مشرق وسطی امن کانفرنس کے افتتاحی خطاب کے دوران صد بش نے اسٹیج سے ذرا پیچھے ہٹ کر فلسطینی صدرمحمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کو مصافحہ کرایا-
کیمروں کی چکا چوند میں تیس سیکنڈ تک جاری رہنے والی گرمجوش ملاقات کے بعد صدر بش نے اپنی تقریر میں جانبین سے اتفاق رائے سے تیار کردہ ایک بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اگلے برس کے خاتمے سے قبل مذاکرات پر متفق ہیں‘‘- امریکی ریاست میری لینڈ میں منعقدہ امن کانفرنس میں اسرائیل فلسطین کے درمیان سات بر س سے تعطل کا شکارمذاکرات کاسلسلہ نئے عہد میں عزم نو کے ساتھ شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا-فریقین اپنے اپنے مطالبات اور تجاویز کے پلندے لے کر کانفرنس میں حاضرہوئے، ارباب حل وعقدسر جوڑ کر بیٹھے او ر مسئلہ کے حل کے لیے ہر پہلو پر غور کیا- کانفرنس کی کامیابی کو اسرائیل اور فلسطین کے لیے بہت بڑی فتح اور ناکامی کو شکست سے تعبیر کیا جارہاہے- اگرچہ بڑے غور وحوض کے بعد بھی فریقین کسی متفقہ ایجنڈے پراکھٹے نہ ہو سکےگو صدر بش اپنے تئیں کانفرنس کو کامیا ب کوشش قرار دے ر ہے ہیں تاہم اس کی کامیابی اور ناکامی کے بارے میں ابھی بہت سے سوال جواب طلب ہیں- سب سے اہم امر کانفرنس میں پیش کرنے کے لیے متفقہ ایجنڈا تھا-
تاہم کسی متفقہ ایجنڈے کے بغیر ہی مذاکرات کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے- اس تسلسل کی پہلی کڑی 12 دسمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے-اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ آنے والا وقت انتہائی مشکل فیصلے کرنے اور آزمائشوں سے دو چار ہونے کا ہے- بین السطور ان کے اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی صدر کی جانب سے اٹھائے گئے نکات مثلا فلسطینیوں کے حق واپسی، قیدیوں کی رہائی، مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کے دارلحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کاا شارہ دے رہے ہیں-کانفرنس کی ناکامی یا کامیابی کا دارومدار بھی انہی اہم معاملات کے حل سے مربوط ہے- دوسری جانب حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے معاہدات بہت کیے جا چکے ہیں، اسرائیل نے ان معاہدات پر اتفاق کے باوجود عمل درآمد نہیں کیا- اگرچہ فلسطینی ریاست کی ضرورت کو اس نے تسلیم کر لیا لیکن وہ ایسا کرے گا نہیں بلکہ وقت گزارنے کا مزید راستہ بہانہ تلاش کرے گا اور یہ حربہ بھی اس کا حقائق سے راہ فرارکی چال ہے
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کانفرنس کے انعقاد سے قبل ہی اس کی ناکامی کا عندیہ دے چکے ہیں- انعقاد سے قبل انہوں نے کانفرنس کے شرکاء کے نام جاری اپنے ایک خط میں دو ٹوک انداز میں کہا کہ اگر اس کانفرنس کو کامیاب بنانا ہے تومشکل فیصلے کرنے کا عزم لے کر کانفرنس میں شریک ہوا جائے اور جتنے بھی متنازعہ امور ہیں ان کے حل کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل تیا کیا جائے- ایسا لائحہ عمل جو فلسطینیوں اور اسرائیل دونوں کے لیے قابل قبول ہو، جو خطے میں امن کی ضمانت فراہم کر سکے اور لائحہ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے نصف صدی سے زائد فلسطینی اسرائیلی کلیش ختم کیا جاسکے-بان کی مون کے مطالبے اور کوششوں کے باوجود فریقین ایسا کرنے میں میں ناکام رہے-کی مون نے مزید کہا کہ اس کانفرنس کی ناکا می نہ صرف خطے میں عدم استحکام کا باعث بنے گی، بلکہ ایک نئی سول وار پر منتج ہو گی- انہوں نے امریکہ ،یورپی یونین، عرب ممالک اور خصوصا متحارب فریقین (اسرائیل اور فلسطینی قیادت) سے بھی اپیل کی کہ وہ اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کا عزم لے کراس میں شریک ہوں- ورنہ اس کانفر نس کی حیثیت امریکہ کے ایک رسمی دورے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگی-
یورپی یونین کے مندوب برائے مشرق وسطی ٹونی بلیئر کانفرنس کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں مصروف رہے- کانفرنس کے انعقاد سے قبل انہوں نے عرب راہنماؤں کے علاوہ اسرائیلی اور روسی حکام سے بھی بات چیت کی- کانفرنس کے حوالے سے روس کاموقف سب سے مختلف ہے- روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اناپولس کانفرنس کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے خطے کی اصل متحارب قوتوں کو بھی شریک مذکرات کیا جائے- جب تک اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کو مذاکرات میں شریک نہیں کیا جاتا کانفرنس کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی- کانفرنس کو کامیاب بنانے کا اصل کام اسرائیل کے کندھوں پر ہے- دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کس حد تک فلسطینی قیادت کے مطالبات تسلیم کر تا ہے- روس نے بھی فلسطینی صدر کی جانب سے قیام امن کے لیے پیش کردہ شرائط، جس میں مقبوضہ بیت المقدس کو زاد فلسطینی ریاست کے دارلحکومت کے طورپر تسلیم کرانے اور بیرون ملک فلسطینیوں کی واپسی جیسے بنیادی امور کی حمایت کا اعلان کیا ہے-
دوسری جانب اسرائیل اپنے طور مطالبات کی الگ فہرست لیے کانفرس میں حاضر ہوا- اس کا کہنا ہے کہ صدرمحمود عباس فلسطین سے مزاحمت کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں- اسرائیل پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والی تمام عسکری تنظیموں پر پابندی لگا کر ان کا ناطقہ بند کردیا جائے- اس مقصد کے لیے اگر انہیں اسرائیلی فوج کی بھی ضرورت پڑے تو اسرائیل انہیں فوجی تعاون فراہم کرنے کو بھی تیار ہے-
اسرائیل کا نقطہ نظر ہے کہ جب تک فلسطین کی طرف سے مزاحمت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، خطے میں قیام امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی- اس کے علاوہ اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس اور ساٹھ لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کے مطالبے سے دستبراری کا مطالبہ کر رہا ہے- اسرائیل کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ القدس کے بعض صحرائی اور پہاڑی علاقوں کو ملا کر آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنا دیا جائے اور ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین فلسطینیوں کو1948ء کے ان کے آبائی علاقوں میں ان کے اصل وطن میں آباد کرنے کے بجائے غزہ اور غرب اردن کے فلسطینی ریاست میں شامل علاقوں میں آباد کر دیا جائے- اس سلسلے میں عبرانی اخبار ’’ہارٹز‘‘نے ایک نئی سازش کا بھی انکشاف کیا ہے جس کے تحت90 ارب ڈالر کے عوض پناہ گزینوں اور القدس کے مستقبل کا سودا کیے جانے کی ایک تجویز بھی زیر غور ہے- منصوبے کی تفصیلات کے مطابق اسرائیل اتنی خطیر رقم فلسطینیوں کو دینے پر رضامند ہے اور فی کس مہاجرین کو 21 ہزار ڈالر دے کر ان کی جائیداد ، املاک، زمین اورواپسی کے حق سے دستبردار کرایا جائے گا- فی کس21 ہزار ڈالر ادا کے علاوہ زمینوں اور املاک کے عوض14 ہزار ڈالر ادا کیے جائیں گے- اگرچہ اس پر فریقین نے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا گیا تاہم اس منصوبے کے بہت سے پہلوؤں پر غور کے بعد اس پر بات چیت مزید آگے بڑھائی جارہی ہے- توقع ہے کہ فریقین جلد اس کے کسی حتمی نتیجے تک پہنچ جائیں گے-
اسرائیل نے عرب ممالک سے بھی اپیل کی کہ دشمنانہ رویہ ترک کر دیں اور تل ابیب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں- دشمنی کسی کے مفاد میں نہیں بلکہ اب دوستی کے سوا چارہ ہی باقی نہیں رہا-
یورپی یونین بھی تواز ن کے ساتھ فلسطینی اور اسرائیلی قیادت پر دباؤ ڈالے ہوئے ہے- یورپ ایک طر ف حماس کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری جانب اسرائیل کو بھی رام کرنے کی سعی میں مصروف ہے- فلسطینی صدر پر یہ دباؤ بھی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھتے ہوئے حماس کو بھی اپنے ساتھ اس پراسس میں شامل کرنے کی کوشش کریں- کانفرنس کی ناکامی کی صور ت میں اسرائیل فلسطین پر کسی بڑے حملے کا بھی منصوبہ بنائے بیٹھا ہے- 18 ستمبر کو اسرائیل نے غرب اردن میں نئی فوجی مشقوں کا سلسلہ شروع کیا ہے- اسرائیلی شیڈول کے مطابق یہ مشقیں رواں سال جولائی میں ہونا تھیں، لیکن امریکی صدر جارج بش کی جانب سے نومبر میں امن کانفرنس کی تجویز کے پیش نظر یہ مشقیں ملتوی کر دی گئی تھیں- عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت کی رپورٹ کے مطابق ان مشقوں کا مقصد کانفرنس کی ناکامی کی صور ت میں غزہ پر حملے کی تیاری کرنا ہے- اسی حوالے سے ایک خبر شام کے ایک اخبار نے بھی شائع کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو پہلے سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ میری لینڈ کانفرنس میں ہونے والے فیصلے اس کے حق میں نہیں جاتے یہی وجہ ہے کہ وہ مستقبل کی پیش بینی کر رہا ہے – غرب اردن میں ہونے والی مشقوں کے در پردہ اسرائیل غزہ پر حملے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے-
دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اس کانفرنس کو پہلے ہی فلسطینی عوام کے خلاف ایک ڈھونک قرا ردی چکی ہے- حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسی ابو مرزوق نے دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس کے امریکہ اور اسرائیل کے پیش نظر صرف دو مقاصد ہیں- ایک کا تعلق اسرائیل سے ہے- امریکہ گزشتہ برس کی لبنان کے ساتھ اسرائیلی جنگ میں اسرائیل کو پہنچنے والی خفت اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتا ہے- جبکہ دوسرا مقصد خود امریکہ کا ذاتی ہے- امریکہ مشرق وسطی امن کانفرنس کے نام پر موجودہ امن کی فضاء کو بھی سبوتاژ کرنا چاہتا ہے- امریکہ عربوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے ایران کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کر رہا ہے- اس جنگ میں کامیابی سے عہد ہ بر ہونے کے لیے اسے ہر صورت میں خطے کے دیگر ممالک کا تعان درکار ہوگا – اب سوال یہ ہے کہ عرب ممالک ایران کے خلاف کسی بھی امریکی اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں- بعض عرب ذرائع کہتے ہیں مسئلہ فلسطین کو کسی ایک طرف کر دینے سے کم از کم عرب ایران کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ نہ بھی بنے تو غیر جانب دار رہیں گے اور امریکہ کو کسی بڑی عوامی یاحکومتی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا- اگر یہ ممالک غیر جانب دار بھی رہتے ہیں تو اس کا امریکہ کو فائدہ یہ ہوگا کہ غیر جانب دار ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کو بھی اس حملے کے خلاف کسی احتجاج کا حصہ بننے سے روکیں گی- میری لینڈ کانفرنس کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک کا اس کانفرنس میں بڑی تعداد میں شرکت کرنا اس کی بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایران سے خائف ہیں اور اس ضمن میں امریکہ اور اسرائیل کی ایران کے خلاف کسی بھی کارروائی کو جائز قرار دینے میں تاخیر سے کام نہیں لیں گے-
کانفرنس میں خطے کے بیشتر ممالک کی نمائندگی شامل رہی تاہم شام کی طرف سے امن کانفرنس میں شرکت کافیصلہ امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لیے باعث تعجب رہا- امریکہ اور اسرائیل کا خیال تھا کہ شام چونکہ فلسطین کی عسکری جماعتوں کی حمایت کرتا ہے- یہی وجہ ہے وہ ان کے موقف کے مطابق کانفرنس میں شرکت سے انکار کردے گا-شام کا کانفرنس شرکت کرنے کافیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ شام بھی خطے میں قیام امن کے لیے کسی بھی امن کوشش میں ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہے- اس نے اس کانفرنس میں شرکت کے عملا ً یہ ثابت کر دیا ہے کہ متنازعہ معاملات کے حل کا بہتر راستہ مذاکرات ہی ہیں-
خطے میں اسرائیل اور شام ہمیشہ ایک دوسرے کے سخت حریف چلے آرہے ہیں- اسرائیل گاہے گاہے شامی تنصیبات کو بھی نشانہ بنا چکا ہے- اگرچہ امریکہ اور اسرائیل نے شام کے کانفرنس میں آنے کا خیر مقد کیا ہے، تاہم یہ خیر مقدم زبانی حد تک محدود رہا تو شام قیام امن کے لیے کوئی ٹھوس کردار ادا نہ کر سکے گا -1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے شام کے زرخیز وادی گولان ہائٹس پر قبضہ کر لیا تھا- اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مسلسل کشیدہ رہے -کشیدگی کا خاتمہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسرائیل ان علاقوں سے دستبرار ہو جائے اور اپنی فوجیں واپس بلالے تو دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے قیام کی امید کی جا سکتی ہے-
امن کانفرنس کے اعلامیے سے بھی کئی سوالات جنم لے رہے ہیں- 2008ء کے اخیر تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے- اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست جو خطے میں قیام امن کی بنیادی ضرورت بھی ہے اور اس کے بغیر امن وسلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی- کانفرنس میں توجہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے تک محدود رکھی گئی- حالانکہ مطالبہ تو اس کانفرنس سے پہلے بھی کیا جا رہا تھا- اس کانفرنس میں اس ریاست کا نقشہ ، حدود اربعہ اور اس کے دیگراہم پہلوؤں پر بات چیت کا آغاز کانفرنس میں ہونا تھا، جو نہ ہو سکا- غیر جانب دار ذرائع اعلامیے کے پیش نظر تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ کانفرنس بھی قیام امن کے حوالے سے دورس اثرات کی حامل نہیں ہوگی-ایک عرب تجزیہ نگاررقم طراز ہے کہ
’’اسرائیل اس وقت ایک مشکل سے دوچار ہے- یہ مشکل اس کے لیے نئی نہیں، بلکہ ہمیشہ ان قوموں کو پیش آتی رہتی ہے جن کے جہانگیرانہ پندار کو پہلی مرتبہ ٹھیس لگانے کے لیے کوئی حقیر سی قوم پیدا ہو جاتی ہے- ایسے موقع پر ان قوموں کے تدبر کا خاص امتحان ہوتا ہے- اگر ان کے ارباب حل و عقدفہم و ادراک کے جوہر سے متصف ہوں تووہ حقائق کو ان کے اصلی رنگ میں دیکھ لیتے ہیں اور موقع کے ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اسے سنبھالنے کے لیے بالادستی کے منصب رفیع سے نیچے اترتے ہیں، لیکن وہ سلسلہ جنگ کو طول دینا چاہتے ہوں توان کی عقل خبط ہو جاتی ہے اور وہ اپنی سیادت کو قائم رکھنے کے لیے احمقانہ خواہش پر اپنی عزت ووقار کو بھی قربان کر دیتے ہیں- اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین کے اس امتحان میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہے- اگر اس کے مدبرین کے پاس تھوڑی سی بھی عقل موجود ہے تو وہ جلد فلسطین کی آزادی کو تسلیم کر لیں گے ورنہ انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ کچھ عرصہ بعدانہیں فلسطین کی آزادی کو تسلیم کرنا پڑے گا اور اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا- ڈاکٹر محمود زہار کے یہ الفاظ وزن رکھتے ہیں کہ’’ فلسطینی یہودیوں کو ایک اینچ زمین دینے کو تیار نہیں وہ فلسطین میں یہودیوں کے وطن کو کیسے تسلیم کر لیں گے‘‘کانفرنس کی کامیابی اور ناکامی کے لیے ایک سال کا عرصہ نہیں بلکہ یہ ایک نازک معاملہ ہے جواسرائیل کے کسی ٹارگٹ کلنگ حملے یا کسی فلسطینی کے فدائی حملے سے خلاء میں تعمیر کردہ محل زمیں بوس ہو سکتا ہے‘‘-
دوریاستی نظریہ اور زمینی حقائق
تنازعہ فلسطین کے حل کے لیے پہلی مرتبہ ’’دور یاستی نظریہ‘‘ اس وقت وجود میں یا جب سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات نے اسرائیل سے اوسلو معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا- بعد کے دیگر معاہدات میں یہ تصور مزید پختہ ہوتا گیا اور امریکہ کی جانب سے امن کوششوں میں فلسطین میں ’’دوریاستی تصور‘‘ کو نہ صرف زندہ رکھا گیا بلکہ اس پر مزید کام کرنے پر بھی زور دیاجاتا رہا -سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مرحلہ وار کام کی غرض سے روڈ میپ کا اضافہ کیا اور ایرئیل شیرون کے ساتھ فلسطینی معاہدات میں دو الگ الگ ریاستوں (فلسطین اور اسرائیل) کے وجود پر زور دیا –
اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی نظریے میں اسرائیل کو بطور’’یہودی ریاست‘‘ کے تسلیم کرانے کا مطالبہ جو اگرچہ پرانا ہے ، لیکن ایک بار پھر زور پکڑتا جا رہا ہے- اسرائیل کچھ عرصے سے ایک فلسطینی ریاست کے مقابل ایک یہودی ریاست کا راگ الاپ رہا ہے- اناپولس کانفرنس میں بھی اسرائیل خود کو بطور یہودی ریاست کے طورپر تسلیم کرانے پر زور دیتا رہا –
اس نظریے کے تحت مقبوضہ بیت المقدس، جنہیں اسرائیل نے 1948ء اور 1967ء کے دوران قبضے میں لیا تھاکو ملا کر ایک ’’یہودی ریاست‘‘ قائم کیا جانا شامل ہے جبکہ غرب اردن کے بعض شہر اور غزہ کی پٹی کو ملا کر ’’فلسطینی ریاست‘‘ کی تجویز دی گئی ہے-
اسرائیل کو خالصتا ً ایک’’ یہودی ریاست‘‘ کے طور پر فی الحال تسلیم نہیں کیا جا سکا، تاہم اسرائیل کی کوشش ہے کہ محمود عباس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل کو بطور ’’یہودی ریاست ‘‘تسلیم کرا لیا جائے- یہودیوں کے ہاں ایک خالص یہودی ریاست کے تصور کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل غیر یہودیوں کے خلاف نسلی امتیاز کو جائز قرار دے اور ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردے- یہودیوں کا یہ تصور ہے کہ وہ پیدائشی طور پر غیر یہودیوں کے خلاف امتیازی سلوک کرنے کا حق رکھتے ہیں- ایک یہودی ریاست کے غیر یہودی باشندے ملک کے لیے خطرہ بن رہے ہوں توانہیں ملک سے نکال باہر کیاجاجا سکتا ہے- اسی طرح یہودی ریاست کے تصور میں ’’یہودیت‘‘ (نسل پرستی) اور جمہوریت کو ہم معنی قراردیا جاتا ہے- یہودی یہودیت کو جمہوریت پر ترجیح دیتے ہیں- صرف یہودیوں کو ملک کے اصل باشندوں کی حیثیت حاصل ہوگی، اگر کوئی غیر یہودی اسرائیل کی شہریت اختیار کرنا چاہے گا تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ پہلے یہودیت قبول کر لے- ریاست کے اس تصور کے بعد دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے اسرائیل منتقل ہونا لازمی ہوگا- اور بالفرض یہودی اسرائیل منتقل نہیں ہوتے تو وہ اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہوئے اسرائیلی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں- اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کرلینے اور اسے قانونی جواز فراہم کرنے کے بعد اسرائیل کے لیے ملک کے غیر یہودیوں کی نسل کشی کا جواز فراہم جو جائے گا- اسرائیل نسلی تطہیر کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا جو وہاں کے باشندوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگی-
حال ہی میں جب اس تصور نے حقیقت کا روپ دھارا تو مقبوضہ فلسطین کے ایک سماجی ادارے’’ تنظیم امور مہاجرین واقلیت‘‘ کی جانب سے اقوام متحدہ میں’’یہودی ریاست ‘‘کا راستہ روکنے کے لیے ایک درخواست دائر کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے- تنظیم کے سربراہ عبداللہ صالح کا کہنا ہے کہ وہ اپنا یہ مقدمہ لے کر پوری دنیا میں انسانی حقوق کے ذمہ دار ادارں کے پاس جائیں گے اور اسرائیل کو ایک یہودی ریاست بننے سے ہر ممکن طریقے سے روکیں گے-
دوسری جانب اسرائیل میں انتہا پسند یہودی پوری تنددہی کے ساتھ یہودی ریاست کے قیام کے لیے کوششوں میں مگن ہیں-اگر عالمی سطح پر اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کر لیا جاتا ہے تو فلسطینی عوام کی نسل کشی کا ایک نہ ختم ہونے والا باب شروع ہو گا- نسل کشی کے اس طوفان کی زد میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی جو اسرائیل میں اچھی خاصی آبادی کی حامل اقلیت ہیں بھی اس طوفان کی زد میں آئیں گے- لہذا اس وقت کسی بھی ایسے خطرے اور اسرائیل کو یہودی ریاست بننے سے روکنے کے لیے پوری دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا-
دو ریاستی نظریے میں دوسری فلسطینی ریاست کے کانام شامل ہے- یہ ریاست برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسرائیل کی ماتحت اور اس کی باجگزار کے طورپر قائم کی جارہی ہے-امریکہ اور اسرائیل کے لیے کسی صورت میں بھی کوئی ایسی ریاست قابل قبول نہ ہوگی جو آزادی کے اعتبار سے اسرائیل کے برابر کا درجہ رکھتی ہو- اسرائیل یہ باربار اعلان کر چکا ہے کہ وہ صرف ایسی فلسطینی ریاست قبول کرے گا جس کی سرحدوں کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہوگا- بیرونی دنیا سے اس ریاست کا رابطہ اسرائیل کی اجازت سے ہوگا اور فلسطینی اتھارٹی اور اس کی حکومت کو اسی صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب وہ اسرائیل کی سالمیت، بقاء اور سلامتی کی ضمانت دے گی- اس کے علاوہ فلسطینی ریاست کی حکومت اسرائیل مخالف قوتوں کو بزرو قوت ختم کرنے کی ذمہ دارہوگی اور ضرورت پڑنے پر اسرائیلی فوج کو اپنی ریاست میں مداخلت کی کھلی چھٹی دے گی –
اب سوال یہ ہے کہ یافلسطینی کسی ایسی ریاست کو قبول کر لیں گے، جو کلی طور پر خود مختار نہ ہو بلکہ اسرائیل کے ماتحت ہو – اس طرز کی ریاست فلسطینی کسی صورت بھی تسلیم نہیں کریں گے – فلسطین کی ایک بڑی سیاسی جماعت اسلامی تحریک مزاحمت(حماس)اور دیگر مزاحمتی جماعتیں فلسطینی ریاست کے اس تصور کی قطعی مخالف ہیں- وہ کسی صورت میں بھی ایسی ریاست کی داغ بیل ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گی- اب سوال یہ ہے کہ اس کھچڑی کے بعد فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا دو ریاستی نظریہ اپنی موت مر جائے گا- اس سوال کا جواب سابق مصری صدر عزیز صدقی نے حال ہی میں استنبول میں منعقدہ القدس کانفرنس کے میں خطاب کے دوران دیا انہوں نے کہا’’ فلسطینیوں اور عربوں کے پاس آزادی اور اپنے حقوق کے حصول کا واحد ذریعہ طاقت کا استعمال ہے، جو چیز طاقت کے زور سے چھینی گئی ہووہ طاقت ہی کے ذریعے واپس لی جاسکتی ہے- زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کا ایک ایسا حل جو فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کا خون کر کے پیش کیا جائے گا فلسطینی اسے ہرگز قبول نہ کریں گے، لہذا اس کا بہتر اور پائیدار حل یہی ہے جوفلسطین کی تمام قوتوں اور عوام کامطالبہ ہے تمام فیصلے عوامی سوچ کو مد نظر رکھ کر کیے جائیں- ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جو آزادی اور خود مختاری میں کسی بھی بیرونی طاقت کے زیر نگیں نہ ہو اور ہر اعتبار سے وہ اسرائیل کے برابر ہو‘‘-
میری لینڈ میں منعقدہ مشرق وسطی امن کانفرنس میں بھی صدربش نے اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم کرنے پر زور دیا- اجلاس کی افتتاحی خطاب میں صد ر بش نے کہا کہ عرب ممالک کو چاہیے کووہ اسرائیل کو ایک ’’جیوش اسٹیٹ‘‘ کے طور پر تسلیم کر لیں- اس کے ردعمل میں حماس کے راہنما اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر محمود الزہار نے غزہ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی تو اپنے وطن کی ایک اینچ بھی یہودیوں کے قبضے میں نہیں دیکھنا چاہتے، وہ پوری ایک یہودی ریاست کو کیسے برداشت کر لیں گے- فلسطینیوں کی اصل جنگ کا محور یہودیوں کو نکال باہر کرنا ہے-
ڈائٹون پلان
رواں سال مارچ کے اوائل محمود عباس کی جماعت فتح اور حماس سمیت فلسطین کی دیگر سیاسی جماعتیں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ثالثی پر مکہ مکرمہ میں ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کا معاہدہ کررہی تھیں- اسی دوران میثاق مکہ کو بے اثر کرنے کے لیے اسرائیلی و امریکی حکام سر جوڑ کر بیٹھے اور محمود عباس کو ایک بار پھرحماس سے الگ کرنے کے لیے سوچ بچار کر نے لگے- اسرائیلی وزیر خارجہ ٹسیبی لوینی خصوصی طور پر واشنگٹن کے دورے پرگئیں اور امریکہ کو فلسطینیوں کے باہمی اتحادپر اپنی تشویش سے آگاہ کیا-
اعلان مکہ کے بعد اسرائیل نے صدر عباس اور اس کی جماعت کو حماس کا ساتھی قرار دے کر اس سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لیے- امریکہ کو بھی اس سے آگاہ کر دیا گیا – ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے بھی اولمرٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ حماس کے ساتھ اکٹھ کرنے والی کسی جماعت یا شخصیت سے مذاکرات ختم کر دیے جائیں گے- اس کے ساتھ ہی امریکہ نے صدر محمود عباس کو دباؤ اور لالچ کے ذریعے حماس سے کیا ہوا معاہدہ توڑنے مجبورکیا- صدر محمود عباس کوبتایا گیا کہ امریکہ فلسطین میں امن و امان کے قیام کے لیے اب ٹھوس اقدامات کرنے جا رہا ہے، یہ اقدامات اسی وقت قابل عمل ہو سکتے ہیں جب فلسطین میں حماس جیسی متشدد (بنیاد پرست ) اور اسرائیل مخالف قوتوں کا خاتمہ کر دیا جائے – اس سلسلے میں بش انتظامیہ نے غرب اردن کے لیے ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا- اس منصوبے کا کرتا دھرتاخارجہ کمیٹی کے اعلی عہدیدار لیفٹیننٹ (ر)جنرل کیٹ ڈائٹون کو بنایا گیا- جنرل ڈائٹون کچھ ہی عرصہ قبل مشرق وسطی امور کے معاون مقررہوئے تھے –
جنرل کیٹ ڈائٹون نے بالعموم پورے فلسطین اور بالخصوص غرب اردن کے لیے ایک نئے امن منصوبے پر کام شروع کیا- منصوبہ خفیہ رکھا گیا تاہم اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ نے اپنی اپریل کی آخری اشاعت میں امریکہ کے امن منصوبے کے متعلق ایک رپورٹ شائع کر کے اسے افشاء کردیا-امریکی حکام نے رپورٹ کی تردید کی- اس کے ساتھ ہی یکم مئی کو ایک اردنی ہفت روزے ’’ الماجد‘‘ نے ڈائٹون پلان پر مشتمل سولہ صفحات کی ایک رپورٹ شائع کر کے اس منصوبے کو مزید نمایاں کردیا-
خفیہ امن منصوبے میں کچھ شرائط ایسی تھیں جن کا تعلق براہ راست امریکہ اور فلسطینی صدر سے تھا جبکہ کچھ شرائط کی زد اسرائیل پر بھی پڑتی تھی- منصوبے کا نام ’’ڈائٹون پلان‘‘Dyton Plan)) رکھا گیا- ’’ڈائٹون پلان‘‘ کے تحت امریکہ نے فلسطین میں امن و امان کے قیام اور اسرائیل مخالف مزاحمت کے خاتمے کی شرائط کے تحت 59 ملین ڈالر کی رقم بھی مختص کی- اس خطیر رقم میں سے 20 ملین ڈالر فلسطینی صدر محمود عباس کے زیر کمانڈسکیورٹی کو ہلکے ہتھیاروں کی صورت میں میں دینا تھے- پلان میں فلسطینی صدر محمودعباس کو جواب دہ8500 سکیورٹی اہلکاروں کی تربیت بھی شامل تھی- بعدا زاں امریکہ نے عباس کے کل چالیس ہزار سکیورٹی اہلکاروں میں سے 13500 جوانوں کو عسکری تربیت فراہم کرنے کے لیے86.4 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا- امریکی کانگریس کے اعلان کردہ امدادی پیکیج میں سے 15 ملین ڈالر کی رقم سے غرب اردن اور اس کے نواح میں سکیورٹی کیمپوں کی تعمیر کا بھی اعلان کیا گیا تھا- سکیورٹی اہلکاروں کو عسکری تربیت کی فراہمی کے لیے مرحلہ وار منصوبہ تیار کیا گیا- جس میں طے پایا گیا کہ چھ ماہ کے اندر 670 اہلکاروں کو تربیت فراہم کی جائے گی- ڈائٹون پلان میں اردن میں البدر فورسز کے لیے آٹھ ملین ڈالر کی رقم بھی مختص کی گئی تاکہ فتح کی کمزوری کی صورت میں اردن میں قائم البدر فورسز کو فلسطین میں مزاحمت کاروں کے خلاف تیار کیا جا سکے-
یہ امداد محمود عباس تک پہنچانے کے لیے صدر عباس کو کئی امریکی شرائط بھی تسلیم کرنا تھیں- مثال کے طور پر صدر محمود عباس فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں سے اتحاد توڑ کر اسرائیل سے مذاکرات شروع کریں گے-اسلحہ اور رقوم کے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ہاتھ نہ لگنے کی یقین دہانی کرانی ہو گی وغیرہ- رقم فوری طورپر ادا نہیں کی جائے گی بلکہ مرحلہ وار اور شرائط پر عمل درآمد کو دیکھتے ہوئے فراہم کی جائے گی-
’’ ڈائٹون پلان‘‘ میں اسرائیل سے غرب اردن میں قائم 450 غیر قانونی فوجی چوکیوں کواٹھانے کامطالبہ بھی شامل تھا ،جو بعد میں ختم کر دیا گیا- اس کے علاوہ شہریوں کو مد رفت کے لیے رفح کراسنگ، کرم ابو سالم اور ’’عوجا‘‘ جیسی بین الاقوامی راہداریوں پر مسافروں کو سہولیات فراہم کی جائیں-غرب اردن کے شہریوں کو 1948 ء کے مقبوضہ فلسطین میں محنت مزدوری کے لیے جانے کی اجازت مہیا کی جائے- محمود عباس کے ساتھ مذاکرات میں جذبہ خیر سگالی کے تحت اس کی فتح کے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے وغیرہ- اسرائیل نے منصوبے کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے مستر د کر دیا- اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ’’ ڈائٹون پلان میں اسرائیل کے سامنے قیام امن کے لیے پیش کردہ شرائط نا قاقبل قبول ہیں- فوجی چوکیوں کے ہٹانے یا کم کرنے سے اسرائیل مزید حملوں کی زد میں آجائےگا- غرب اردن کے شہریوں کو تل ابیب تک رسائی فراہم کرنے اور ان کی آمد رفت میں نرمی لانے سے کا مطلب خود کش بمباروں کو تل ابیب پر حملے کرنے کا موقع فراہم کرنا ہو گا، البتہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ محمودعباس سے ہونے والے مذاکرات میں اعتماد پر منحصر ہے-ڈائٹون پلان پر عمل درآمد کے لیے جنرل ڈائٹون جکل پھر متحرک ہیں- اسرائیل پر عائد شرائط پر نظرثانی کرتے ہوئے فوجی چوکیوں اور شہریوں کے1948 کے مقبوضہ علاقوں تک رسائی کی شرائط ختم کردی گئی ہیں- اگرچہ یہ منصوبہ بھی فی الحال روبہ عمل ہے اور امریکہ خطے میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے کوششوں میں مصروف ہے-مسٹر ڈائٹون کے ذمے فلسطین میں اسرائیل کے ماتحت ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھی، جو اگرچہ اپنے مقاصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے- اناپولس کانفرنس کے بعد مسٹر ڈائٹون بھی اپنے اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں- ان کی نگرانی میں عباس ملیشیا کو عسکری تربیت بھی دی جا رہی ہے- اس کے علاوہ مسٹر ڈائٹون عباس ملیشیا اور اسرائیلی فوج کے درمیان سکیورٹی تعاون پر بھی کام کر رہے ہیں-
غزہ میں موت،غربت کے سائے
مارچ 2006ء میں غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کی منتخب قومی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسرائیل نے حماس کی کابینہ اور اہم وزراء کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کردیا-جو تاحال پابند سلاسل ہیں- اسرائیل نے غزہ کی پٹی کودشمن ریاست قرار دیتےہوئے اس کی ہر طرف سے معاشی ناکہ بندی شروع کردی- غزہ کے تمام بیرونی راستوں پر سکیورٹی سخت کردی اور فلسطینی عوام کو جمہوریت کے جرم میں حماس سے تعاون کے جرم میں کڑی سے کڑی سزادی جانے لگی-
انتقام پالیسی صرف اراکین حکومت کے پکڑ دھکڑ تک ہی محدود نہ بلکہ عام شہریوں کو بھی مجرم قرار دے کر اہل غزہ کی زندگی اجیرن کردی- فلسطین کو واجب الادا ء ٹیکس روک لیے اور بیرونی امداد غزہ میں داخل ہونے پر پابند ی عائد کردی، حتی کہ بجلی، پانی اور ایندھن کے دیگر ذرائع بھی بند کر دیے گئے -اسرائیل کے ان انتقامی اقدامات کو ایک ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے- حال ہی میں ایک عالمی ادارے نے انسداد غربت کے حوالے سے اقوام متحدہ میں فلسطین خصوصا غزہ کی پٹی میں شہریوں کی دگرگوں حالت کے بارے میں ایک تخمینہ پیش کیا، جس کے مطابق اسرائیلی معاشی ناکہ بندی کے دوران فلسطین میں غربت کی شرح میں 23 فیصد اضافہ ہو گیا ہے اور اس طرح غربت کی شرح79فیصد تک پہنچ چکی ہے-
اسی قسم کی ایک رپورٹ مہاجرین کی فلاح وبہودکے عالمی ادارے’’اونروا‘‘ نے بھی پیش کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ بالعموم فلسطین بھر میں بالخصوص غزہ کی پٹی کے لاکھوں کا طبی معائنہ کیا گیاتو ان میں سے بیشتر غذائی قلت کا شکارتھے-عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق1998 ء میں غزہ میں غریب طبقے کی تعداد6 لاکھ72 ہزارتھی جو 2006 ء میں بڑھ کر 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور دس لاکھ فلسطینی50 سینٹس یومیہ کے حساب سے اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے پر مجبور ہیں- 46 فیصد شہریوں کے لیے بیرونی امداد کے بغیر زندگی بسر کرنا ناممکن ہو گئی ہے -12 فیصد گھرانوں کو دن میں دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں- بیروزگاری کی شرح اس قدر کم ہو گئی ہے ایک سال کے دوران غزہ اورفلسطین کے دیگر علاقوں میں2 لاکھ 60 ہزار فلسطینی بے روزگار ہیں- ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ ناکہ بندی کی وجہ سے فی کس آمدنی 40 فی صد گر گئی ہے-
فلسطین میں غربت کے حوالے سے رہی سہی کسر صدر محمود عباس کی پالیسیوں نے نکال دی ہے- کچھ عرصہ قبل صدر عباس نے عوامی بہبود کے لیے کام کرنے والے 135 اداروں کو بند کردیا- یہ تمام ادارے فلسطینیوں یتیموں، بیوائوں اور غریبوں کی کفالت کرتے تھے- ایک اندازے کے مطابق فلسطین کے5 لاکھ شہری ان خیراتوں اداروں کی سہارے پر زندگی بسر کر رہے تھے- بجلی کے بحران، کراسنگ کے راستوں کے مقفل ہونے کی وجہ سے ہر شہری متاثرہو رہا ہے لیکن سب سے زیادہ ابتری سے دوچارمیڈیکل کا شعبہ ہے-غزہ میں ادویات کی سخت قلت ہے اور شہری ہسپتالوں سے بغیر ادویات کے واپس اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں- بیرونی امداد بند ہونے کی وجہ سے رقوم کی غزہ منتقلی کا سلسلہ بھی مکمل طور پر بند ہے- فلسطینی اتھارٹی جو کہ فلسطین کے تمام ملازمین کو تنخواہیں جاری کرنے کی ذمہ دار ہے-
فلسطین میں ابتلائے انسانیت کا فتنہ اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے،لیکن عالمی برادری میں اس معاملے میں سردمہری باعث حیرت ہے- بالخصوص غزہ کی پٹی میں حالات کی ابتری پر اقوام متحدہ نے صدائے احتجاج بلند کی ہے- مقبوضہ علاقوں میں اقوام متحدہ کے نمائندہ جان ڈیوگارڈ کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے قائم چار رکنی کمیٹی (امریکہ، روس ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ) کی پشت پناہی ترک کر دینی چاہیے، کیونکہ یہ کمیٹی غزہ میں انسانی المیے سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے-
کیمروں کی چکا چوند میں تیس سیکنڈ تک جاری رہنے والی گرمجوش ملاقات کے بعد صدر بش نے اپنی تقریر میں جانبین سے اتفاق رائے سے تیار کردہ ایک بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اگلے برس کے خاتمے سے قبل مذاکرات پر متفق ہیں‘‘- امریکی ریاست میری لینڈ میں منعقدہ امن کانفرنس میں اسرائیل فلسطین کے درمیان سات بر س سے تعطل کا شکارمذاکرات کاسلسلہ نئے عہد میں عزم نو کے ساتھ شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا-فریقین اپنے اپنے مطالبات اور تجاویز کے پلندے لے کر کانفرنس میں حاضرہوئے، ارباب حل وعقدسر جوڑ کر بیٹھے او ر مسئلہ کے حل کے لیے ہر پہلو پر غور کیا- کانفرنس کی کامیابی کو اسرائیل اور فلسطین کے لیے بہت بڑی فتح اور ناکامی کو شکست سے تعبیر کیا جارہاہے- اگرچہ بڑے غور وحوض کے بعد بھی فریقین کسی متفقہ ایجنڈے پراکھٹے نہ ہو سکےگو صدر بش اپنے تئیں کانفرنس کو کامیا ب کوشش قرار دے ر ہے ہیں تاہم اس کی کامیابی اور ناکامی کے بارے میں ابھی بہت سے سوال جواب طلب ہیں- سب سے اہم امر کانفرنس میں پیش کرنے کے لیے متفقہ ایجنڈا تھا-
تاہم کسی متفقہ ایجنڈے کے بغیر ہی مذاکرات کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے- اس تسلسل کی پہلی کڑی 12 دسمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے-اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ آنے والا وقت انتہائی مشکل فیصلے کرنے اور آزمائشوں سے دو چار ہونے کا ہے- بین السطور ان کے اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی صدر کی جانب سے اٹھائے گئے نکات مثلا فلسطینیوں کے حق واپسی، قیدیوں کی رہائی، مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کے دارلحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کاا شارہ دے رہے ہیں-کانفرنس کی ناکامی یا کامیابی کا دارومدار بھی انہی اہم معاملات کے حل سے مربوط ہے- دوسری جانب حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے معاہدات بہت کیے جا چکے ہیں، اسرائیل نے ان معاہدات پر اتفاق کے باوجود عمل درآمد نہیں کیا- اگرچہ فلسطینی ریاست کی ضرورت کو اس نے تسلیم کر لیا لیکن وہ ایسا کرے گا نہیں بلکہ وقت گزارنے کا مزید راستہ بہانہ تلاش کرے گا اور یہ حربہ بھی اس کا حقائق سے راہ فرارکی چال ہے
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کانفرنس کے انعقاد سے قبل ہی اس کی ناکامی کا عندیہ دے چکے ہیں- انعقاد سے قبل انہوں نے کانفرنس کے شرکاء کے نام جاری اپنے ایک خط میں دو ٹوک انداز میں کہا کہ اگر اس کانفرنس کو کامیاب بنانا ہے تومشکل فیصلے کرنے کا عزم لے کر کانفرنس میں شریک ہوا جائے اور جتنے بھی متنازعہ امور ہیں ان کے حل کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل تیا کیا جائے- ایسا لائحہ عمل جو فلسطینیوں اور اسرائیل دونوں کے لیے قابل قبول ہو، جو خطے میں امن کی ضمانت فراہم کر سکے اور لائحہ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے نصف صدی سے زائد فلسطینی اسرائیلی کلیش ختم کیا جاسکے-بان کی مون کے مطالبے اور کوششوں کے باوجود فریقین ایسا کرنے میں میں ناکام رہے-کی مون نے مزید کہا کہ اس کانفرنس کی ناکا می نہ صرف خطے میں عدم استحکام کا باعث بنے گی، بلکہ ایک نئی سول وار پر منتج ہو گی- انہوں نے امریکہ ،یورپی یونین، عرب ممالک اور خصوصا متحارب فریقین (اسرائیل اور فلسطینی قیادت) سے بھی اپیل کی کہ وہ اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کا عزم لے کراس میں شریک ہوں- ورنہ اس کانفر نس کی حیثیت امریکہ کے ایک رسمی دورے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگی-
یورپی یونین کے مندوب برائے مشرق وسطی ٹونی بلیئر کانفرنس کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں مصروف رہے- کانفرنس کے انعقاد سے قبل انہوں نے عرب راہنماؤں کے علاوہ اسرائیلی اور روسی حکام سے بھی بات چیت کی- کانفرنس کے حوالے سے روس کاموقف سب سے مختلف ہے- روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اناپولس کانفرنس کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے خطے کی اصل متحارب قوتوں کو بھی شریک مذکرات کیا جائے- جب تک اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کو مذاکرات میں شریک نہیں کیا جاتا کانفرنس کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی- کانفرنس کو کامیاب بنانے کا اصل کام اسرائیل کے کندھوں پر ہے- دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کس حد تک فلسطینی قیادت کے مطالبات تسلیم کر تا ہے- روس نے بھی فلسطینی صدر کی جانب سے قیام امن کے لیے پیش کردہ شرائط، جس میں مقبوضہ بیت المقدس کو زاد فلسطینی ریاست کے دارلحکومت کے طورپر تسلیم کرانے اور بیرون ملک فلسطینیوں کی واپسی جیسے بنیادی امور کی حمایت کا اعلان کیا ہے-
دوسری جانب اسرائیل اپنے طور مطالبات کی الگ فہرست لیے کانفرس میں حاضر ہوا- اس کا کہنا ہے کہ صدرمحمود عباس فلسطین سے مزاحمت کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں- اسرائیل پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والی تمام عسکری تنظیموں پر پابندی لگا کر ان کا ناطقہ بند کردیا جائے- اس مقصد کے لیے اگر انہیں اسرائیلی فوج کی بھی ضرورت پڑے تو اسرائیل انہیں فوجی تعاون فراہم کرنے کو بھی تیار ہے-
اسرائیل کا نقطہ نظر ہے کہ جب تک فلسطین کی طرف سے مزاحمت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، خطے میں قیام امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی- اس کے علاوہ اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس اور ساٹھ لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کے مطالبے سے دستبراری کا مطالبہ کر رہا ہے- اسرائیل کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ القدس کے بعض صحرائی اور پہاڑی علاقوں کو ملا کر آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنا دیا جائے اور ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین فلسطینیوں کو1948ء کے ان کے آبائی علاقوں میں ان کے اصل وطن میں آباد کرنے کے بجائے غزہ اور غرب اردن کے فلسطینی ریاست میں شامل علاقوں میں آباد کر دیا جائے- اس سلسلے میں عبرانی اخبار ’’ہارٹز‘‘نے ایک نئی سازش کا بھی انکشاف کیا ہے جس کے تحت90 ارب ڈالر کے عوض پناہ گزینوں اور القدس کے مستقبل کا سودا کیے جانے کی ایک تجویز بھی زیر غور ہے- منصوبے کی تفصیلات کے مطابق اسرائیل اتنی خطیر رقم فلسطینیوں کو دینے پر رضامند ہے اور فی کس مہاجرین کو 21 ہزار ڈالر دے کر ان کی جائیداد ، املاک، زمین اورواپسی کے حق سے دستبردار کرایا جائے گا- فی کس21 ہزار ڈالر ادا کے علاوہ زمینوں اور املاک کے عوض14 ہزار ڈالر ادا کیے جائیں گے- اگرچہ اس پر فریقین نے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا گیا تاہم اس منصوبے کے بہت سے پہلوؤں پر غور کے بعد اس پر بات چیت مزید آگے بڑھائی جارہی ہے- توقع ہے کہ فریقین جلد اس کے کسی حتمی نتیجے تک پہنچ جائیں گے-
اسرائیل نے عرب ممالک سے بھی اپیل کی کہ دشمنانہ رویہ ترک کر دیں اور تل ابیب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں- دشمنی کسی کے مفاد میں نہیں بلکہ اب دوستی کے سوا چارہ ہی باقی نہیں رہا-
یورپی یونین بھی تواز ن کے ساتھ فلسطینی اور اسرائیلی قیادت پر دباؤ ڈالے ہوئے ہے- یورپ ایک طر ف حماس کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری جانب اسرائیل کو بھی رام کرنے کی سعی میں مصروف ہے- فلسطینی صدر پر یہ دباؤ بھی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھتے ہوئے حماس کو بھی اپنے ساتھ اس پراسس میں شامل کرنے کی کوشش کریں- کانفرنس کی ناکامی کی صور ت میں اسرائیل فلسطین پر کسی بڑے حملے کا بھی منصوبہ بنائے بیٹھا ہے- 18 ستمبر کو اسرائیل نے غرب اردن میں نئی فوجی مشقوں کا سلسلہ شروع کیا ہے- اسرائیلی شیڈول کے مطابق یہ مشقیں رواں سال جولائی میں ہونا تھیں، لیکن امریکی صدر جارج بش کی جانب سے نومبر میں امن کانفرنس کی تجویز کے پیش نظر یہ مشقیں ملتوی کر دی گئی تھیں- عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت کی رپورٹ کے مطابق ان مشقوں کا مقصد کانفرنس کی ناکامی کی صور ت میں غزہ پر حملے کی تیاری کرنا ہے- اسی حوالے سے ایک خبر شام کے ایک اخبار نے بھی شائع کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو پہلے سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ میری لینڈ کانفرنس میں ہونے والے فیصلے اس کے حق میں نہیں جاتے یہی وجہ ہے کہ وہ مستقبل کی پیش بینی کر رہا ہے – غرب اردن میں ہونے والی مشقوں کے در پردہ اسرائیل غزہ پر حملے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے-
دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اس کانفرنس کو پہلے ہی فلسطینی عوام کے خلاف ایک ڈھونک قرا ردی چکی ہے- حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسی ابو مرزوق نے دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس کے امریکہ اور اسرائیل کے پیش نظر صرف دو مقاصد ہیں- ایک کا تعلق اسرائیل سے ہے- امریکہ گزشتہ برس کی لبنان کے ساتھ اسرائیلی جنگ میں اسرائیل کو پہنچنے والی خفت اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتا ہے- جبکہ دوسرا مقصد خود امریکہ کا ذاتی ہے- امریکہ مشرق وسطی امن کانفرنس کے نام پر موجودہ امن کی فضاء کو بھی سبوتاژ کرنا چاہتا ہے- امریکہ عربوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے ایران کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کر رہا ہے- اس جنگ میں کامیابی سے عہد ہ بر ہونے کے لیے اسے ہر صورت میں خطے کے دیگر ممالک کا تعان درکار ہوگا – اب سوال یہ ہے کہ عرب ممالک ایران کے خلاف کسی بھی امریکی اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں- بعض عرب ذرائع کہتے ہیں مسئلہ فلسطین کو کسی ایک طرف کر دینے سے کم از کم عرب ایران کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ نہ بھی بنے تو غیر جانب دار رہیں گے اور امریکہ کو کسی بڑی عوامی یاحکومتی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا- اگر یہ ممالک غیر جانب دار بھی رہتے ہیں تو اس کا امریکہ کو فائدہ یہ ہوگا کہ غیر جانب دار ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کو بھی اس حملے کے خلاف کسی احتجاج کا حصہ بننے سے روکیں گی- میری لینڈ کانفرنس کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک کا اس کانفرنس میں بڑی تعداد میں شرکت کرنا اس کی بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایران سے خائف ہیں اور اس ضمن میں امریکہ اور اسرائیل کی ایران کے خلاف کسی بھی کارروائی کو جائز قرار دینے میں تاخیر سے کام نہیں لیں گے-
کانفرنس میں خطے کے بیشتر ممالک کی نمائندگی شامل رہی تاہم شام کی طرف سے امن کانفرنس میں شرکت کافیصلہ امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لیے باعث تعجب رہا- امریکہ اور اسرائیل کا خیال تھا کہ شام چونکہ فلسطین کی عسکری جماعتوں کی حمایت کرتا ہے- یہی وجہ ہے وہ ان کے موقف کے مطابق کانفرنس میں شرکت سے انکار کردے گا-شام کا کانفرنس شرکت کرنے کافیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ شام بھی خطے میں قیام امن کے لیے کسی بھی امن کوشش میں ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہے- اس نے اس کانفرنس میں شرکت کے عملا ً یہ ثابت کر دیا ہے کہ متنازعہ معاملات کے حل کا بہتر راستہ مذاکرات ہی ہیں-
خطے میں اسرائیل اور شام ہمیشہ ایک دوسرے کے سخت حریف چلے آرہے ہیں- اسرائیل گاہے گاہے شامی تنصیبات کو بھی نشانہ بنا چکا ہے- اگرچہ امریکہ اور اسرائیل نے شام کے کانفرنس میں آنے کا خیر مقد کیا ہے، تاہم یہ خیر مقدم زبانی حد تک محدود رہا تو شام قیام امن کے لیے کوئی ٹھوس کردار ادا نہ کر سکے گا -1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے شام کے زرخیز وادی گولان ہائٹس پر قبضہ کر لیا تھا- اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مسلسل کشیدہ رہے -کشیدگی کا خاتمہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسرائیل ان علاقوں سے دستبرار ہو جائے اور اپنی فوجیں واپس بلالے تو دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے قیام کی امید کی جا سکتی ہے-
امن کانفرنس کے اعلامیے سے بھی کئی سوالات جنم لے رہے ہیں- 2008ء کے اخیر تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے- اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست جو خطے میں قیام امن کی بنیادی ضرورت بھی ہے اور اس کے بغیر امن وسلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی- کانفرنس میں توجہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے تک محدود رکھی گئی- حالانکہ مطالبہ تو اس کانفرنس سے پہلے بھی کیا جا رہا تھا- اس کانفرنس میں اس ریاست کا نقشہ ، حدود اربعہ اور اس کے دیگراہم پہلوؤں پر بات چیت کا آغاز کانفرنس میں ہونا تھا، جو نہ ہو سکا- غیر جانب دار ذرائع اعلامیے کے پیش نظر تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ کانفرنس بھی قیام امن کے حوالے سے دورس اثرات کی حامل نہیں ہوگی-ایک عرب تجزیہ نگاررقم طراز ہے کہ
’’اسرائیل اس وقت ایک مشکل سے دوچار ہے- یہ مشکل اس کے لیے نئی نہیں، بلکہ ہمیشہ ان قوموں کو پیش آتی رہتی ہے جن کے جہانگیرانہ پندار کو پہلی مرتبہ ٹھیس لگانے کے لیے کوئی حقیر سی قوم پیدا ہو جاتی ہے- ایسے موقع پر ان قوموں کے تدبر کا خاص امتحان ہوتا ہے- اگر ان کے ارباب حل و عقدفہم و ادراک کے جوہر سے متصف ہوں تووہ حقائق کو ان کے اصلی رنگ میں دیکھ لیتے ہیں اور موقع کے ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اسے سنبھالنے کے لیے بالادستی کے منصب رفیع سے نیچے اترتے ہیں، لیکن وہ سلسلہ جنگ کو طول دینا چاہتے ہوں توان کی عقل خبط ہو جاتی ہے اور وہ اپنی سیادت کو قائم رکھنے کے لیے احمقانہ خواہش پر اپنی عزت ووقار کو بھی قربان کر دیتے ہیں- اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین کے اس امتحان میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہے- اگر اس کے مدبرین کے پاس تھوڑی سی بھی عقل موجود ہے تو وہ جلد فلسطین کی آزادی کو تسلیم کر لیں گے ورنہ انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ کچھ عرصہ بعدانہیں فلسطین کی آزادی کو تسلیم کرنا پڑے گا اور اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا- ڈاکٹر محمود زہار کے یہ الفاظ وزن رکھتے ہیں کہ’’ فلسطینی یہودیوں کو ایک اینچ زمین دینے کو تیار نہیں وہ فلسطین میں یہودیوں کے وطن کو کیسے تسلیم کر لیں گے‘‘کانفرنس کی کامیابی اور ناکامی کے لیے ایک سال کا عرصہ نہیں بلکہ یہ ایک نازک معاملہ ہے جواسرائیل کے کسی ٹارگٹ کلنگ حملے یا کسی فلسطینی کے فدائی حملے سے خلاء میں تعمیر کردہ محل زمیں بوس ہو سکتا ہے‘‘-
دوریاستی نظریہ اور زمینی حقائق
تنازعہ فلسطین کے حل کے لیے پہلی مرتبہ ’’دور یاستی نظریہ‘‘ اس وقت وجود میں یا جب سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات نے اسرائیل سے اوسلو معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا- بعد کے دیگر معاہدات میں یہ تصور مزید پختہ ہوتا گیا اور امریکہ کی جانب سے امن کوششوں میں فلسطین میں ’’دوریاستی تصور‘‘ کو نہ صرف زندہ رکھا گیا بلکہ اس پر مزید کام کرنے پر بھی زور دیاجاتا رہا -سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مرحلہ وار کام کی غرض سے روڈ میپ کا اضافہ کیا اور ایرئیل شیرون کے ساتھ فلسطینی معاہدات میں دو الگ الگ ریاستوں (فلسطین اور اسرائیل) کے وجود پر زور دیا –
اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی نظریے میں اسرائیل کو بطور’’یہودی ریاست‘‘ کے تسلیم کرانے کا مطالبہ جو اگرچہ پرانا ہے ، لیکن ایک بار پھر زور پکڑتا جا رہا ہے- اسرائیل کچھ عرصے سے ایک فلسطینی ریاست کے مقابل ایک یہودی ریاست کا راگ الاپ رہا ہے- اناپولس کانفرنس میں بھی اسرائیل خود کو بطور یہودی ریاست کے طورپر تسلیم کرانے پر زور دیتا رہا –
اس نظریے کے تحت مقبوضہ بیت المقدس، جنہیں اسرائیل نے 1948ء اور 1967ء کے دوران قبضے میں لیا تھاکو ملا کر ایک ’’یہودی ریاست‘‘ قائم کیا جانا شامل ہے جبکہ غرب اردن کے بعض شہر اور غزہ کی پٹی کو ملا کر ’’فلسطینی ریاست‘‘ کی تجویز دی گئی ہے-
اسرائیل کو خالصتا ً ایک’’ یہودی ریاست‘‘ کے طور پر فی الحال تسلیم نہیں کیا جا سکا، تاہم اسرائیل کی کوشش ہے کہ محمود عباس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل کو بطور ’’یہودی ریاست ‘‘تسلیم کرا لیا جائے- یہودیوں کے ہاں ایک خالص یہودی ریاست کے تصور کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل غیر یہودیوں کے خلاف نسلی امتیاز کو جائز قرار دے اور ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردے- یہودیوں کا یہ تصور ہے کہ وہ پیدائشی طور پر غیر یہودیوں کے خلاف امتیازی سلوک کرنے کا حق رکھتے ہیں- ایک یہودی ریاست کے غیر یہودی باشندے ملک کے لیے خطرہ بن رہے ہوں توانہیں ملک سے نکال باہر کیاجاجا سکتا ہے- اسی طرح یہودی ریاست کے تصور میں ’’یہودیت‘‘ (نسل پرستی) اور جمہوریت کو ہم معنی قراردیا جاتا ہے- یہودی یہودیت کو جمہوریت پر ترجیح دیتے ہیں- صرف یہودیوں کو ملک کے اصل باشندوں کی حیثیت حاصل ہوگی، اگر کوئی غیر یہودی اسرائیل کی شہریت اختیار کرنا چاہے گا تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ پہلے یہودیت قبول کر لے- ریاست کے اس تصور کے بعد دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے اسرائیل منتقل ہونا لازمی ہوگا- اور بالفرض یہودی اسرائیل منتقل نہیں ہوتے تو وہ اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہوئے اسرائیلی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں- اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کرلینے اور اسے قانونی جواز فراہم کرنے کے بعد اسرائیل کے لیے ملک کے غیر یہودیوں کی نسل کشی کا جواز فراہم جو جائے گا- اسرائیل نسلی تطہیر کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا جو وہاں کے باشندوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگی-
حال ہی میں جب اس تصور نے حقیقت کا روپ دھارا تو مقبوضہ فلسطین کے ایک سماجی ادارے’’ تنظیم امور مہاجرین واقلیت‘‘ کی جانب سے اقوام متحدہ میں’’یہودی ریاست ‘‘کا راستہ روکنے کے لیے ایک درخواست دائر کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے- تنظیم کے سربراہ عبداللہ صالح کا کہنا ہے کہ وہ اپنا یہ مقدمہ لے کر پوری دنیا میں انسانی حقوق کے ذمہ دار ادارں کے پاس جائیں گے اور اسرائیل کو ایک یہودی ریاست بننے سے ہر ممکن طریقے سے روکیں گے-
دوسری جانب اسرائیل میں انتہا پسند یہودی پوری تنددہی کے ساتھ یہودی ریاست کے قیام کے لیے کوششوں میں مگن ہیں-اگر عالمی سطح پر اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کر لیا جاتا ہے تو فلسطینی عوام کی نسل کشی کا ایک نہ ختم ہونے والا باب شروع ہو گا- نسل کشی کے اس طوفان کی زد میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی جو اسرائیل میں اچھی خاصی آبادی کی حامل اقلیت ہیں بھی اس طوفان کی زد میں آئیں گے- لہذا اس وقت کسی بھی ایسے خطرے اور اسرائیل کو یہودی ریاست بننے سے روکنے کے لیے پوری دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا-
دو ریاستی نظریے میں دوسری فلسطینی ریاست کے کانام شامل ہے- یہ ریاست برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسرائیل کی ماتحت اور اس کی باجگزار کے طورپر قائم کی جارہی ہے-امریکہ اور اسرائیل کے لیے کسی صورت میں بھی کوئی ایسی ریاست قابل قبول نہ ہوگی جو آزادی کے اعتبار سے اسرائیل کے برابر کا درجہ رکھتی ہو- اسرائیل یہ باربار اعلان کر چکا ہے کہ وہ صرف ایسی فلسطینی ریاست قبول کرے گا جس کی سرحدوں کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہوگا- بیرونی دنیا سے اس ریاست کا رابطہ اسرائیل کی اجازت سے ہوگا اور فلسطینی اتھارٹی اور اس کی حکومت کو اسی صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب وہ اسرائیل کی سالمیت، بقاء اور سلامتی کی ضمانت دے گی- اس کے علاوہ فلسطینی ریاست کی حکومت اسرائیل مخالف قوتوں کو بزرو قوت ختم کرنے کی ذمہ دارہوگی اور ضرورت پڑنے پر اسرائیلی فوج کو اپنی ریاست میں مداخلت کی کھلی چھٹی دے گی –
اب سوال یہ ہے کہ یافلسطینی کسی ایسی ریاست کو قبول کر لیں گے، جو کلی طور پر خود مختار نہ ہو بلکہ اسرائیل کے ماتحت ہو – اس طرز کی ریاست فلسطینی کسی صورت بھی تسلیم نہیں کریں گے – فلسطین کی ایک بڑی سیاسی جماعت اسلامی تحریک مزاحمت(حماس)اور دیگر مزاحمتی جماعتیں فلسطینی ریاست کے اس تصور کی قطعی مخالف ہیں- وہ کسی صورت میں بھی ایسی ریاست کی داغ بیل ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گی- اب سوال یہ ہے کہ اس کھچڑی کے بعد فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا دو ریاستی نظریہ اپنی موت مر جائے گا- اس سوال کا جواب سابق مصری صدر عزیز صدقی نے حال ہی میں استنبول میں منعقدہ القدس کانفرنس کے میں خطاب کے دوران دیا انہوں نے کہا’’ فلسطینیوں اور عربوں کے پاس آزادی اور اپنے حقوق کے حصول کا واحد ذریعہ طاقت کا استعمال ہے، جو چیز طاقت کے زور سے چھینی گئی ہووہ طاقت ہی کے ذریعے واپس لی جاسکتی ہے- زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کا ایک ایسا حل جو فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کا خون کر کے پیش کیا جائے گا فلسطینی اسے ہرگز قبول نہ کریں گے، لہذا اس کا بہتر اور پائیدار حل یہی ہے جوفلسطین کی تمام قوتوں اور عوام کامطالبہ ہے تمام فیصلے عوامی سوچ کو مد نظر رکھ کر کیے جائیں- ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جو آزادی اور خود مختاری میں کسی بھی بیرونی طاقت کے زیر نگیں نہ ہو اور ہر اعتبار سے وہ اسرائیل کے برابر ہو‘‘-
میری لینڈ میں منعقدہ مشرق وسطی امن کانفرنس میں بھی صدربش نے اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم کرنے پر زور دیا- اجلاس کی افتتاحی خطاب میں صد ر بش نے کہا کہ عرب ممالک کو چاہیے کووہ اسرائیل کو ایک ’’جیوش اسٹیٹ‘‘ کے طور پر تسلیم کر لیں- اس کے ردعمل میں حماس کے راہنما اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر محمود الزہار نے غزہ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی تو اپنے وطن کی ایک اینچ بھی یہودیوں کے قبضے میں نہیں دیکھنا چاہتے، وہ پوری ایک یہودی ریاست کو کیسے برداشت کر لیں گے- فلسطینیوں کی اصل جنگ کا محور یہودیوں کو نکال باہر کرنا ہے-
ڈائٹون پلان
رواں سال مارچ کے اوائل محمود عباس کی جماعت فتح اور حماس سمیت فلسطین کی دیگر سیاسی جماعتیں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ثالثی پر مکہ مکرمہ میں ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کا معاہدہ کررہی تھیں- اسی دوران میثاق مکہ کو بے اثر کرنے کے لیے اسرائیلی و امریکی حکام سر جوڑ کر بیٹھے اور محمود عباس کو ایک بار پھرحماس سے الگ کرنے کے لیے سوچ بچار کر نے لگے- اسرائیلی وزیر خارجہ ٹسیبی لوینی خصوصی طور پر واشنگٹن کے دورے پرگئیں اور امریکہ کو فلسطینیوں کے باہمی اتحادپر اپنی تشویش سے آگاہ کیا-
اعلان مکہ کے بعد اسرائیل نے صدر عباس اور اس کی جماعت کو حماس کا ساتھی قرار دے کر اس سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لیے- امریکہ کو بھی اس سے آگاہ کر دیا گیا – ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے بھی اولمرٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ حماس کے ساتھ اکٹھ کرنے والی کسی جماعت یا شخصیت سے مذاکرات ختم کر دیے جائیں گے- اس کے ساتھ ہی امریکہ نے صدر محمود عباس کو دباؤ اور لالچ کے ذریعے حماس سے کیا ہوا معاہدہ توڑنے مجبورکیا- صدر محمود عباس کوبتایا گیا کہ امریکہ فلسطین میں امن و امان کے قیام کے لیے اب ٹھوس اقدامات کرنے جا رہا ہے، یہ اقدامات اسی وقت قابل عمل ہو سکتے ہیں جب فلسطین میں حماس جیسی متشدد (بنیاد پرست ) اور اسرائیل مخالف قوتوں کا خاتمہ کر دیا جائے – اس سلسلے میں بش انتظامیہ نے غرب اردن کے لیے ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا- اس منصوبے کا کرتا دھرتاخارجہ کمیٹی کے اعلی عہدیدار لیفٹیننٹ (ر)جنرل کیٹ ڈائٹون کو بنایا گیا- جنرل ڈائٹون کچھ ہی عرصہ قبل مشرق وسطی امور کے معاون مقررہوئے تھے –
جنرل کیٹ ڈائٹون نے بالعموم پورے فلسطین اور بالخصوص غرب اردن کے لیے ایک نئے امن منصوبے پر کام شروع کیا- منصوبہ خفیہ رکھا گیا تاہم اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ نے اپنی اپریل کی آخری اشاعت میں امریکہ کے امن منصوبے کے متعلق ایک رپورٹ شائع کر کے اسے افشاء کردیا-امریکی حکام نے رپورٹ کی تردید کی- اس کے ساتھ ہی یکم مئی کو ایک اردنی ہفت روزے ’’ الماجد‘‘ نے ڈائٹون پلان پر مشتمل سولہ صفحات کی ایک رپورٹ شائع کر کے اس منصوبے کو مزید نمایاں کردیا-
خفیہ امن منصوبے میں کچھ شرائط ایسی تھیں جن کا تعلق براہ راست امریکہ اور فلسطینی صدر سے تھا جبکہ کچھ شرائط کی زد اسرائیل پر بھی پڑتی تھی- منصوبے کا نام ’’ڈائٹون پلان‘‘Dyton Plan)) رکھا گیا- ’’ڈائٹون پلان‘‘ کے تحت امریکہ نے فلسطین میں امن و امان کے قیام اور اسرائیل مخالف مزاحمت کے خاتمے کی شرائط کے تحت 59 ملین ڈالر کی رقم بھی مختص کی- اس خطیر رقم میں سے 20 ملین ڈالر فلسطینی صدر محمود عباس کے زیر کمانڈسکیورٹی کو ہلکے ہتھیاروں کی صورت میں میں دینا تھے- پلان میں فلسطینی صدر محمودعباس کو جواب دہ8500 سکیورٹی اہلکاروں کی تربیت بھی شامل تھی- بعدا زاں امریکہ نے عباس کے کل چالیس ہزار سکیورٹی اہلکاروں میں سے 13500 جوانوں کو عسکری تربیت فراہم کرنے کے لیے86.4 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا- امریکی کانگریس کے اعلان کردہ امدادی پیکیج میں سے 15 ملین ڈالر کی رقم سے غرب اردن اور اس کے نواح میں سکیورٹی کیمپوں کی تعمیر کا بھی اعلان کیا گیا تھا- سکیورٹی اہلکاروں کو عسکری تربیت کی فراہمی کے لیے مرحلہ وار منصوبہ تیار کیا گیا- جس میں طے پایا گیا کہ چھ ماہ کے اندر 670 اہلکاروں کو تربیت فراہم کی جائے گی- ڈائٹون پلان میں اردن میں البدر فورسز کے لیے آٹھ ملین ڈالر کی رقم بھی مختص کی گئی تاکہ فتح کی کمزوری کی صورت میں اردن میں قائم البدر فورسز کو فلسطین میں مزاحمت کاروں کے خلاف تیار کیا جا سکے-
یہ امداد محمود عباس تک پہنچانے کے لیے صدر عباس کو کئی امریکی شرائط بھی تسلیم کرنا تھیں- مثال کے طور پر صدر محمود عباس فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں سے اتحاد توڑ کر اسرائیل سے مذاکرات شروع کریں گے-اسلحہ اور رقوم کے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ہاتھ نہ لگنے کی یقین دہانی کرانی ہو گی وغیرہ- رقم فوری طورپر ادا نہیں کی جائے گی بلکہ مرحلہ وار اور شرائط پر عمل درآمد کو دیکھتے ہوئے فراہم کی جائے گی-
’’ ڈائٹون پلان‘‘ میں اسرائیل سے غرب اردن میں قائم 450 غیر قانونی فوجی چوکیوں کواٹھانے کامطالبہ بھی شامل تھا ،جو بعد میں ختم کر دیا گیا- اس کے علاوہ شہریوں کو مد رفت کے لیے رفح کراسنگ، کرم ابو سالم اور ’’عوجا‘‘ جیسی بین الاقوامی راہداریوں پر مسافروں کو سہولیات فراہم کی جائیں-غرب اردن کے شہریوں کو 1948 ء کے مقبوضہ فلسطین میں محنت مزدوری کے لیے جانے کی اجازت مہیا کی جائے- محمود عباس کے ساتھ مذاکرات میں جذبہ خیر سگالی کے تحت اس کی فتح کے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے وغیرہ- اسرائیل نے منصوبے کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے مستر د کر دیا- اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ’’ ڈائٹون پلان میں اسرائیل کے سامنے قیام امن کے لیے پیش کردہ شرائط نا قاقبل قبول ہیں- فوجی چوکیوں کے ہٹانے یا کم کرنے سے اسرائیل مزید حملوں کی زد میں آجائےگا- غرب اردن کے شہریوں کو تل ابیب تک رسائی فراہم کرنے اور ان کی آمد رفت میں نرمی لانے سے کا مطلب خود کش بمباروں کو تل ابیب پر حملے کرنے کا موقع فراہم کرنا ہو گا، البتہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ محمودعباس سے ہونے والے مذاکرات میں اعتماد پر منحصر ہے-ڈائٹون پلان پر عمل درآمد کے لیے جنرل ڈائٹون جکل پھر متحرک ہیں- اسرائیل پر عائد شرائط پر نظرثانی کرتے ہوئے فوجی چوکیوں اور شہریوں کے1948 کے مقبوضہ علاقوں تک رسائی کی شرائط ختم کردی گئی ہیں- اگرچہ یہ منصوبہ بھی فی الحال روبہ عمل ہے اور امریکہ خطے میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے کوششوں میں مصروف ہے-مسٹر ڈائٹون کے ذمے فلسطین میں اسرائیل کے ماتحت ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھی، جو اگرچہ اپنے مقاصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے- اناپولس کانفرنس کے بعد مسٹر ڈائٹون بھی اپنے اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں- ان کی نگرانی میں عباس ملیشیا کو عسکری تربیت بھی دی جا رہی ہے- اس کے علاوہ مسٹر ڈائٹون عباس ملیشیا اور اسرائیلی فوج کے درمیان سکیورٹی تعاون پر بھی کام کر رہے ہیں-
غزہ میں موت،غربت کے سائے
مارچ 2006ء میں غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کی منتخب قومی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسرائیل نے حماس کی کابینہ اور اہم وزراء کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کردیا-جو تاحال پابند سلاسل ہیں- اسرائیل نے غزہ کی پٹی کودشمن ریاست قرار دیتےہوئے اس کی ہر طرف سے معاشی ناکہ بندی شروع کردی- غزہ کے تمام بیرونی راستوں پر سکیورٹی سخت کردی اور فلسطینی عوام کو جمہوریت کے جرم میں حماس سے تعاون کے جرم میں کڑی سے کڑی سزادی جانے لگی-
انتقام پالیسی صرف اراکین حکومت کے پکڑ دھکڑ تک ہی محدود نہ بلکہ عام شہریوں کو بھی مجرم قرار دے کر اہل غزہ کی زندگی اجیرن کردی- فلسطین کو واجب الادا ء ٹیکس روک لیے اور بیرونی امداد غزہ میں داخل ہونے پر پابند ی عائد کردی، حتی کہ بجلی، پانی اور ایندھن کے دیگر ذرائع بھی بند کر دیے گئے -اسرائیل کے ان انتقامی اقدامات کو ایک ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے- حال ہی میں ایک عالمی ادارے نے انسداد غربت کے حوالے سے اقوام متحدہ میں فلسطین خصوصا غزہ کی پٹی میں شہریوں کی دگرگوں حالت کے بارے میں ایک تخمینہ پیش کیا، جس کے مطابق اسرائیلی معاشی ناکہ بندی کے دوران فلسطین میں غربت کی شرح میں 23 فیصد اضافہ ہو گیا ہے اور اس طرح غربت کی شرح79فیصد تک پہنچ چکی ہے-
اسی قسم کی ایک رپورٹ مہاجرین کی فلاح وبہودکے عالمی ادارے’’اونروا‘‘ نے بھی پیش کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ بالعموم فلسطین بھر میں بالخصوص غزہ کی پٹی کے لاکھوں کا طبی معائنہ کیا گیاتو ان میں سے بیشتر غذائی قلت کا شکارتھے-عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق1998 ء میں غزہ میں غریب طبقے کی تعداد6 لاکھ72 ہزارتھی جو 2006 ء میں بڑھ کر 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور دس لاکھ فلسطینی50 سینٹس یومیہ کے حساب سے اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے پر مجبور ہیں- 46 فیصد شہریوں کے لیے بیرونی امداد کے بغیر زندگی بسر کرنا ناممکن ہو گئی ہے -12 فیصد گھرانوں کو دن میں دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں- بیروزگاری کی شرح اس قدر کم ہو گئی ہے ایک سال کے دوران غزہ اورفلسطین کے دیگر علاقوں میں2 لاکھ 60 ہزار فلسطینی بے روزگار ہیں- ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ ناکہ بندی کی وجہ سے فی کس آمدنی 40 فی صد گر گئی ہے-
فلسطین میں غربت کے حوالے سے رہی سہی کسر صدر محمود عباس کی پالیسیوں نے نکال دی ہے- کچھ عرصہ قبل صدر عباس نے عوامی بہبود کے لیے کام کرنے والے 135 اداروں کو بند کردیا- یہ تمام ادارے فلسطینیوں یتیموں، بیوائوں اور غریبوں کی کفالت کرتے تھے- ایک اندازے کے مطابق فلسطین کے5 لاکھ شہری ان خیراتوں اداروں کی سہارے پر زندگی بسر کر رہے تھے- بجلی کے بحران، کراسنگ کے راستوں کے مقفل ہونے کی وجہ سے ہر شہری متاثرہو رہا ہے لیکن سب سے زیادہ ابتری سے دوچارمیڈیکل کا شعبہ ہے-غزہ میں ادویات کی سخت قلت ہے اور شہری ہسپتالوں سے بغیر ادویات کے واپس اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں- بیرونی امداد بند ہونے کی وجہ سے رقوم کی غزہ منتقلی کا سلسلہ بھی مکمل طور پر بند ہے- فلسطینی اتھارٹی جو کہ فلسطین کے تمام ملازمین کو تنخواہیں جاری کرنے کی ذمہ دار ہے-
فلسطین میں ابتلائے انسانیت کا فتنہ اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے،لیکن عالمی برادری میں اس معاملے میں سردمہری باعث حیرت ہے- بالخصوص غزہ کی پٹی میں حالات کی ابتری پر اقوام متحدہ نے صدائے احتجاج بلند کی ہے- مقبوضہ علاقوں میں اقوام متحدہ کے نمائندہ جان ڈیوگارڈ کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے قائم چار رکنی کمیٹی (امریکہ، روس ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ) کی پشت پناہی ترک کر دینی چاہیے، کیونکہ یہ کمیٹی غزہ میں انسانی المیے سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے-