پر بات چیت کرنے سے اجتناب کرتے رہے جو درحقیقت امن و سلامتی کے لیے ضروری تھا- حالانکہ اس سے قبل 1981ء میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد نے امن منصوبہ کی داغ بیل رکھی اور پھر 2002ء میں باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق خلیجی عرب ممالک کی جانب سے ’’امن منصوبہ‘‘ وضع کردیا گیا- عرب ممالک اس منصوبے کے وضع کرنے کے بعد بھی تادم تحریر بدامنی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں جس میں بنیادی وجوہات عرب ممالک ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کا آپس میں نفاق ہے-
اگرچہ عرب ممالک امن و امان کے لیے کوئی بھاری معاوضہ ادا کرنے کو تیار ہیں اور اسرائیل کو موجودہ حالات کے تناظر میں ہاں ایک قانونی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے پر اتفاق کرتے ہیں لیکن اس کے عوض عرب اسرائیل سے عدل کی توقع کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مشرقی یروشلم سمیت ملحقہ علاقوں کو خالی کر کے بین الاقوامی قراردادوں کو اپنائے اور وہاں نو آبادیات قائم کرنے سے باز رہے- اسرائیل کی اس تازہ ترین یلغار اور غارت گری کا ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ حالیہ فلسطین میں انتخابات میں حماس کو واضح اکثریت حاصل ہوئی اور امریکہ سمیت اسرائیل کو حماس کی یہ اکثریتی فتح برداشت نہ ہوسکی اور اس نے حماس کی فلسطین میں اتھارٹی گرانے کے لیے جارحانہ منصوبہ تیار کر کے غزہ پر اندھا دھند بارود برسایا-
اسرائیلی بربریت کی دنیا بھر میں مذمت کی جارہی ہے مگر اس مکروہ سازش میں امریکہ میں حسب سابق اور حسب عادت اپنا حصہ ڈالتے ہوئے حماس کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے- امریکہ اور اس کے حواریوں کو مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا الزام عائد کرنے کا ہیضہ ہو چکا ہے تاہم امریکہ اسرائیلی حملوں کو دہشت گرد تنظیم یعنی ’’حماس‘‘ کے خلاف ہر طرح سے زمینی، فضائیہ اور بحریہ حملوں کو جائز قرار دیتا ہے- ایک رپورٹ کے مطابق زمینی حملوں سے قبل اسرائیلی فوج نے گزشتہ 8 روز میں ساڑھے سات سو میزائل حملے کیے اور ان اندھا دھند حملوں کی سرتال سے معصوم بچوں اور خواتین سمیت تیرہ سو فلسطینی شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہسپتال میں بھیجے گئے-
یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ زخمیوں کے علاج معالجہ کے دوران ڈاکٹروں کی رپورٹس کے مطابق ہلاکت خیزی کے لیے اسرائیلی حملوں میں فاسفورس اور نیوکلیئری مواد استعمال کیا ہے- کیونکہ جو ادویات زخمیوں پر استعمال کی جارہی ہیں- ان کا بروقت بہتر رزلٹ نہیں مل رہا ہے جبکہ ادویات کے معیار ہونے میں کوئی شک نہیں- اسرائیل جب بھی فلسطینیوں پر کارروائی اور جارحیت سے ظلم و تشدد کرتا ہے تو امریکہ کھل کر اسرائیل کی تائید و حمایت کر کے اس کے حق میں بیان دینے اور ساتھ ہونے کا دعوی کرنا شروع کردیتا ہے- مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ حسب سابق دنیا بھر میں ان حملوں کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج ضرور ہوتا ہے اور عوام ان مظالم کی بھرپور مذمت بھی کرتی ہے- عوام ہی نے اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے زبردست مظاہرہ کیا- ہیومن رائٹس کے راہنمائوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف تقریری اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو دی جانے والی سالانہ 3 ملین ڈالر فوجی امداد کو روکا جائے-
اسی طرح عالمی سطح پر عوام کی جانب سے شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار سامنے آتا ہے- عوام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں اور اوپر سے جوہری ہتھیاروں کا استعمال سے عالمی دنیا میں اسے روکنے کے لیے حکومتی پلیٹ فارم پر کسی نے جرأت کا مظاہرہ آج تک نہیں کیا- بلکہ صدر بش صہیونی فوج کے جوہری ہتھیاروں سے ہونے والے حملوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور امریکہ خود اقوام متحدہ کی کوششوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے- بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسرائیلی حملوں کا کوئی بھی جواز پیدا کرنے سے پہلے امریکہ سے ڈکٹیشن ہی نہیں لیتا بلکہ امریکہ اس کی پشت پناہی کرتا ہے- کیا اسرائیلی حملے اور اس میں امریکہ کا براہ راست ملوث ہونا عالم اسلام اور بالخصوص عرب لیگ کے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ حکومتی لیول پر محض بیان بازیوں سے کب تک کام چلے گا اور فلسطینی نہتے عوام اور خاندانوں کے خاندان کب تک قربانی کا بکرا بنے رہیں گے-
گزشتہ روز صدر بش نے امریکی قوم سے خطاب کے دوران کہا کہ غزہ میں یکطرفہ جنگ بندی قابل قبول نہیں- بش نے مزید تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ حماس دہشت گرد ہے اور وہ اسرائیل کو تباہ کرنے کے ضمن میں مذموم مقاصد سے برسرپیکار ہے تاہم بش نے اسرائیلی غزہ پر جارحانہ کارروائی کو جائز قرار دیا- اس طرح کی دلچسپی اور بیانات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں اس میں امریکہ یا تو از خود ڈھٹائی سے تباہی و بربادی کررہا ہوتا ہے یا پھر اسرائیل کی طرفداری جیسی مثالیں موجود ہیں- اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی خطے میں بھی امریکہ ہی اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے اسرائیل کو شہ دے کر مسلمانوں کا قتل کروارہا ہے-
مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے- انسانیت سوزی کی یہ برتری مثال کہ یہودی صہیونی کی ایک دو ہلاکتوں کے عوض فلسطینیوں کو 100 سے زیادہ قربانیوں کا معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے- مسلمانوں کا لہو اتنا ارزا کیوں ہوگیا ہے- اسرائیلی جارحیت اور اس زمینی حملے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے دفتر سے جاری بیان میں کہا کہ اس حملے کا دورانیہ محدود نہیں ہوگا بلکہ حملے کی شدت اور دورانیہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حماس کے خفیہ اور غیر خفیہ ٹھکانوں کو مسمار کر کے صحفہ ہستی سے نہیں مٹا دیا جاتا- کیونکہ حماس ان ٹھکانوں کی مدد سے اسرائیل پر راکٹ حملے کرتی ہے-
امریکی دبائو کا یہ عالم ہے کہ اقوام متحدہ اس کے سامنے بے بس ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری جنرل بان کی مون از خود اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں مگر سلامتی کونسل امریکہ اور برطانوی دبائو کا اس قدر شکار ہے کہ وہ کوئی مذمتی بیان بھی جاری کرنے سے گریزاں ہے- امریکہ سمیت مغربی میڈیا بھی حماس کے حوالے بے بلاجواز پراپیگنڈہ کررہے ہیں کہ حماس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور اگر یہ ہتھیار اسرائیل کے خلاف استعمال کیے گئے تو اسرائیل کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہوگا- دراصل یہ سارا ڈرامہ پروپیگنڈہ اور الزامات کی بوچھاڑ صہیونی اور امریکی لابی کی تہہ در تہہ سازشوں کا گھنائونا اور منہ بولتا ثبوت ہے-
یہ سازشی ٹولے مسلمانوں پر مظالم ڈھا کر ان کا قتل عام کرتے ہیں اور اوپر سے دہشت گردی کے مصنوعی الزام کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں- حالانکہ جوہری ہتھیار، نیوکلری اور فاسفورس مواد اسرائیل خود فلسطینیوں پر برسا رہا ہے جس کی تصدیق فلسطینی ڈاکٹروں نے زخمیوں پر ادویات کے استعمال کے بعد کردی کہ یہ معیار میڈیسن زخموں پر استعمال کرنے سے رزلٹ نہیں دے رہی ہیں اور جب لیبارٹری ٹیسٹ کیے گئے تو بات کھل کر سامنے آگئی کہ اسرائیل کی جانب سے بارود میں کیمیائی، جوہری مواد استعمال ہوتا رہا ہے- کتنی ستم ظریفی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں عرب سمیت امریکہ اور اسرائیل کے اس بہیمانہ ظلم کے سامنے جارح ہاتھ نہیں روک سکتے-
واضح رہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا اس ضمن میں جب سابق کوئی کردار نہیں ہوگا لیکن انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی فوج عام شہریوں اور سول تنصیبات پر دھڑا دھڑ حملے کررہی ہے جس میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا لحاظ بھی نہیں ہے بلکہ ڈرونز کے میزائل حملے روزمرہ کا معمول بن چکا ہے- معصوم بچے تو فرشتہ صفت ہوتے ہیں- ٹی وی نشریات پردکھائی جانے والے جنازوں کی قطاریں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے- کیا گریٹر اسرائیل غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں پر اسی طرح میزائلوں کی بارش برساتے رہیں گے اور کفن میں لپٹے ننھے بچے بات کے ہاتھوں ابدی نیند سوتے رہیں گے اور مائیں اس ظلم و سفاکی پر بے بسی سے اپنے بچوں پر بین ڈالتیں اور دھاڑیں مار مار کر روتی رہیں گی-
عالمی سطح پر او آئی سی کو ہر طرح کا نفاق ختم کر کے باطل قوتوں کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ورنہ ان ننھی لاشوں پر بین کرتی آوازیں ہوائوں فضائوں اور گلی گلی کوچوں میں پرواز کرتی دکھائی اور سنائی دیتی رہیں گی-