یہ بات بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ اقوام متحدہ نے 29 نومبر 1947ء کو قرارداد 181 پاس کی تھی۔ اس قرارداد نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے کو یہودی ریاست قرار دے دیا تھا۔ ہولوکاسٹ کے بعد یہ عام خیال تھا کہ یہودیوں کی کسی طرح سے تشفی کی جائے اگر یہ سب ان کی قیمت پر ہی نہ کیا جائے جن کا ہولو کاسٹ سے کوئی تعلق بھی نہ تھا۔
اس تقسیم کے 75 سال بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ ایک بھیانک غلطی تھی۔ اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے (فلسطین سے) تین لاکھ فلسطینیوں کو نکال دیا گیا تھا۔ تب سے اسرائیل نے ہمسایہ ممالک پر جنگیں مسلط کی ہیں صرف اس لیے کہ وہ کسی ممکنہ خطے کو وجود میں آنے ہی نہ دے۔ اس سے بڑی حقیقت ہے کہ اس نے فلسطینیوں پر زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔ یہ ان پر زیادہ بڑی ’نکبہ‘ نامی قیامت ہے جو اسرائیل کے اندر رہتے ہیں۔ وہ بھی اس قیامت سے گزر رہی ہے جو ان مقبوضہ عرب علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ فلسطین کے حصے ہیں۔ وہ 1948ء میں ان پر قبضہ نہیں کرسکا۔ یہ مغربی کنارا اور غزہ ہیں۔
اقوام متحدہ کے لیے یہی صحیح وقت ہے کہ یہ تسلیم کرلے کہ قرارداد 181 سنگین غلطی تھی۔ اسے ختم کیا جائے اور اسرائیل کی قانونی حیثیت بھی مسترد کی جائے۔
اسرائیل نے جس طرح سے شیریں ابو عاقلہ کو نہ صرف قتل کیا ہے بل کہ اس کے جنازے پر پولیس حملہ آور ہوئی ہے۔ اب اسرائیل اس قتل کی تحقیقات سے صاف انکار کر رہا ہے۔
اگر ہم اس واقعہ کو فلسطینیوں کی نسل صفائی کی مہم کے ساتھ دیکھیں، مسافر یطا کے واقعات کو دیکھیں تو ہمارے سامنے یہ سادہ سوال آتا ہے کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست کے طور پر کیا فلسطینیوں سے امن سے رہ سکتا ہے؟ یا یہ کہ عرب دنیا میں اس کے واحد دوست مشرق وسطیٰ کے آمر وجابر حکمران ہیں ہیں؟
راجرز پلان 1969ء سے لے کر اوسلو معاہدہ ہو یا جان کیری کا امن منصوبہ اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایک پرامن حل کے بجائے گریٹر اسرائیل چاہتا ہے اور بس۔
اگر 1948ء میں کھینچی گئی سرحدوں کو بھی مان لیا جائے تب بھی اپنے ہی فلسطینی شہریوں کو بامعنی مساوات دینے کے اہل نہیں ہے۔ وہ آج بھی ان کی زمین ان سے چھین رہا ہے اور داخلی طور پر بھی نو آبادیات کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کام کو وہ یہودیانے کا عمل قرار دیتا ہے۔ یہودیانے کا یہ عمل نازی جرمنی کے آریانے کے عمل سے کسی طرح سے مختلف ہے۔
اس یہودی ریاست نے 2018ء میں جیونش نیشن سٹیٹ لاء ان تمام کارروائیوں کو یقینی بناتا ہے جو پہلے در پردہ کی جاتی رہی ہے۔ اس قانون کے تحت ’’یہودی آبادکاری‘‘ کا سادہ سے معنی فلسطینیوں کی زمین پر نو آبادیاتی کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اسے قومی اہمیت قرار دیا جاتا ہے۔ یہ قرارداد 181 کی ہی مہربانیاں ہیں یہی قانون عرب پر شہریوں سمیت تمام فلسطینی مہمان کا درجہ رکھتے ہیں۔
اسرائیل سرکاری طور پر نسل پرست ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ جرم ہے۔ اس لیے بھی قرارداد 181 منسوخ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ یہودی ریاست اور نسل پرست ریاست بالکل مختلف چیزیں ہیں۔
کچھ دیر کے لیے یہ بات ذہن میں لائیے کہ برطانیہ نہایت خاموشی سے لندن کی سیاہ فام آبادی کو کم سے کم کر رہا ہے۔ سفید فام برطانویوں کو بڑھا رہا ہے۔ اسے فوراً ہی نسل پرست قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسرائیل میں یہ سب نارمل معاملہ ہے۔
ہم اس بات کا کیا جواز پیش کر سکتے ہیں کہ صحرائے نقب کے بدوئوں کے دیہات اب بھی تسلیم نہیں کیے جاتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں وہ کم سے کم سہولیات بھی دستیاب نہیں جو یہودی بستیوں کو حاصل ہیں۔ وہاں سرکاری سکول نہیں ہیں، پینے کا صاف پانی اور بجلی بھی نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہاں لوگ کب سے کسی طرح رہ رہے ہیں۔ ان دیہات میں کوئی پولنگ بوتھ بھی نہیں ہے۔ ان کے ساتھ قابضین سا سلوک ہو رہا ہے۔
العراقیب گاؤں کو 200 مرتبہ مسمار کیا جا چکا ہے۔ ام الحیران 2018 میں مسمار کر دیا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ مقدس یہودی گائوں حیران کے لیے راستہ بنایا جائے۔ اسرائیلی ریاست نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ایک یہودی گائوں کے ساتھ عرب گائوں بھی ہو۔ عدالہ نامی این جی او نے درست کہا ہے ’’کہ اسرایئل نے بدوئوں کا گائوں ام حیران تباہ کر دیا ہے۔ وہاں کے مکینوں کو زبردستی نکال باہر کیا جو کہ انتہائی درجے کی نسل پرستی ہے۔ یہی نو آبادیاتی ارض پالیسیاں ہیں جن کو اسرائیلی عدالتی نظام کی پشت پناہی حاصل ہے۔‘‘
اسرائیل اپنے قیام سے اب تک نارمل ریاست نہیں ہے۔ یہ ایک آبادکار نو آبادیاتی ریاست ہے۔ جہاں نسل پرستی کا اصول چلتا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے دعویٰ کہا تھا: ’’اسرائیل اپنے تمام شہریوں کی ریاست نہیں ہے ۔۔۔ یہ یہودی عوام کی ریاست ہے‘‘ کنیسٹ کے عرب ارکان سے اپنے خطاب میں ایم کے بزائل سمو شعرخ نے انہیں بتایا تھا ۔۔۔ آپ یہاں فلسطینی سے آ گئے ہیں، کیوں کہ بن گوریان اپنا کام مکمل نہ کر سکے اور 1948میں تمہیں باہر پھینکا تھا۔ اس نے وہ بات بھی بلند آواز میں کہی جو صہیونی بھی خاموشی سے کہتے تھے۔
اس سوال کا جواب مغربی سیاست دان کبھی نہیں دیں گے کہ کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب یہودی نسل پرست ریاست فلسطینیوں کے ساتھ برابری کی سطح پر رہ سکیں گے۔ تمام سوالوں میں سے بنیادی اور آسان سوال یہ ہے، جب اسرائیل کی باری آتی ہے تو ان کے لیے جواب اتنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ فوراً ’’یہود مخالف‘‘ کا نعرہ بلند کرنے لگتے ہیں۔
فلسطین کو صہیونی کالونی بنانے کا عمل 1882 میں شروع کر دیا گیا تھا۔ یہ سامی مخالف ہولو کاسٹ سے بھی 60 سال پہلے کی بات ہے۔ آج صہیونی تحریک ہولوکاسٹ کو اسلحہ کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس یہودی ریاست کہتی ہے کہ ہولوکاسٹ نے یہودی ریاست کی تشکیل سے روک دیا تھا۔
فلسطین کا میڈیا تو ہولوکاسٹ کے وجود سے بھی انکار کرتا ہے۔ وہ نازی پریس رپورٹس کی مدد سے دعویٰ کرتا ہے کہ یہودیوں کو کبھی بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوئی کوشش کبھی بھی نہیں ہوئی۔ گوئیلز نے بھی اپنے منصوبوں کو بھی بیان نہیں کیا جس طرح سے عبرانی پریس نے ہولوکاسٹ کو بیان کیا ہے۔
امریکی صدر روز ویلٹ، امریکی صہیونیت کے راہ نما سٹیفن وائز نے بھی تسلیم کیا تھا: یہ کسی تنازعہ سے بالکل آزاد بات ہے کہ بیس لاکھ کے قریب یہودیوں کا قتل ہوا۔ مجھے یہ معلومات خفیہ کیبلز اور زیر زمین مراسلت میں بتائی گئیں۔ میں ان معلومات یہودی تنظیموں کے سربراہوں کے تعاون سے سب کچھ میڈیا کی رسائی سے باہر رکھنے میں کامیاب رہا۔
حیفا یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر یوآف گیبلر نے کہا تھا: یہودی محاذ سے لڑی جانے والی لڑائی کا مقصد صہیونی حل تلاش کرنا تھا۔ اسے صہیونیوں سے الگ کر دیا گیا۔ اس لڑائی سے پہلے اسے کسی کوشش یا حکمت عملی سے ائیروٹز یسرائیل سے جوڑا نہیں گیا۔یہ وائزمین کے اس انکار سے بھی واضح ہے جنہوں نے ایویان کانفرنس نہیں شرکت سے 1938 میں انکار کردیا تھا۔
نوح لوکس نے بتایا: جوں ہی یورپی ہولوکاسٹ پھیلا، بن گوریان نے اسے صہیونیت کے لیے موقع جانا ۔۔۔ امن کی صورت میں یہ ممکن نہیں تھا کہ صہیونیت عالمی جیوری کی وسیع تعداد سے آگے بڑھ پاتے۔ ہٹلر نے جن قوتوں کو استعمال کیا تھا اور دہشت پھیلائی تھی، سب کو صہیونیت کے فائدے میں استعمال کیا گیا۔ 1942 کے آخر تک یہودی ریاست کا قیام تحریک کا بنیادی مقصد قرار پایا۔
البرٹ آئن سٹائن نے صاف طور پر انتباہ کیا تھا کہ آپ تصور نہیں کرسکتے جو کچھ یہودی ریاست کے بننے سے ہوگا۔ 21 جنوری 1946 میں ایک خط میں یوں خبردار کیا: میں فلسطین کے حق میں ہوں جسے یہودی ریاست بنایا جا رہا ہے لیکن کبھی الگ ریاست کی بات نہیں کر سکتا۔ یہ مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلسطین پر سیاسی کنٹرول ہو جس کی دو تہائی آبادی یہودی نہیں ہے۔
آئن سٹائن نے اینگلو امریکن کمیٹی برائے انکولرس میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا: یہ 11 اکتوبر 1946 کا دن تھا۔ میں کبھی ایک ریاست کے حق میں نہ تھا۔۔۔ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے بہت مشکلات ساتھ آئیں گی یہ تنگ نظری ہے۔ میں اسے برا خیال کرتا ہوں۔ 1946 میں ہی فلسطین کی نیشنل لیبر کمیٹی سے خطاب میں کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ اس نقصان کا جو صہیونی ریاست بننے سے یہودیت کو ہوگا۔ یہودیت کو داخلی نقصان برقرار رہے گا۔ اس سے ہماری ہی صفوں میں تنگ نظر قوم پرستی پروان چڑھے گی۔ سیاسی طور پر ایک قوم کو اس کی روحانیت سے محروم کردیا جائے گا جو ہمارے پیغمبروں سے ہمیں ملی تھی۔
اسرائیل کے راستے کی پیش گوئی کرنا مشکل نہیں ہے۔ ٹرانسفر کا خیال اتنا ہی پرانا ہے جس قدر صہیونیت ہے۔ فلسطین کی سرزمین کے لوگ نہیں تھے اسے لوگ زمین بغیر بنایا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نکبہ روکا نہیں جاسکتا تھا۔
یورپی تاریخ کے کسی بھی طالب علم کو یہ جاننا چاہیے کہ ایک یہودی ریاست یورپ کو تاریک دور میں دھکیل رہی ہے۔ 1789کا انقلاب فرانس نے یہودیت کو قوت اور مذہب کو ریاست سے الگ کردیا۔ کلیمنٹ ٹوفرتے نے اسمبلی میں کہا تھا: ہمیں چاہیے کہ یہودیوں کو ایک قوم کے طور پر سب کچھ نہیں دے دینا چاہیے۔ یہودیوں کو فرد کے طور پر سلوک کا مستحق قرار نہیں دینا چاہیے۔ صہیونیت کورس بات سے نفرت تھی کہ یہودیت کو قوت دی جائے کیوں کہ یہ اکٹھے کرنے کی طرف لے جائے گی۔ اس لیے 1935 میں صہیونیت نے نورمبرگ قانون کی حمایت کی تھی۔
1940 کے عشرے کے یورپ میں رومانیہ، ہنگری، سلوواکیہ اور کروشیا یہودیوں کے قبرستان بنا دیے گئے تھے۔ صرف کروشیا نازی کے قبضے میں تھا جہاں یہودیوں کو ختم کرنے کے کیمپ بنائے گئے۔ سلوواکیہ واحد ملک تھا جس نے یہودیوں کو بے دخل کر کے مقتل بھیج دیا تھا۔ ایک ایسے ملک میں سیاسی اور سول حقوق صرف ایک مذہب سے وابستہ ہونے میں تھے جبکہ دوسرے مذاہب والوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
اسرائیل کی پیدائش ظلم اور دہشت میں ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے میں بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا تھا۔ صہیونیوں کو یہ بات قبول نہ تھی۔ یہودیوں کو نازی خطرے سے بچانے کے والے اقوام متحدہ کے ثالث کائونٹ فوک برناڈوٹ 1948 میں یروشلم پہنچا تو قتل کر دیا گیا۔
ایم کے گیسولا کوہن وہ گروہ تھا جو قتل عام کر رہا تھا، جب اس سے دریافت کیا گیا کہ کیا وہ اب بھی برناڈوٹ کے قتل کو درست سمجھتے ہیں تو جواب دیا گیا کہ یہ کسی بھی سوال سے بالاتر بات ہے۔ اب یروشلم ہمارا نہیں رہا۔
آج کے اسرائیل میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ یہودی ریاست کا ہی نتیجہ ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد اور جاری نکبہ اس ریاست کے اٹوٹ انگ ہیں۔ اسرائیل ناکام ریاست ہے۔ اس کی واحد عبادت یہودی عسکریت ہے۔ اب وقت ہے کہ اسے ختم ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ٹونی گریسٹائن بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لکھاری اور ایکٹویسٹ ہیں۔ وہ فلسطینی یکجہتی مہم کے بانی رکن بھی ہیں۔ وہ گرین سوشل ازم الائنس کے نمائندے کے طور پر پارلیمنٹ کی آواز میں آواز ملاتے رہے۔ ان کے مضامین مڈل ایسٹ مانیٹر پر باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔